شہراز احمد میر
فتح پور منڈی، پونچھ
ہمارے معاشرے میں معذور افراد عام انسان کے مقابلے میں کئی ایک مشکلات سے دوچار ہوکر زندگی گزارتے ہیں۔ معاشرے میں اسے افراد کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے،کبھی عوام کے طعنوں سے کبھی خود کی معذوری کے سبب پریشان ہونا پڑتا ہے، حالانکہ یہ طبقہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔خالق کائنات نے ظاہری طور پر انہیں معذور رکھا ہوتا ہے، لیکن ان کو کسی خاص صلاحیت سے بھی نوازا ہوتا ہے،پھر بھی معاشرے میں معذور شخص ایک مجرم جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ معاشرے میں انہیں مختلف قسم کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔اس کے معذور اعضاء کی نسبت سے اس کے نام پکارے جاتے ہیں۔حالانکہ ان کا نام بھی عام اشخاص کی طرح والدین نے پیدائش کے بعد رکھا ہوتا ہے،لیکن پھر بھی انہیں مزاحیہ ناموں سے معاشرے میں پکارا جاتا ہے۔ معاشرے کے ان رویوں کو دیکھ اور سن کر معذورانسان،معذور ہونا ایک جرم محسوس کرتا ہے، حالانکہ ان تمام باتوں کو برداشت کرناکسی معذور کی ہی جرت ہوتی ہے۔لوگ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اندر بھی دل ہوتا ہے۔ عوام کے اچھے رویوں سے خوش بھی ہوتے ہیں اور برے رویوں سے دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ اس ملک کے رہائیش کئی معذور لوگ ایسے ہیں جنہوں نے معاشرے میں اپنا منفرد مقام بنایا ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں،جن میں معذور خواتین کا نام بھی اول فہرست میں درج ہے۔ موجودہ دور میں خواتین مردوں کی طرح ہر فن میں اپنی قسمت آزما رہی ہیں۔مختلف فنون میں کامیاب ہو کر مردوں کے ساتھ اول صف میں جا کھڑی ہوتی ہیں۔تعلیم ہو یا کھیل کود،ہنر کا میدان ہو یا سیاست کی دنیا ہر میدان میں عورتیں اپنی محنت کو کامیابی کا لوہا منواتی ہیں۔مردوں سے زیادہ تعداد میں خواتین بااختیار بننے کی سوچ میں لگی رہتی ہیں تاکہ مستقبل میں کسی کے ہاتھوں کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ ایسی عورتیں شادی کے بعد اپنے مردوں کیلئے گھریلو اخراجات اور جمع پونجی کیلئے اپنے خاوند کی محتاج بھی نہیں رہتیں۔
اکثر ایسی عورتوں کو سماج میں کوئی نوک جھونک نہیں ہوتی۔ ہر کوئی انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دیہی علاقوں میں اکثر عورتیں کوئی فن سیکھ لیتی ہیں،تو ضرور دوسری عورتوں کو بھی سکھاتی ہیں، ای ٹی آی کی طرح گھروں پرمفت سینٹر کھول کر یہ کام سرانجام دیتی ہیں۔ایسی کئی ماہر خواتین بااختیار بننے کی منفرد سوچ رکھتی ہیں۔ وہیں دوسری جانب معذور خواتین معذور ہونا بھول کر کچھ ہنر سیکھنے میں لگی رہتی ہیں۔ جہاں ملک کے دیگر حصوں میں معذور خواتین اپنی قابلیت کا لوہا منواتی ہیں وہیں جموں کشمیر کی خواتین بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ سرحدی ضلع پونچھ میں وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود بھی معذور خواتین اپنے ہنر کو بڑھاوا دینے کی بھرپور کوشش کررہی ہیں۔ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاؤں فتح پور کی رہائشی نسیم اختر عمر 25 سالہ بھی اپنی معذوری کو بالائے طاق رکھ کر گھریلو کام کاج میں بھی ہاتھ بٹانا اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ زندگی کا ایک معمول بنا لیا ہے اور والد اور بھائی کے ساتھ بھی گھریلو اخراجات میں بھی برابر کی شریک ہیں۔ اس طرح اپنے گاؤں کی غریب خواتین کیلئے مسیحیٰ بن کر ہنر سکھانے کا کام کر رہی ہیں۔معاشرے کی خواتین میں ان کے کام کاج کو دیکھ کر کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔نسیم کہتی ہیں کہ ”میں ایک پیڑ سے معذور ضرور ہوں لیکن میرے حوصلے بلند ہیں۔ میں اپنے ہاتھ سے سویٹر اور گرم ٹوپیاں تیار کرتی ہوں اور انہیں سردی کے ایام میں فروخت کرتی ہوں جس کی بدولت میں اپنے اخراجات پورے کرتی ہوں“۔
گاؤں فتح پور کی ایک اورمعذور خاتون تعظیم اختر نے بتایا کہ ”اکثر خواتین گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر میرے ساتھ وقت گزارنے کیلئے آجاتی ہیں،میں ہر عمر کی عورت کیلئے برابر ہوں۔قدرتی بات ہے کہ میں معذور ہوں ان کے پاس تو جا نہیں سکتی وہ شاید میرا ہی دل بہلانے کے لیے گھر سے نکل آتی ہیں۔ میرے اندر بھی ان کے لئے احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ میرے پاس بذات خود کپڑے سلائی اور سویٹر بنانے کا ہنر ہے،گھر ہی بیٹھی کام میں لگی رہتی ہوں۔ کئی عورتوں نے میرے سے اس بہانے کام سیکھ لیا، میر ے پاس حو بھی خاتون آتی ہے میں اسے اپنے ہنر کے بارے میں بتاتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اپنے سسرال میں اکثر خواتین خوشی خوشی اپنا گھر آباد کر چکی ہیں اور سسرال کے طعنوں سے بھی محفوظ ہیں۔
اس طرح کی متعدد معذور خواتین ہیں جنہوں نے اپنی جسمانی کمزوری کو ہی اپنا حوصلہ بنا لیا۔ جنہوں نے زندگی سے ہار نہیں مانی اور خود کو نہ تو اپنے گھر والوں اور نہ ہی سماج کے لئے بوجھ بننے دیا۔ایسی خواتین نہ صرف اپنے لئے خود کفیل بن چکی ہیں بلکہ گھر والوں کو بھی مالی مدد پہنچارہی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ معذور افراد خاص کر معذور خواتین کو خودکفیل بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے بہت سارے اسکیم چلائے جا رہے ہیں۔لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دیہی علاقوں کے معذوروں کو ان اسکیموں کا بہت زیادہ فائدہ نہیں مل پاتا ہے کیونکہ انہیں کوئی اس کے بارے میں بتاتا ہی نہیں ہے۔ایسے میں مقامی انتظامہ کا فرض ہے کہ وہ ان معذور افراد کی نشاندہی کر انہیں اسکیم سے جوڑیں۔ صرف اسکیم بنانے سے نہیں بلکہ زمین پر اس کے نفاز سے ہی کسی معذورکی زندگی میں تبدیلی آئے گی۔ (چرخہ فیچرس)
Post Views: 562