جموں و کشمیر میں موسم سرما کی شروعات ویسے تو اکتوبر، نومبر میں ہو ہی جاتی ہے لیکن شدید قسم کی سردی کا آغاز تقریباً ماہ دسمبر سے ہی ہو تا ہے ۔ جغرافائی لحاظ سے جموں وکشمیر کے مختلف علاقہ جات میں مختلف اقسام کی موسمی صورت حال دکھنے کو ملتی ہے ۔ جبکہ اس دوارن جموںمیں شدید دھند ، کی وجہ سے خوب سردی ہوتی ہے وہیں وادی کشمیر میں برفباری اور بارشوں کی وجہ سے خوب ٹھنڈ پڑتی ہے ۔ لیکن اس بار کے موسم سرما کو اگر دیکھا جائے تو ، موسم کی صورتحال پوری طرح سے بدل چکی ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے قدرت کی کوئی بڑی ناراضگی ہے ۔ا یک قسم کی قحط اور خشک سالی سا ماحول بن رہا ہے ۔واضح رہے قحط اور خشک سالی بڑی قدرتی آفات ہیں۔ خشک سالی کا لفظ ہمارے ذہن میں پانی، خوراک، چارے اور بے روزگاری کی کمی کی تصویر لاتا ہے۔حالات ایسے ہوجاتے ہیں ہزاروں لوگ دن میں ایک وقت کھانا بھی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو گھاس پر، جنگلی جڑوں اور درختوں کی پتیوں پر رہنا پڑتا ہے۔ یہی نہیں، بھوک سے کئی اموات بھی ہو جاتی ہیں۔علاوہ ازیں چارہ نہ ملنے سے مویشی مر جاتے ہیں۔ کنویں اور دریا خشک ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ پینے کے پانی کے حصول کیلئے دور دراز کا سفر کرتے ہیں۔بہر کیف خدا نہ کریں ایسے حالات دیکھنے کو ملیں ۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے عوام کو بھی ماحول کے تئیں بہت بیدار رہنے کی ضرورت ہے ۔کئی ایسی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے موسم تبدیل ہو رہے ہیں۔ وہیں قحط اور خشک سالی کی وجوہات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ جنگلات کی کٹائی یا درختوں کی ہر طرح سے کٹائی نہ صرف بارشوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ درختوں کی عدم موجودگی میں بارش کا پانی دریاؤں اور سمندروں میں تیزی سے بہہ جاتا ہے۔ اسلئے بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور مزید بارشوں کو راغب کرنے کیلئے درختوں کی شجرکاری کا کام شروع کیا جانا چاہیے۔ پانی کو وافر مقدار میں ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس طرح کی قدرتی آفات ملک میں وقفے وقفے سے آتی رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس کے باوجود ہم سیلاب، طوفان، خشک سالی، زلزلوں وغیرہ کے سامنے بے بس ہیں، تاہم جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو حکومت اپنی پوری کوشش کرتی ہے، لیکن یہ بہتر ہے کہ عوام بھی ان کی شدت اور اثر کو کم کرنے کیلئے کچھ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں تاکہ موسم کی ایسی صورت حال نہ دیکھنی پڑے ۔