موجودہ دور ایک ترقی یافتہ دور ہے

0
0

افغان خواتین کی تعلیم پہ منڈلاتے سیاہ بادل

علیزے نجف

موجودہ دور ایک ترقی یافتہ دور ہے، تمام ہی شعبہ ہائے حیات میں اس ترقی کے اثرات مرتب ہو چکے ہیں آج سے سو سال پہلے ایک عام انسان کے لئے جس طرح کے وسائل اور ترقی کا تصور کرنا محال تھا آج وہ نہ صرف سب کے سامنے ہے بلکہ سب کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے، گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ان تمام اقدار و روایات کو الوداع کہہ دینا چاہئے جو عقل و شعور کے منافی ہیں اگرچہ مکمل طور سے یہ ترک رسوم ممکن نہیں کیوں کہ منطق کے ساتھ جذبات بھی اپنی ایک مستحکم حیثیت رکھتے ہیں اس سے یکسر دامن نہیں چھڑایا جا سکتا کچھ لوگ اسی جذباتیت کو اپنی خودساختہ توجیہ دے کر اپنائے رکھنے پہ بضد ہیں لیکن اس کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں ہو سکتا وسیع پیمانے پہ محض جذباتیت کے سہارے کسی نظریے کو فروغ دینا ممکن نہیں۔ موجودہ دور میں پائی جانے والی ہر طرح کی ترقی علم کی مرہون منت ہے، سائنسی علوم نے ٹکنالوجی کی دنیا میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے اس سفر میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی اپنا ایک حصہ رہا ہے جو کہ وقت کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے، آج کی تاریخ میں تعلیمی بساط پہ مرد کے ساتھ ساتھ عورت کے ہونے کی لازمیت کو تقریبا ہر سطح پہ قبول کر لیا گیا ہے، آج عورت کم و بیش ہر شعبے کا انتخاب کا حق رکھتی ہیں بے شک اس کے ساتھ ان کو کئی طرح کے چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا وہ پوری ہمت اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہیں۔
دنیا کے اس وسیع تعلیمی منظرنامے پہ ایک تصویر ایسی بھی ہے جو کہ اس کے بلکل برعکس ہے وہ ہے طالبان کا  افغان خواتین کو اعلی تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا۔ پچھلے دنوں میرے نظر سے ایک ویڈیو گذری جس میں ایک کلاس روم میں ایک الوداعی نظم پڑھ رہی تھی باقی لڑکیاں رو رہی تھیں  وہ پرائمری کی لڑکیاں تھیں ان کا تعلیم سلسلہ روکا جا رہا تھا کیوں کہ طالبان نے لڑکیوں کی سیکنڈری تعلیم پہ پابندی عائد کی ہوئی ہے وہ لڑکیاں اعلی تعلیم کے حاصل نہ کرنے کا دکھ کا اظہار تو کر رہی تھیں وہ انتہائی افسوسناک منظر تھا   موجودہ دور کی ساری ترقیاں جو کہ علم کے مرہون منت ہے ایسے میں افغان حکومت کی یہ تنگ نظری اسلام کے تئیں لوگوں کے اندر منفی و بےبنیاد خیالات کو مزید فروغ دے سکتا ہے،  یہ انانیت آمیز فیصلہ کبھی بھی نتیجہ خیز نہیں بن سکتا، جلد یا بدیر افغانی عوام اس سے نجات حاصل کر لیں گے ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کشمکش کی مدت میں افغانستان کی خواتین کو ایسی مشکل میں ڈال دیا جائے گا جو ان کو کئی سال پیچھے دھکیل دے گا۔ ایسے دور میں جب کہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے ایسے خودساختہ اقدار کو فروغ دینا تقریبا ناممکن ہے جو کہ فطرت اور زمانے کے تقاضوں کے منافی ہے، افغانستان کی اقتصادی حالت اتنی اچھی نہیں ہے کہ وہ عالمی برادری کے اعتراضات کو نظر انداز کر کے من مانے فیصلے کر سکے کیوں کہ ایسا ہونے کی صورت میں اسے کئی طرح کی پابندیاں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کی سزا افغانی عوام ہی بھگتیں گے، طالبان کو پہنچنے والا نقصان محض ایک قبیلے یا تنظیم کا ہو سکتا ہے جب کہ عوام کو پہنچنے والا نقصان کئی انسانی نسلوں کو متاثر کرے گا، امریکہ کے انخلا کے بعد جب سے طالبان نے حکومتی انتظامات سنبھالا ہے انھوں نے کئی سارے ایسے فیصلے کئے ہیں جس نے عورتوں کو کئی صدی پیچھے دھکیل دیا ہے  طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیاں چار طرح  کی ہیں: سیاست سے بے دخلی، عوامی سرگرمیوں پر پابندیاں، تعلیم پر پابندی، اور کام کرنے کے حق پر پابندی۔ یو این اے ایم اے’ کے مطابق ”ان پابندیوں کے ذریعے افغان خواتین اور لڑکیوں کو ان کے گھروں کی چاردیواری میں بند کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی سابقہ طرز حکومت کے مقابلے نرمی کا معاملہ کریں گے، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کے کئے جانے والے فیصلوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی ذہنیت آج بھی وہی ہے۔ سترہ ستمبر 2021 کو وزارتِ تعلیم کے ایک نیوزلیٹر میں صرف مرد طلبہ و اساتذہ سے یونیورسٹیوں میں لوٹنے کے لیے کہا گیا مگر ساتویں سے بارہویں جماعت تک کی لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول میں لوٹنے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ افغان خاندانوں کو اُمید تھی کہ نئے تعلیمی سال میں یہ اسکول کھلیں گے کیونکہ کچھ طالبان حکام نے عوام کو یہی یقین دلایا تھا۔  نیا تعلیمی سال 23 مارچ 2022 کو شروع ہوا اور کئی لڑکیاں سکول گئیں مگر روتی ہوئی واپس آئیں کیونکہ اُنھیں آخری وقت پر سکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں سیکنڈری تعلیم کی بھی کوئی  خاص حیثیت نہیں تو پرائمری تعلیم کی بھلا کیا حقیقت ہو سکتی ہے، یہ دور اسپیشلائزیشن کا دور ہے ایسے میں لڑکیوں کو اعلی تعلیم سے دور رکھنا انتہائی احمقانہ فیصلہ ہے، اس ڈجیٹل دنیا میں جب کہ ساری ترقی تعلیم سے جڑ چکی ہے طالبان کس طرح ترقی کے خواب دیکھ رہی ہے یہ واقعی حیرت میں ڈال دینے والی صورتحال ہے۔ اس بات کا اندیشہ کئی گنا بڑھ چکا ہے کہ طالبان نہ صرف افغانی عوام کے مستقبل کو مخدوش بنا رہے ہیں بلکہ اسلام کے معترضین کو اعتراض کے مزید مواد فراہم کر رہے ہیں۔
ایسے میں یہاں پہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان اسلامی حکومت کے نام پہ غیر اسلامی اقدار کو کیوں فروغ دینا چاہتے ہیں، اسلام میں مرد اور عورت کی تعلیم کو یکساں اہمیت دی گئی ہے تو پھر یہ طالبان کس اسلامی تعلیم کی بات کر رہے ہیں، کیا وہ اپنے قبیلے اور خاندان کی روایت کو اسلام کے نام پہ نافذ کرنے کے جتن کر رہے ہیں، طالبان کے ہاتھوں میں اس وقت محض ایک قبیلہ یا تنظیم نہیں جسے وہ ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کا سوچ رہے ہیں بلکہ ایک ملک ہے جس میں متنوع قوم اور قبیلے کے لوگ رہ ہے ہیں اس جمہوری دور میں ان پہ ڈکٹیٹر شپ لاگو کرنا کبھی بھی افغانستان جیسے کمزور ملک کے لئے سود مند ثابت نہیں ہو سکتا، اس میں کسی ایسی روایت یا اقدار  کو نافذ نہیں کیا جا سکتا جو کہ وسیع النظری سے عاری محدود طبقے کی ذہنیت کی ترجمانی کرتی ہو، افغانستان کی آبادی کا نصف حصہ عورتوں اور لڑکیوں پہ مشتمل ہے ان کو تعلیم سے محروم رکھنے کا مطلب آدھی ابادی کو جنگل میں چھوڑ دینا ہے اس سے پورے ملک کے اقتصادی، سیاسی و معاشرتی نظام میں انتشار پیدا ہوگا، کوئی بھی قوم عورت کے بنیادی حقوق اور اس کے وجود کو نظر انداز کر کے ترقی نہیں کر سکتی اگر عورتیں بےشعور اور زمانے کے تقاضوں سے نا واقف رہیں تو وہ اپنے بچوں کی تربیت کیسے کر سکیں گی، خاندانی اداروں کو منظم انداز سے کیسے چلا سکیں گی، طالبان اپنی خواتین کے لئے لیڈی ڈاکٹر کہاں سے مہیا کرا سکیں گے، اگر کسی عورت کو ناگہانی حادثے کی وجہ سے خو کفالت پہ مجبور ہونا پڑتا ہے تو وہ کس طرح اپنی ضروریات پوری کریں گی، کیا طالبان حکومت ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کوئی واضح منصوبہ رکھتی ہے۔ طالبان کی دگرگوں اقتصادی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس صورت حال میں میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اگر طالبان اسلامی اقدار کی بےبنیاد لکیروں کے اتنے ہی بڑے علمبردار ہیں تو وہ کیوں نہیں اوائل اسلام میں لڑی جانے والی جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں یعنی تلوار، نیزہ، بھالا ڈھال سے  جنگ لڑتے انھوں نے اس حوالے سے بدلتے زمانے کی ایجادات کو کیوں اپنا لیا ہے اگر وہ اس طرح تلواروں سے جنگ لڑتے تو کیا وہ امریکہ جیسے سپر پاور کے سامنے زیادہ دیر ٹھہر پاتے ۔۔۔۔ یقینا نہیں۔ وہ اپنی بقا کے لئے بدلتے زمانے کی ایجادات کو تو بخوشی قبول کرتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے وہی تبدیلی ان کے نزدیک ناقابل قبول کیوں ہے، یہ کہیں نہ کہیں ان کی منافقت اور ناعاقبت اندیشی ہی ہے، یہ دنیا تعلیمی مسابقت کی راہ پہ رواں ہے اس کا مقابلہ کیا جہالت سے کرنا ممکن ہے،  وہ کس طرح صدیوں پہلے رائج طرز تعلیم کے ذریعے بدلتے دور کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں، تعلیم ہمیشہ ہر دور میں اہم رہی ہے فرق ہمیشہ کسب علم کے ذرائع میں رہا ہے بےشک اسلام کے آنے سے لے کر اب تک کے درمیانی عرصے میں متعدد قبائل اور خاندانوں نے کچھ اپنے اصول بھی وضع کر لئے تھے جس کی اپنی وجہ بھی تھی اور دائرہء کار بھی تھا اب وہ قبائلی دور نہیں رہا اس لئے اس کی بےبنیاد اقدار و روایات بھی اب دم توڑ رہی ہیں ایسے میں کسی بھی گروہ کا اسے اسلام کے نام پہ زندہ کرنے کی کوشش کرنا صرف انارکیت کے پیدا کرنے کی وجہ ہی بن سکتا ہے۔
عربی کا ایک مقولہ ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ عقلمند وہ ہے جو اپنے زمانے کے تقاضوں سے واقف ہو، اس روشنی میں اگر ہم طالبان کے فیصلوں کا جائزہ لیں تو ہمیں صرف قدامت پسندی نظر آتی ہے، ایسے  دور میں جب کہ دنیا گلوبلائز ہو چکی ہے ان کا اس طرح کا فیصلہ لینا خود ان کی حکومت کی بقا کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن سکتا ہے، طالبان اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ ان کا لڑکیوں کو اعلی تعلیم سے دور رکھنے کے فیصلے کو نہ افغانستان کی عوام تسلیم کرے گی اور نہ ہی انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اس فیصلے کو نافذ ہونے دیں گی  اس لئے وہ کھل کر لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف بات نہیں کرتے لیکن اس کے حق میں اقدام نہ کر کے وہ  تعلیم نسواں کی خاموش مخالفت بھی کر رہے ہیں   علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ کے تحت اگرچہ طالبان یہ اعلان ضرور کرتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں، لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھا رہے ہیں۔ اس سے قبل طالبان نے اعلان کیا تھا کہ مناسب حالات پیدا کرکے لڑکیوں کی تعلیم کا امکان فراہم کیا جائے گا،  لیکن تادم تحریر عملی سطح پہ ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا جو لڑکیوں کی تعلیم کی راہ ہموار کرے طالبان کا یہ شدت پسند نظریہ افغان معاشرے کے ساتھ ساتھ اس ملک کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی بدقسمتی کا باعث ہے اور یہ عملاً آدھے افغان معاشرے کو تعلیم کی نعمت سے محروم کرنا ہے، یہ بچے افغانستان کے مستقبل کے معمار ہیں۔افغان مغاشرے کو مستقبل میں خواتین سے متعلق کچھ امور کے لئے تعلیم یافتہ خواتین کی ضرورت ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی یہ ان خاندانوں کی جبری نقل مکانی کا سبب بنے گا، جو اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے کے لئے افغانستان سے باہر جانے پر مجبور ہونگے۔ طالبان کے اس شدت پسند فیصلے کی وجہ سے لڑکیاں چھپ چھپ کر تعلیم حاصل کرنے پہ مجبور ہو گئی ہیں اس کے لئے انھیں غیر معمولی مشقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں جو ان کی نفسیات پہ انتہائی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں اگر اس وقت طالبان نے اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا تو آنے والے وقتوں میں نوجوان لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کا نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جائے گا۔  ایک طرف طالبان اعلی تعلیم نسواں کی راہ مسدود کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف اخباری اطلاعات کے مطابق طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں کی بیٹیاں پاکستان یا قطر میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس عمل سے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے طالبان کا متضاد اور دوہرا رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ طالبان جو اپنے آپکو ایک مذہبی گروہ سمجھتے ہیں اور ہر سطح پر انصاف پر زور دیتے ہیں، انہیں اپنی بچیوں اور افغانستان کی بچیوں کے درمیان تعلیمی سطح پر کوئی فرق نہیں کرنا چاہیئے اور سب کیساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیئے۔ سب کو یکساں تعلیمی مواقع حاصل ہونے چاہیں۔
طالبان کو اپنے اس طرح کے تمام شدت پسندانہ نظریے پہ نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور بروقت اس کی اصلاح بھی کرنا ضروری ہے ورنہ بغاوت کی صورت میں بہت کچھ تباہ ہو سکتا ہے، انھیں جمہوریت کی طاقت کو سمجھ کر فیصلہ لینے پہ غور کرنا ہوگا، کسی بھی جمہوری ملک میں عوام سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے وہ اگر طیش میں آ جائے تو حکومتوں کے تختے الٹ جایا کرتے ہیں، طالبان قوم اگر اپنی بقا چاہتی ہے تو اسے افغانستان کے تعلیمی نظام کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے اسے مزید مستحکم بنانا ہوگا اور افغانستان میں قدرتی وسائل کا صحیح استعمال کرنے کے طریقوں پہ غور کرنا ہوگا کسی قوم کی ترقی اس کی اقتصادی اور تعلیمی حالت کے مستحکم ہونے سے مشروط ہے یہی شرائط و اصول طالبان کے لئے بھی ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا