معذور ی کا احساس کراتا ہے سماج

0
0
ریحانہ کوثر ریشِی
 منڈی،پونچھ، جموں
معذوری ایک طرز زندگی ہے اور اسے ایک طرز زندگی ماننے اور سمجھنے کی معاشرے کے تمام لوگوں کو ضرورت ہے۔ ویسے تو تمام معذور افراد ہر روز کسی نہ کسی طرح کی مشکل سے گزرتے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ خواتین، لڑکیاں اور بچیاں ہیں جنہیں کوئی معذوری ہے، کو بہت سی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ یہ مشکلات زیادہ تر تو معاشرے کی پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا میں ہے ان خواتین، لڑکیوں اور بچیوں کو وہاں مشکلات زیادہ ہوتی ہیں جہاں والدین بہت غریب ہوں یا پھر ان میں اس معذوری کے حوالے سے مناسب آگاہی نہ ہو۔ جسمانی معذوری کی صورت میں اکثر والدین انہیں زنجیروں میں جکڑ کر رکھتے ہیں۔ مختلف ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں۔ جعلی عامل باباؤں سے تعویز ات لیتے ہیں اور ان پر مختلف عمل کرتے ہیں جو کہ ان لڑکیوں اور بچیوں کے لیے نہ صرف تکلیف کا باعث ہے بلکہ ان کی ذہنی تکلیف کو مزید بڑھا دیتا ہے اور وہ ایک مسلسل اذیت میں گزرتی چلی جاتیں ہیں۔ جموں کشمیر کے کئی ایسے علاقے ہیں جن میں معذوروں کی تعداد کثیر ہے۔ وہی سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے دور دراز گاؤں ڈنہ دھکنا وارڈ نمبر تین میں رہنے والی نسیم اختر عمر بیس سال ہے۔نسیم اختر کہتی ہے کہ”میں اپنی معذوری سے بہت پریشان ہوں۔ اس وجہ سے پریشان نہیں ہوں کہ خدا نے مجھے کیسا بنایا ہے کیسا نہیں؟ میں اس کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے اشرف المخلوقات میں سے پیدا کیا۔ دُکھ اور افسوس اس بات کا ہو رہا ہے کہ میں نے اپنی تعلیم اس بنیاد پر چھوڑ دی کیونکہ میرے پاس کوئی مالی وسائل نہ ہونے کے اور عدم تعاون کی وجہ سے میں اپنی تعلیم کو مسلسل جاری نہ رکھ سکی۔دوسری وجہ تعلیم چھوڑنے کی یہ ہے کہ میرے دونوں پاؤں سیدھے نہیں ہیں۔ میں زیادہ دور سفر نہیں کر سکتی۔میرا اسکول میرے گھر سے پانچ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ آج سے تقریباً پانچ سال پہلے میں نے اسکول پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ میرے ساتھ کی باقی لڑکیاں اچھی تعلیم حاصل کر کے اپنے روزگار کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔کاش کے میرے پاس بھی کچھ بہتر وسائل ہوتے تو میں بھی اپنے گھر والوں پر بھوج نہ بنتی۔“وہ سوال کرتی ہے کہ کیوں معذور لڑکیوں کو ہی ہمیشہ ہراساں کیا جاتا ہے؟انہیں تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ معذور لڑکیوں کو خاندان والے اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتے۔کیا ہم اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں؟ میں غریب مسکین ہوں۔ میرے ماں باپ بڑی مشکل سے مجھے کھلاتے پلاتے ہیں۔ لہٰذاحکومت اور مقامی انتظامہ میرے لئے وہیل چیئر اور باقی تمام وسائل کا انتظام کرے تا کہ مجھے زندگی میں دوبارہ معذوری کا احساس تک نہ ہو۔ مجھے امید ہے کہ گورنمنٹ میرے لئے بہتر سے بہتر وسائل کا انتظام کرے گی۔
اُنکے والد نظیر حسین کے مطابق میری بیٹی بچپن سے دونوں پاؤں سے معذور ہے۔یہ اچھے سے چل پھر بھی نہیں سکتی۔ اسے دوسروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جب کبھی کبھار اسکو گاڑی کا سفر کرنا پڑتا ہے تو میں یا میرے بیٹے اسکو خود کندوں پر اٹھا کے گاڑی تک پہنچاتے ہیں۔ بہت سفر کرنے کے بعد اسے کئی دنوں تک پاؤں اور ٹانگوں میں درد ہوتا رہتا ہے۔ نسیم کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ لیکن معذوری کی وجہ سے شوق پورا نہ ہو سکا۔میں چاہتا ہوں کہ نسیم اور اس کے جیسے تمام معذور لڑکیوں اور لڑکوں کو انکے حقوق دیے جایں۔اسکا بھر پور علاج و معالجہ ہونا چائیے۔ نسیم کی والد رشیدہ بی کہتی ہیں کہ ”میں نے اسکو پالا پوسا بڑا کیا، جب چھوٹی تھی تو اسکی معذوری زیادہ محسوس نہیں ہوتی تھی۔ لیکن جب یہ بڑی ہوتی گئی اسکی تکلیف بڑھنے لگی۔ اسکی تکلیف میرے لئے بہت بڑی تکلیف ہے۔ اسے تولیدی صحت کے دوران اپنی صحت کا کچھ خیال نہیں رہتا۔ میں ایک ماں ہو کر اسکی تولیدی صحت کے دوران اسے سنبھالتی ہوں۔ میں آنسو بھری آنکھوں سے کہہ رہی ہوں کہ میں ان پڑھ ہوں مجھے اور زیادہ کچھ کہنا نہیں آتا۔ میں اپنی بیٹی کے لئے ایک بہتر سے بہتر زندگی چاہتی ہوں تا کہ میرے مرنے کے بعد اسکو کسی ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بھر وقت اگر اسکا علاج ہو جائے یا اسے بہتر سہولت مل جائے تو یہ بہتر ہو سکتی ہے۔“
مقامی محمد اسلم سرپنچ اور پنچ جہانگیر حسین اُنہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ معذور بچی آج کے اس ماڈرن دور میں بھی بہت تکلیف کا سامنا کر رہی ہے۔ جب بھی کبھی معذوروں کی بات کی جائے تو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں کسی کے کان میں جوں تک تک نہیں رینگتی کہ معذوروں کو بھی اُنکے حقوق کی یقین دھانی یہ حقوق دیے جائیں۔ قسم کھا رکھی ہے سب نے کہ معذوروں کو حق نہ ملے ہم اس پر پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر اس بچی کے لئے اور باقی معذور بچیوں کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے بہتر انتظامات کیے جائے انہیں وہیل چیئرز دی جائیں۔سماجی کارکن جرنلسٹ شیراز احمد میر کا کہنا ہے کہ اکثر یہ دیکھنے میں بھی آیا ہے کہ بہت سے والدین جسمانی معذوری کی صورت میں مختلف فرسودہ عملیات کا سہارا لیتے ہیں۔جیسے اگر کسی لڑکی کو ٹانگوں کی معذوری ہے یا پاؤں کی معذوری ہے تو اس صورت میں وہ ان کو مٹی میں دبائے رکھتے ہیں اور ان کا مغالطہ ہے کہ اس طرح ٹانگیں ٹھیک ہو جائیں گی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا عمل سیدھا سیدھا ان پر تشدد ہے۔ والدین اپنی کم علمی کی وجہ سے ان پر ہونے والے تشدد کو سمجھ نہیں پاتے۔ ضرورت اس امر کی ہے جسمانی معذوری کی اس صورت میں والدین کو ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ وہ اس حوالے سے جدید طریقہ علاج سے ان کی اس معذوری کو ختم کر سکے۔
ایک مقامی طبیب جاوید خان کے مطابق ”جسمانی معذوری کی ایک وجہ پولیو وائرس بھی ہے جو والدین اپنی بچیوں کو پولیو وائرس کے خاتمہ کے قطرے نہیں پلاتے ان بچیوں میں اس وائرس سے متاثر ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں“ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ ان بچیوں پر رحم کریں اور پولیو کے قطرے لازمی پلائیں۔ اس طرح بہت سے والدین اکثر ان بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کرتے بعض بچیاں یا لڑکیاں بہت دھیرے سے سیکھ پاتی ہیں انہیں کسی چیز کو سمجھنے اور سیکھنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ باقی کچھ لوگ اس چیز سے زیادہ ڈرتے ہیں کے معذور کو ڈاکٹر کیا علاج کرے گا اسکو کس لئے ڈاکٹر کے پاس چیکپ کروانے کے لئے لے جائے یا علاج و معالجہ کیوں کروائیں یہ لوگوں کی غلط فہمیاں ہیں جو اسے کہتے ہیں کہ یہ معذور ہے اب یہ معذوری والی زندگی بسر کر رہا ہے تو بسر کرنے دیں۔ لیکن ہم اس بات سے سہمت نہیں ہوتے ہیں کے لوگ ایسا کریں بلکہ انکو چائے کے نزدیکی ہسپتالوں میں آ کر علاج کروائیں آج کل ہر بیماری کا علاج مفت میں ہو جاتا ہے۔کئی معذور لوگ بھی علاج کروانے کے بعد ٹھیک ہو گئے۔“ (چرخہ فیچرس)

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا