مولانا آزاد اور علامہ اقبال کے غیر معمولی افکار و نظریات سے آنے والی صدیاں مسلسل مستفید ہوتی رہیں گی

0
0

گلبرگہ میں انجمن ترقی اردو کے یادگار لکچرس
گلبرگہ  (یواین آئی) علامہ اقبال کی شخصیت میں ایسا تنوع پایا جاتا ہے کہ اب تک اقبالیات پر پانچ ہزار سے زائد کتابیں لکھی جانے کے باوجود اور کئی پہلوؤں پر بہت کچھ لکھے جانے کی واضح تشنگی محسوس کی جاتی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار ضیاء الدین نیئر نائب صدر مجلس تعمیر ملت و کارگزار صدر اقبال اکادمی حیدر آباد نے خواجہ بندہ نواز ایوان اردو میں انجمن ترقی اردو ہند شاخ گلبرگہ کے زیرِاہتمام منعقدہ علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد یادگار لکچرس سے ”عصرِحاضر میں فکرِاقبال کی اہمیت” کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے موجودہ تحقیقی روش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق ہم سے عمدگی اور معیار کا تقاضہ کرتی ہے جس کے لئے حقیقی لگن، جستجو اور انہماک کی شدید ضرورت ہے ۔ صدر انجمن امجد جاوید نے اپنے صدارتی خطاب کیا۔ رکن انجمن ترقی اردو محترمہ ڈاکٹر شمیم ثریا معتد سلیمان خطیب یادگار تعلیمی،ثقافتی، وتہذ یبی امدادی ٹرسٹ گلبرگہ نے کہا کہ مولانا آزاد ہندو مسلم اتحاد کے ایک عظیم علمبردار تھے جنہوں نے تقسیم ہند کے موقع پر مسلمانوں کو ایک دور رس اور مفید ترین مشورہ دیا جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا غماز ہے ۔ انہوں کہا کہ مولانا ابوالکام آزاد اور علامہ اقبال دونوں دانشوران کو شعر و شاعری کا شغف تھا تاہم مولانا نے سیاست اور صحافت کو ترجیح دی اور علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ دنیا بھر میں فلسفہء خودی، فلسفہء عشق اور فلسفہء شاہین کی وجہ ایک انقلاب پیدا کیا۔ پروفیسر حمید سہروردی سابق صدر انجمن وسابق صدر شعبہ اردو و فارسی گلبرگہ یونیورسٹی نے ”مولانا ابوالکلام آزاد کی ادبی خدمات” پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مولانا نے حیرت انگیز طور پر انتہائی کم عمری میں نثر نگاری اور شاعری کا آغاز کیا۔ ان کے پیشِ نظر میر امن دہلوی کی داستان نگاری، سر سید احمد خان اور ان کے رفقائ، محمد حسین آزاد کی شگفتہ تحریریں، پریم چند اور گزشتہ دور کے قلمکار بھی تھے ، ان کی صحافتی، ادبی اور مذہبی تحریروں کا منفرد رنگِ زبان ان کے عمیق مطالعہ اور مخصوص تربیت اور ان کی غیر معمولی ذہانت کا ترجمان ہے ۔ ڈاکٹر ماجد داغی معتمد انجمن ترقی اُردو نے دورانِ نظامت اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اقبال شاعری کو اپنی ذات کی خواہشات اور مسائل و مصائب کے گرداب سے نکال کر فرد، معاشرہ، قوم اور ملت کی آزادی ترقی، خوش حالی، فلاح اور دین و دنیا کی کامیابی اور کامرانی کی ہر دم جواں، پیہم رواں، باعمل اور بامقصد زندگی کی سحر انگیز وادی اور کائنات کی وسعتوں میں لے گئے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمہ گیر شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ماجد داغی نے کہا کہ مولانا ابوالکام آزاد ایک عالمِ دین تھے جو قرآن، فقہ، علم الکلام، علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے ۔ وہ ایک عظیم خطیب زبردست صحافی، عظیم دانشور بلند پایہ مفکر، فلسفی اور جنگِ آزادی کے عظیم قومی رہنما بھی تھے ۔ ان کی ادبی، سماجی، تاریخی اور سیاسی تحریروں میں قرآن کے بے شمار حوالے موجود ہیں۔ڈاکٹرمحمدافتخارالدین اختر نے حرفِ آغاز اور ولی احمد سابق صدر و خازن انجمن نے مہمانان کا تعارف پیش کرتے ہوئے خیر مقدم کیا۔جلسہ کا آغاز قاری پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر سابق صدر شعبہ اردو و فارسی وسابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس گلبرگہ یونیورسٹی کی قرآت کلامِ پاک سے ہوا۔قبل ازیں شاہنواز شاہین نائب صدر انجمن، خواجہ پاشاہ انعامدار معتمد تنظیمی امور اور اراکین عاملہ پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر اور ڈاکٹر اسماء تبسم نے مہمانوں کو شال اڑھا کر تہنیت پیش کی، ڈاکٹر ماجد داغی معتمد انجمن نے نظامت کے فرائض انجام دئے اور انہیں کے شکریہ پر یادگار لکچر اختتام پذیر ہوا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا