معیاری تعلیم کو روزگار کے قابل بنانے کی ضرورت ہے

0
0

نیلم چوہان
ادے پور، راجستھان

ہمارے ملک میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً منصوبے اور پالیسیاں بنائی جاتی رہی ہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی 2020 اس کی اعلیٰ مثال ہے، اس تعلیمی پالیسی کا بنیادی مقصد ایک ایسا تعلیمی نظام وضع کرنا ہے جس سے تمام شہری اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کر سکیں۔ جس کے ذریعے ملک میں ترقی اور تبدیلی کو ممکن بنایا جا سکے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس تعلیمی پالیسی میں ریاستوں کو اپنی ضرورت کے مطابق اس میں تبدیلی کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ یہ تعلیمی پالیسی ملک کے شہری اور دیہی علاقوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ یہی نہیں بلکہ یہ پالیسی طلباء میں اعلیٰ ہنر کی صلاحیت کو بھی فروغ دے گی تاکہ وہ روزگار سے جڑ سکیں۔درحقیقت ہمارے ملک میں پچھلی کئی دہائیوں سے ایسی تعلیمی پالیسی بنائی جا رہی ہے جس سے کہ تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔ لیکن یہ پالیسی انہیں روزگار سے جوڑ نہیں سکی جس کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی بے روزگاررہ گئی۔ اسے اپنی ڈگری کے مطابق مناسب روزگار نہیں مل سکا۔ جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں نوجوان ڈگری حاصل کرنے کے بعد بے روزگار ہیں یا پھر اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک میں شہری علاقوں کے مقابلے دیہی علاقوں میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ایسا ہی ایک دیہی علاقہ لوئیرا گاؤں ہے جو راجستھان کے ادے پور میں واقع ہے۔ ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 15 کلومیٹر دور بڈگاؤں پنچایت سمیتی کے تحت آنے والے اس گاؤں کی آبادی تقریباً ڈھائی ہزار ہے۔ اس درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی اکثریت والے گاؤں میں نہ صرف تعلیم بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہیں ۔ جس کی وجہ سے اکثر نوجوان روزگار کی تلاش میں نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
لوئیراگاؤں کے صرف دس فیصد نوجوان کالج تک پہنچنے ہیں۔ معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے اکثر نوجوان دسویں یا بارہویں کے بعد پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے ساتھ روزگار کی تلاش میں ہجرت کرنے لگتے ہیں۔ اس حوالے سے 23 سالہ نوجوان کیلاش بھیل کا کہنا ہے کہ ’’گاؤں میں رہتے ہوئے روزگار حاصل کرنا مشکل ہے، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر نوجوان ادے پور شہر یا پڑوسی ریاست گجرات کے احمد آباد یا سورت کا سفر کرتے ہیں۔ جہاں وہ یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں یا چھوٹے پیمانے کی صنعتوں میں کام کرتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں تعلیم کے حوالے سے لوگوں میں کوئی خاص بیداری نہیں ہے۔ اس لیے اسے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی فکر نہیں ہے۔ اس کے بجائے وہ انہیں اپنے ساتھ روزگار کے لیے ہجرت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک اور 24 سالہ نوجوان کا کہنا ہے کہ لوئیرا گاؤں میں اونچی ذات والوں کی تعداد برائے نام ہے، لیکن ان میں تعلیم کے حوالے سے کافی شعور ہے۔ اس کے برعکس نچلی ذاتوں کی اکثریت کے باوجود، ان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے زیادہ جوش نہیں ہے ۔ گھر کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے، لڑکے اپنے اسکول کے دنوں میں باہر جانے اور پیسے کمانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ایسے میں ان سے اعلیٰ تعلیم میں دلچسپی کی توقع رکھنا بے معنی ہے۔
کمزور معاشی حالت کی وجہ سے نہ صرف گھر کے مرد افراد بلکہ خواتین بھی کام کرتی ہیں۔ جو خواتین مردوں کے ساتھ ہجرت نہیں کرتیں و ہ گھر کی آمدنی کو پورا کرنے کے لیے قریبی کھیتوں میں روزانہ مزدوری کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں گاؤں کی ایک 34 سالہ خاتون گنگا دیوی کا کہنا ہے کہ ’’روزگار کے معاملے میں خواتین کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ زیادہ تر خواتین اونچی ذات کے لوگوں کے گھروں میں صاف صفائی کا کام کرتی ہیں۔ کچھ خواتین ان کے کھیتوں میں مزدور کے طور پر کام کرتی ہیںتاکہ وہ گھر کی ضروریات پوری کر سکیں۔وہ کہتی ہیں کہ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی زیادہ تر لڑکیاں 12ویں جماعت تک تعلیم حاصل کرتی ہیں۔اس میں سے صرف چند لڑکیاں ہیں جنہوں نے اعلی تعلیم حاصل کی ہے۔باقی لڑکیاں گھر کی کمزور معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے یا تو تعلیم کی طرف سے اپنا شوق کھو دیتی ہیں یا پھر وہ چاہتے ہوئے بھی مزید تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتیں ہیں۔

گاؤں میں ناخواندگی اور کمزور معاشی حالت کی وجہ سے سماجی برائیوں نے بھی اپنے پاؤں پھیلا رکھے ہیں ۔ مالیاتی ( فنانس)کمپنیاں اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ خاندان میں شادی یا موت جیسے سماجی کاموں کے لیے بڑے پیمانے پر دعوتوں کا اہتمام کرنے کی روایت ہے۔ اس کو پورا کرنے کے لیے غریب خاندان قرض لینے پر مجبورہو جاتا ہے۔ یہ فنانس کمپنیاں قرض دینے کے نام پر دھوکہ دیتی ہیں اور دوگنا سود وصول کرتی ہیں۔ تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے یہ لوگ ان فنانس کمپنیوں کے جال میں پھنسے رہتے ہیں اور سود کی ادائیگی کے نام پر اس سے بھی زیادہ قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے خاندان کی مالی حالت مزید کمزور ہو جاتی ہے۔تاہم حکومت کی جانب سے خواتین کے لیے کئی طرح کی خود روزگار اسکیمیں چلائی جارہی ہیں۔ اس میں شامل ہو کر لوئیرا گاؤں کی خواتین نہ صرف خود کو مالی طور پر بااختیار بنا سکتی ہیں بلکہ خود انحصار بھی بن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی رضاکار تنظیمیں خواتین کو روزگار سے جوڑ کر بااختیار بنانے کے لیے پروگرام بھی چلاتی ہیں۔ لیکن شعور کی کمی کی وجہ سے نہ صرف خواتین بلکہ اس گاؤں کے نوجوان بھی اس کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اور متعلقہ محکموں کی بے حسی کی وجہ سے یہ سکیمیں زمین پر لاگو ہونے کے بجائے فائلوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ نئی تعلیمی پالیسی لوئیرا کے غریب، پسماندہ اور معاشی طور پر کمزور گھرانوں کے نوجوانوں کے لیے نہ صرف آسان بنائے گی بلکہ اس جیسے دیگر دیہاتوں کے نوجوانوں کے لیے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں آسانی پیدا کرے گی، اور ان کے لئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گی۔(چرخہ فیچرس)
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا