منی پور کے معاملے پر مودی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بیان دیں: کانگریس

0
0

نئی دہلی، 20 جولائی (یو این آئی) کانگریس نے کہا ہے کہ منی پور میں 3 مئی سے حالات انتہائی نازک ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس معاملے پر بیان دینا چاہیے۔
کانگریس کے میڈیا انچارج جے رام رمیش نے پارلیمنٹ کے اجلاس کی کارروائی شروع ہونے سے قبل آج پارلیمنٹ ہاؤس کمپلیکس میں مسٹر مودی کے دیے گئے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور مسٹر مودی کو اس بارے میں ایوان میں بیان دینا چاہئے اور اس کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس پر بحث ہونی چاہئے۔
انہوں نے کہا، "آج 1800 گھنٹے سے زیادہ کی غیر حساس اور ناقابل معافی خاموشی کے بعد، وزیر اعظم نے آخر کار منی پور پر کل 30 سیکنڈ تک بات کی۔ اس کے بعد انہوں نے حکومت کی ناکامیوں اور منی پور میں انسانی المیہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔ مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں میں خواتین کے خلاف مظالم کو نظر انداز کرتے ہوئے، انہوں نے منی پور کے واقعے کا موازنہ دوسری ریاستوں میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم سے کرنے کی کوشش کی۔
کانگریس لیڈر نے کہا، "سب سے پہلے، وزیر اعظم نے منی پور میں جاری ذاتوں اور برادریوں کے تشدد کے معاملے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ انہوں نے نہ تو امن کی اپیل کی اور نہ ہی منی پور کے وزیر اعلیٰ سے عہدہ چھوڑنے کو کہا۔ انہوں نے صرف ایک وائرل ویڈیو پر تبصرہ کیا لیکن یہ منی پور میں ہونے والے سینکڑوں وحشیانہ تشدد کے واقعات کی صرف ایک مثال ہے۔ وزیر اعظم نے منی پور میں منظم اور جاری تشدد کو دوسری ریاستوں میں خواتین کے خلاف جرائم کے معاملوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔ کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں ایسے مجرموں کو 24 گھنٹے کے اندر گرفتار کیا جاتا ہے۔ منی پور میں نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں 15 دن لگے اور آج 64 دن بعد منی پور کے وزیر اعلیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ منی پور میں امن و امان کی صورتحال مکمل ناپید ہے۔ تشدد کو روکنے کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے جانے کی وجہ سے حالات انتہائی خوفناک ہو گئے ہیں۔ اب صرف بیان بازی نہیں چلے گی۔ قول و فعل میں فرق ہونا چاہیے۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ احتساب سے نہیں بچ سکتے ہیں۔ منی پور کے وزیر اعلیٰ کو فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ منی پور میں امن و شانتی کے لیے ’انڈیا محاذ‘ جواب مانگتا رہے گا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا