مغربی دنیا نے قرآن کے مطالعے کے ذریعہ نت نئے تجربات کرکے ہم اہل قرآن پر دھاک بٹھا رکھی ہے

0
0

 

 

قیصر محمود عراقی

جن لوگوں نے قرآن پاک کو سب سے پہلے اللہ کے رسولؐسے سنا ان کے لئے قرآن ایک چلتی پھرتی حقیقت ہے۔ ان کے سینوں پر بارش کی پھوار کی طرح وہ اثر کرتا تھا ، اور وہ اس کے ہر لفظ کو زندگی کے معاملات اور تجربات سے بالکل متعلق باتیں اور اس کے مکمل طور پر اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیتے تھے۔ اس قرآن نے ان کو فرد اور معاشرے کی دونوں حیثیتوں سے ایک بالکل نئے زندہ اور حیاتِ آفریں وجود میں مکمل طور پر تبدیل کردیا تھا۔ جو بھیڑ بکریاں چراتے تھے ، انٹوں کی نگہبانی کرتے تھے، معمولی کاروبار کرتے تھے انسانیت کے رہنما بن گئے۔ آج ہمارے پاس وہی قرآن ہے ، اس کے لاکھوں نسخے گردش میں ہیں، گھروں میں مسجدوں میں ، منبروں سے دن رات مسلسل اس کی تلاوت کی جاتی ہے ، اس کے معنی ومطلب جاننے کیلئے تفاسیر کے ذخیرے موجود ہیں، اس کی تعلیمات کو بیان کرنے کیلئے اور ہمیں اس کے مطابق زندگی گذارنے پر آمادہ کرنے کیلئے تقاریر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن آنکھیں خشک رہتی ہیں، دلوں پر اثر نہیں ہوتا، دماغوں تک بات نہیں پہنچتی، زندگیوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، ایسا لگتا ہے کہ ذلت وپستی قرآن کو ماننے والوں کیلئے لکھ دی گئی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے اب ہم قرآن کو زندہ حقیقت کے طور پر نہیں پڑھتے، یہ کتاب ہمیں صرف ماضی کی معتوب شدہ قوموںکی باتیں اور کافروں ، مومنین اور منافقین کے بارے میں ہی نہیں بتاتی اور نہ ہی یہ صرف چند احکامات کا مجموعہ ہے۔ نہیں، بلکہ یہ تو دنیا میں شراور باطل کی قوتوں کے مقابلے میں جدوجہد کیلئے ہے، یہ آپکے کمزور وجود کی مدد اور روحانی طاقت ، آپ کے خوف اور پریشانی کو قابو کرنے کیلئے یہی واحد ذریعہ ہے۔ ہمارے لئے نجات کا ذریعہ یہی قرآن ہے، ہمارے نفس کے امراض کیلئے ، ہماری فطرت ، منصب وفرائض ، ہمارے خطرات اور انعامات کیلئے مسلسل یاد دہائی اور ذکر ہے، آپ کے دل کی پکار ہے۔
قارئین محترم!آج ہم اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، کیوں کہ آج قرآن ہمارے پاس موجود تو ہے مگر اس سے دوری کے سبب کھڑے ہونے والے مسائل ہمارے سامنے ہے، اس قرآن سے دوری نے بحیثیت فرد اور امت ہمیں ذلت وخواری میں مبتلا کردیا ہے، ہماری مسجدیں مسمار کی جارہی ہیں، بلڈوزر چلایا جارہا ہے، دیوتائوں کی نشانیاں بتاکر چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے، زمین کا ہر خطہ صرف مسلمانوں پر ہی ظلم ڈھارہا ہے، کیوں؟ کیونکہ مسلمان قرآن سے دور ہوگئے ہیں، ہماری خواری کا سبب سوائے ترک قرآن کے اور کچھ نہیں ہے۔ کیا آج بھی قرآن ہمارے لئے اسی طرح کا بخشش کاذریعہ نہیں ہوسکتا جیسا قرون اولیٰ میں تھا کہ جب تین سو تیرہ کا لشکر ہزاروں پر بھاری تھا، کہ جب فرشتے مدد کو اترا کرتے تھے۔ یقین کیجئے، یہ قرآن ہی ہے جو کل بھی ہمارا نجات دہندہ تھااور آج بھی ہماری بقا اسی قرآن سے تعلق میں پوشیدہ ہے۔ بلا شبہ قرآن ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کی تعلیمات کو تھام کر ہم دنیا وآخرت میں سرخروہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ، اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے، مگر آج ہم اس ذمہ داری سے نظریں چراتے پھرتے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آج مغربی دنیا نے قرآن کے مطالعے کے ذریعے نت نئے تجربات کرکے ہم اہل قرآن پر دھاک بٹھا رکھی ہے اور ہماری مثال اس فقیر کی سی ہے جس کے کشکول میں ہیرا موجود ہے لیکن ہم اپنی نادانی میں اسے کانچ کا ٹکڑا سمجھ کا دوسروں سے بھیک مانگتا پھرتا ہوںحالانکہ ہمارے اپنے کشکول میں قیمتی ہیرا موجود ہے جو ہماری زندگی بدل سکتا ہے۔ اس غفلت پر سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ’’قرآن بغل میں روحِ قرآنی گم‘‘۔ افسوس اس پر کہ ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس عظیم پیغام (قرآن مجید ) چھوڑ کر لغویات اور خرافات بھرے مسجیزکوپڑھنے اور بھیجنے کا ٹھیکا لے رکھا ہے اور افسوس اس پر کہ ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جو فرقہ واریت کے اندھے گڑھے میں گر کر صرف اپنے مسلک کے نمبر والی عینک لگاکر ایک دوسرے کی ٹانگے کھینچنے میں مصروف ہیں۔
قارئین کرام! جب قرآن پاک نازل ہورہا تھا، اس وقت تو اس کی خاص طور پر تکذیب کرنے والے مشرکین عرب تھے، انہیں جب قرآن پڑھ کر سنا یا جاتا تو ان کا دل گواہی دیتا تھا کہ ہاں یہ قرآن حق ہے، کبھی کبھی زبان سے بھی وہ بے اختیار بول اٹھتے تھے، جیسا کہ ایک مشرک سردار ولید بن مغیرہ نے قرآن سن کر کہا تھاکہ یہ انسانی کلام نہیں ہے، لیکن وہ عصبیت جاہلیہ کی بناپر اسے ماننے کو تیار نہ تھا۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ تکذیب صرف کفار کا معاملہ تھا اور ہم قرآن پاک کو نہیں جھٹلاتے۔ اگر دیکھا جائے تو آج کے مسلمان بھی قرآن پاک کی تکذیب کرتے ہیں ، اگرچہ ہم قرآن کو اللہ کا کلام مانتے ہیں، لیکن ہمارا عمل ہمارے قول کے برعکس ہے، زبان سے تو ہم یہ تصدیق کرتے ہیںکہ یہ کلام الہی ہے، لیکن ہمارا عمل یہ واضح کرتا ہے کہ ہم نے اسے کتاب ہدایت نہیں سمجھا۔ یہ کتنی محرومی کی بات ہے کہ ہمارے پاس اس کتاب ہدایت کو پڑھنے کیلئے وقت نہیں ہے، ہمارے پاس دنیا بھر کے کاموں کیلئے وقت ہے، دنیا کی دوڑمیں آگے نکلنے کیلئے ہم دن رات ایک کردیتے ہیں، مگر قرآن پڑھنے ، اسے سمجھنے اور اس کی حقوق ادا کرنے کو ہم تیار نہیں۔ اس کام کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے حالانکہ یہی تو سب سے اہم کام ہے۔ قرآن کے تعلق سے ہمارا یہ روس اور طرز عمل قرآن کی عملی تکذیب ہے۔ آج بھی یہ طبقہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے نعمتِ ہدایت کو اختیار کرنے کے بجائے شیطان کر راستہ اختیار کیا، قرآن کو جھٹلاتے رہے، زبان سے یا عمل سے قرآن کی تکذیب کرتے رہے اور گمراہی میں پڑے رہے۔
بہر حال اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ قرآن جو حقائق بیان کرتا ہے وہ قطعی حق ہے، اس لئے کہ ان حقائق کو بیان کرنے والا اللہ ہے جو ہر چیز کا خالق ومالک اور جاننے والا ہے، ہر چیز پر اسی کا کنٹرول ہے، لہذا سب سے زیادہ حق بات اللہ ہی کی ہوسکتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن عظیم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے صالح بندوں میں شامل کرے۔(آمین)
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا