معراج : عروج دم خاکی ، کی انتہا یہ ہے

0
0

۰۰۰
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
۰۰۰
انسان کو اللہ رب العزت نے مٹی سے پیدا کیا، اسے نوری مخلوق فرشتوں پر فوقیت دیا ، اتشیں مخلوق جنات بھی اس خاکی انسان کی عظمت کو نہیں پہونچ سکے، اللہ رب العزت نے بنی ادم کو مکرم بنایا ، با عزت وبا عظمت بنایا ، تخلیقی اعتبار سے اسے ساری مخلوقات میں ممتازکیا اور اس کی تخلیق کو خود ہی اللہ نے احسن تقویم کہا یعنی انسان کو اچھے سانچے میں ڈھالا ، اس کے اندر ظاہری اور باطنی ایسی ایسی خوبیاں جمع کر دیں ، جس کی وجہ سے وہ فرشتوں سے سبقت لے گیا اور مسجود ملائک قرار پایا۔ ماہ وسال گذرتے گیے، انبیاء ورسل اتے رہے ، جاتے رہے، مدت ختم ہوتی رہی،لوگ گم گشتہ راہ ہوتے رہے ، انسانیت سسکتی رہی، ظلم وستم نے اپنے دست وبازو پھیلا دیے، کعبہ اللہ بھی بتوں کی اماجگاہ بنا دیا گیا ، عورتوں کی عزت سر بازار نیلام ہوتی رہی، اور لڑکیاں زندہ دفن کی جاتی رہیں، کوئی گناہ ایسا نہیں تھا جسے شیاطین نے انسان تک نہ پہونچا دیا ہو اور لوگ اس میں مبتلا نہ ہوئے ہوں، ایسے میں رحمت خدا وندی جوش میں ائی اور بھٹکے ہوئے اہو کو سوئے حرم پھر سے لے جانے کے لئے اقا ومولا فخر موجودات، سر ور کونین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا اور سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، اپ نے لوگوں میں اسلام کی دعوت کا کام شروع کیا ، اپنے بھی بے گانے ہو گئے اور بیگانوں کی بیگانگی نے ساری سر حدیں توڑ دیں، نت نئے اور نوع بنوع مظالم حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ا ن کے رفقاء پر توڑے گئے، جسم اطہر پر اوجھ ڈالی گئی ، راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا گیا ، ان مصائب والام اور ازمائش کے ساتھ دعوت کا کام جاری رہا ، اپ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے طائف گئے، وہاں کے اوباشوں نے اپ پر پتھر کی بارش کر دی، پائے مبارک لہو لہان ہو گئے، زخموں سے چور جب اپ بیٹھ جاتے تو اوباش بچے ا?پ کو اٹھا دیتے اور جب چلنے لگتے تو پتھر بر ساتے ، دل ودماغ کا متشر ہونا لازمی تھا اور زبان مبارک پر دعاوں کا جاری ہونا تقاضہ بندگی، اللہ ہر حال سے واقف تھا اور محبوب کے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنا چاہتا تھا ، اس لئے جب اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف اکاون برس نو مہینے کی ہوئی اور منصب نبوت اور اعلان نبوت پر دس سال گذر گیے تو اللہ نے جیتے جاگتے، جسم وروح کے ساتھ اپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کیا ، تاریخ 27 رجب کی تھی ، جب ادم خاکی کو اللہ نے ایسا عروج عطا فرمایا جو کسی اور کو نہیں د یا گیا ، قربت الٰہی کا وہ مقام کسی اور کے نصیب میں نہیں ایا ہے ، اور نہ ائے گا، سفر کے لیے تیز رفتار سواری براق فراہم کرائی گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لایا گیا ، تمام انبیاء کی امامت کرائی گئی، عروج ،مسجد اقصیٰ سے شروع ہوا ، اسمان وزمین کی سیرکے بعد جنت وجہنم کا مشاہدہ کرایا گیا ، بد عملی کی سزا دکھائی گئی ، انبیاء ورسل سے ملاقات کرائی گئی اور پھر اپ سدر المنتہیٰ سے بیت المعمور تک پہونچے، جبرئیل نے بھی ساتھ چھوڑا ، دو نیزے اور اس سے کم کی دوری خلوت میں رہ گئی ، تو اللہ رب العزت نے محبوب کو تحفے پیش کیے اور جو حکم دینا تھا، دیا ، بندگی صرف رب کے کرنے کی ہدایت دی گئی، والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم سے نوازا گیا ،ان کو جھڑکھنے اور اف کہنے تک کی ممانعت کی گئی ، ان کے لئے محبت وشفقت سے کاندھے جھکانے اور بار گاہ خدا وندی میں ان کے لیے رحمت کی دعا مانگنے کی تلقین کی گئی، قتل وزنا وعدہ خلافی ، یتامیٰ کے مال پر تصرف سے دور رہنے کو کہا گیا ، فضول خرچی سے بچنے کی تلقین کی گئی اور فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ، اس موقع سے سب سے بڑا تحفہ نماز کا ملا ، ساری عبادتیں اسی زمین پر نازل کی گئیں اور جبریل کے ذریعہ بھیجی گئیں ، لیکن نماز کا تحفہ رب نے اپنے یہاں بلا کر عطا فرمایا ، اب کسی کو معراج نہیں ہوگی ، لیکن مومن اگر اپنے اندر معراج کی کیفیت محسوس کرنا چاہتا ہے تو اسے نماز سے لو لگانا ہو گا ، نماز اللہ سے سر گوشی کا بہترین ذریعہ ہے، اسی لیے نماز کو معراج المومنین کہا گیا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج میں سر گوشی کی ، اپنی باتیں رکھیں، امت کی فلاح کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی سلامتی میں نیک ایمان والوں کو شامل کر لیا اسی طرح بندہ بھی جب نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنی باتیں دعاوں کی شکل میںا للہ کے سامنے رکھتا ہے ، اپنے سلام میں نیک بندوں کو شامل کرتا ہے ، اللہ کی مسلسل عبادت کے نتیجے میں اس کی بندگی اس احساس کے ساتھ ہوتی ہے کہ جیسے وہ خدا کو دیکھ رہا ہے او راگر اس مقام تک نہیں پہونچتا ہے تو کم از کم وہ یقین واعتماد کے اس مقام تک پہونچ جاتا ہے جہاں ہر وقت اسے خدا کی نگرانی اور اس کے دیکھنے کی کیفیت محسوس ہوتی ہے ، یہ مقام پہلے سے کم تر سہی ، لیکن اس مقام کو بھی پالینے کے بعد گناہوں کے ارتکاب ، بد عملی اور بے عملی سے انسان نجات پاجاتا ہے ، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔اور کوئی کام بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر میں نہیں کر سکتا۔معراج کا واقعہ سادہ سا واقعہ نہیں ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اپ نبی قبلتین ہیں اور اپ کی امد سے صدیوں سے جاری بنی اسرائیل کی تولیت کا خاتمہ ہو گیا اور اب قیامت تک یہ مقام ومنصب اقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا گیا ، قران کریم میںاس سفر کے جومقاصد بیان کیے گیے ان میں سے ایک، اسمان وزمین کی کچھ نشانیاں دکھانی تھیں، یہ نشانیاں کیا تھیں ، ہمارے پاس اس کی ترجمانی کے لیے الفاظ نہیں ہیں، کیوں کہ الفاظ کا دائرہ ہمارے محسوسات، مشاہدات اور تعلقات سے آگے نہیں بڑھتا ، واقعہ یہ ہے کہ عالم بالا کی نشانیاں انسانی محسوسات اور عقل وتصور سے ماورا ہیں، اس لیے اس کی عکاسی الفاظ میں ممکن نہیں

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا