معروف افسانہ اورمدرس سلام بن رزاق کاانتقال، سپرد خاک

0
92

ممبئی ؍؍معروف افسانہ اور مدرس 83:سال کی عمر میں آج نئی ممبئی میں انتقال کر گئے۔مرحوم کافی عرصے سے علیل تھے،ان کے پسماندگان میں بیوہ،ایک بیٹی ،ایک بیٹا اور پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں شامل ہیں۔ان کی تدفین بعد نماز مغرب بڑے قبرستان مرین لائنز میں عمل میں آئی،اس موقع پر اہل خانہ کے ساتھ ساتھ متعدد مصنف ،ادیب،افسانہ نگار اور صحافی حضرات موجود رہے۔مشہور بزرگ شاعر اور سابق صدر شعبہ اْردو برہانی کالج قاسم امام نے کہاکہ سلام بن رزاق عصری اردو افسانہ سے وابستہ رہے۔اردو کے نابغہ روز گار قلم کار سلام بن رزاق کا تعلق شہر ممبئی سے دیاحالانکہ ان کا آبائی وطن خطہ کوکن تھا۔ایک عرصہ تک ممبئی میونسپل کارپوریشن کے اسکولوں میں مدرس کے طورپر فرائض انجام دیتے رہے۔ایک فرد کے لیے پورے سماج کی کہانی لکھی تو پورے سماج کے لیے ایک فرد کی۔ غرض یہ کہ انھوں نے ہر طور، ہر صورت انسانیت ہی کی کہانی سنائی ۔
اردو اکیڈمی کے سابق سپرٹینڈنٹ وقار قادری نے کہاکہ سلام بن رزاق کے نام کے بغیر اردو فکشن نگاری کا ذکر نامکمل ہے۔ستر کی دہائی کے بعد ممبئی شہر کے لکھنے والوں میں وہ اہم، نمایاں اور منفرد ہیں۔سلام بن رزاق ایک عام آدمی تھے اور عام آدمی ہی کے مسائل کے وہ افسانہ نگار بھی کرتے رہے۔ان کی کہانیوں میں اسی عام آدمی کی گھٹن دکھائی دیتی ہے۔ یہی کردار انھوں نے کہانیوں میں کھڑے کیے ہیں۔ ستر کی دہائی میں اردو افسانہ جب ابہام کا شکار ہوکر قاری سے دور ہوتا جارہا تھا۔ اس وقت تجریدیت کی دلدل سے باہر نکالنے والے اردو افسانہ نگاروں میں سلام کا نام اہم ہے۔ اپنے پہلے مجموعے ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ کی کہانیوں سے انھوں نے اپنی اہمیت منوا لی تھی۔بیانیہ اسلوب پر سلام صاحب کو دسترس حاصل ہے۔انھوں نے کہانی میں اس کے وصف کو قائم رکھا. وہ بہترین فکشن نگار کے علاوہ بہترین خاکہ نگار اور اچھے مقرر بھی تھے۔ وہ مراٹھی اردو اور ہندی اردو کے منجھے ہوئے مترجم بھی تھے۔ان کے بعد کے لکھنے والوں کی ہماری نسل پر ان کے بڑے احسانات ہیں کہ انھوں نے کبھی اپنے جونیئر لکھنے والوں کی تربیت میں کوتاہی نہیں برتی۔ یہ وجہ بھی ہے کہ وہ نئے لکھنے والوں میں بھی محبوب و مقبول رہے ہیں۔ ان کا جانا نہ صرف اردو بلکہ ہم جیسے اردو ادب کے طالب علموں کا بھی بڑا ذاتی نقصان ہے۔قمر صدیقی لیکچرار ممبئی یونیورسٹی شعبہ اردو نے اپنے ردعمل میں کہا کہ سلام بھائی چلے گئے۔ آج اردو سوگوار ہے۔ آج اردو فکشن ماتم کناں ہے۔ سلام بن رزاق اردو افسانے میں رجحان ساز شخصیت تھے۔ ان جیسا قد رکھنے والا کوئی دوسرا افسانہ نگار اردو میں نہیں ہے. جائے استاد خالی است….. شاید یہ خلا کبھی نہ بھر سکے۔گل بوٹے کے مدیر فاروق سید نے کہاکہ وہ افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ اد ب اطفال پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور مراٹھی سے اردو ترجمہ کے لیے مقبول رہے۔
نوجوان افسانہ نگار وسیم عقیل شاہ نے کہاکہ سلام بن رزاق عصری اردو افسانہ سے وابستہ رہے۔اردو کے نابغہ روز گار قلم کار سلام بن رزاق کا تعلق شہر ممبئی سے دیاحالانکہ ان کا آبائی وطن خطہ کوکن تھا۔ایک عرصہ تک ممبئی میونسپل کارپوریشن کے اسکولوں میں مدرس کے طورپر فرائض انجام دیتے رہے۔کرلاقریش نگر میں زندگی گزاری اور پھر میراروڈ منتقل ہوگئے۔ انہوں نے کہاکہ سلام بن رزاق افسانہ نگاری میں ہندوستان بھر مشہور و مقبول ہوئے ۔ اسی طرح ہندی کے ادبی حلقے میں بھی ان کی قدر و منزلت اسی طرح طرح ہے ۔ حالانکہ موصوف شاعری کے ذریعے ادب میں داخل ہوئے تھے تاہم ان کی شہرت ان کے افسانوی موضوعات، ان کی فکر ، فنی شعور، منفرد اسلوب و انداز، تخلیقی ہنر مندی، زبان و بیان کی ندرت اور افسانوں کی بے مثال بنت و بیانیے کے سبب ہے ۔ انھوں نے اپنے اطراف کی دنیا کو جیسے پایا ویسے ہی اسے اپنی افسانوی فریم میں سجایا اور اسے احتجاجی اور اصلاحی فکروں کے لیے متحرک کر دیا۔
وسیم عقیل کے مطابق سلام بن رزاق نے ایک فرد کے لیے پورے سماج کی کہانی لکھی تو پورے سماج کے لیے ایک فرد کی۔ غرض یہ کہ انھوں نے ہر طور، ہر صورت انسانیت ہی کی کہانی سنائی ۔ ان کے افسانوں کے عام کرداروں نے انھیں عام آدمی کا خاص کہانی کار بنا دیا ہے ۔ افسانہ کے علاوہ موصوف نے ڈرامے، تنقیدی مضامین، بچوں کا ادب اور ترجمہ نگاری پر بھی خاص توجہ کی ہے ۔ آپ کی تخلیقات و تحریروں کو بر صغیر کے تمام موقر رسالوں نے اہتمام سے شایع کیا۔ پچاس سے زائد افسانے ریڈیو آکاشوانی سے نشر ہوئے، ایک درجن سے زائد افسانوں کو ڈراماٹائیز کیا گیا ۔ انہوں نے کئی فلموں اور ٹی وی سیریلوں میں رائٹر اور اسسٹنٹ رائٹر کے طور کام کیا ۔ آدھا درجن کے قریب رسائل نے آپ کے فن پر نمبر اور گوشے جاری کیے نیز معروف ناقدین ادب نے آپ کی فنی ہنر مندیوں کا اعتراف کیا، اسی کے ساتھ ہی ان کی فکر و فن پر چند پی ایچ ڈی اور درجن بھر کے قریب ایم فل کے مقالے لکھے گئے ۔ کئی ادبی جلسے ان کے اعزاز میں منعقد ہوئے،اور15 سے زائد کہانیاں مختلف سطح کی درسیات میں بہ طور نصاب شامل ہیں ۔ سلام بن رززاق نے ہندی مراٹھی اور اردو سے معکوس ترجمہ نگاری کی بال بھارتی کی لسانی و نصابی کمیٹی کے اہم رکن رہے۔ان کی کل 22 کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ جن چار افسانوی مجموعے ‘ننگی دوپہر کا سپاہی’، ‘معبر ‘، ‘شکستہ بتوں کے درمیاں ‘ اور ‘زندگی افسانہ نہیں ‘ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح ‘ ننھے کھلاڑی’ (بچوں کا ناول) ‘ماہم کی کھاڑی’ (مراٹھی ناویل کا ترجمہ )، ‘جی اے کلکرنی کی کہانیاں ‘ (مراٹھی سے ترجمہ شدہ کہانیاں ) اور ‘عصری ہندی کہانیاں’ (ہندی سے ترجمہ شدہ کہانیاں ) جیسی کتابیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔وہ منصب درس و تدریس سے وابستہ تھے اور سبکدوش ہو کرپہلے میراروڈ ،تھانے اور پھرنئی ممبئی میں منتقل ہوگئے اور آج وہیں بیٹی کے گھر انتقال کرگئے۔
سلام بن رزاق کے انعام و اعزاز :موصوف کو اپنی ادبی خدمات کے لیے ملک کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے کم و بیش 40 سے زائد انعامات و اعزازات سے نوازا ہے ۔ان کی تقریباً سبھی کتابوں پر ملک کی مختلف ریاستی اردو اکادمیوں نے خصوصی انعام تفویض کیے ۔ نیز موصوف اردو کے پہلے ادیب ہیں جنھیں دو بار مرکزی ساہتیہ اکادمی کے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
مجموعی ادبی خدمات پر” غالب ایوارڈ” (غالب انسٹی ٹیوٹ )
مجموعی ادبی خدمات پر "گیانیوشری ایوارڈ” (مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی )
ہندی سے ترجمہ شدہ کہانیوں کا مجموعہ "عصری ہندی کہانیاں” پر "ساہتیہ اکادمی ایوارڈ” (مرکزی ساہتیہ اکادمی، دہلی )
افسانوی مجموعہ "شکستہ بتوں کے درمیاں” پر ‘ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ‘(مرکزی ساہتیہ اکادمی، دہلی )
مجموعی ادبی خدمات پر ‘ولی دکنی ایوارڈ’ (مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی )
مجموعی ہندی خدمات پر” رمنیکا ایوارڈ (رمنیکا فاؤنڈیشن ،دہلی)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا