ڈاکٹرایم عارف
(ملک کی موجودہ صورت حال پر مشتمل افسانہ ملاحظہ فرمائے)
کالی باغ،بتیا
بہار،انڈیا
رابطہ: 7250283933
آج عمران بہت خوش تھا۔ اگر چہ گھرمہما نوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ مہمان کوئی غیر نہیں اس کے دوست اخلاق کی والدہ،دو عدد بھابھی اور چند دیگر عورتیں تھیں۔ اخلاق کی سب سے چھوٹی بہن تیمینہ سے اس کی نسبت کی بات چل رہی تھی۔ اپنی پسند کی کسوٹی پر کس کر دیکھ لینے کے بعد اخلاق کی والدہ کو نسبت کے سلسلے میں فیصلہ کرنا تھااس سے قبل دوتین جگہوں پر عمران کی نسبت طے پاکر ٹوٹ چکی تھی ظاہر ہے اس کی وجہ لین دین کا معاملہ ہی تھا۔باپ کے سامنے زبان ہلانے کی ہمت نہیں تھی۔ لیکن نسبت طے پاکر ٹوٹ جانے کے سبب عمران احساس کمتری، چڑچڑاپن،جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا جارہا تھا۔
کسوٹی نے عمران کے حق میں فیصلہ دیابات لین دین اورجہیز کی آئی اخلاق کی والدہ نے عمران کو مخاطب کیا۔” بیٹے لڑکی کے ساتھ جہیز ہم اپنی اوقات اور حیثیت سے بڑھ کر دینے کا حوصلہ رکھتے ہیںجو بن پڑا حاضر کرینگے میری نظر میں جیسا اخلاق ہے ویسے تم ہوکوئی خواہش ہوتو اس کا اظہار کرسکتے ہو”عمران نے خوش اخلاقی سے سر ہلایا۔ کاغذ اٹھایا اور لکھنے لگا۔ حاجی صاحب کو عمران پر مکمل بھروسہ تھا کہ وہ ان کی دی ہوئی ہدایت سے بال برابر بھی ہٹنے کی ہمت نہیں کرسکے گا۔ اس لئے آنکھ موند کر بایاں ہاتھ داڑھی پر پھیرتے رہے اور دائیں ہاتھ سے تسبیح کے دانے بھی ٹٹولتے رہے۔
عمران مسکراتے ہوئے کاغذ بڑی بی کی طرف بڑھا دیاانہوں نے پڑھا اور ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔انہوں نے عمران کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا گویا وہ تذبذب کے عالم میں ہو ان کے ہاتھ سے ان کی بڑی بہو نے کاغذ کی وہ ٹکڑالے لیا۔ یکے بعد دیگرے سب نے کاغذ پر لکھی تحریر کو دیکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سناٹا چھا گیا۔ جہاں چند لمحے پہلے خوشی کا ماحول تھا۔ قہقہیں گونج رہے تھے۔ وہاں اب سناٹا چھا گیا
حاجی صاحب کی انگلیاں تسبیح کے دانوں پر تیز تیز چلنے لگیںمہمان خواتین ایک ایک کرکے ڈرائنگ ہال سے باہر آئیں۔ ایک بھابھی نے کہا۔ عمران کو اس قسم کا مذاق اماں بی کی موجودگی میں نہیں کرنا چاہئے۔ ”دوسری بھابھی نے اثبات میں سرہلایاکچھ دیر تک باتیں ہوتی رہیںاخلاق کے رشتہ کی ایک بہن نے کہا”ہمیں ذلیل کرنے کا ان لوگوں کو کوئی حق نہیں ہے چلو حاجی صاحب سے ہی دریافت کرلیں کہ آ خر منشاء کیا ہے۔
ڈرائنگ روم میں ایک طرف صوفے پر حاجی صاحب بیٹھے انگلیوں کی کسرت کررہے تھے۔ پتہ نہیں خاتون مہمانوں کو مرعوب کرنا مقصد تھا یارب عظیم کو جھانسہ دینے کی کوشش تھی۔ عمران بڑی بی سے مخاطب ہوا۔ پریشان ہونے کی کیا ضرورت ”آج ملک کے حالات سامنے ہیںانہیں مد نظر رکھتے ہوئے میں نے جہیز میں صرف بندوق مانگی ہے حقیقت یہ ہے کہ زندہ رہنے کے لئے ہمیں سونا سے زیادہ لوہا کی ضرورت ہے۔ میں ملازم پیشہ آدمی ہوںکب کس شہر میں رہوں ٹھیک نہیں کب کہاں کیاہوجائے معلوم نہیں۔ فرض کیجئے میں کوارٹر پر نہیں ہوں۔فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس صورت میں تمینہ اپنی حفاظت تو فسادیوں سے کرسکتی ہے۔ ان کا مقابلہ تو کر سکتی ہے۔ جب ہمارا حفاظتی دستہ اس کی حفاظت کے لئے آ گے بڑھے تو بندوق کی آ خری گولی اپنے سینے میں اتار کر اپنی عزت وعصمت کی حفاظت ان حفاظتی دستہ سے تو کرسکتی ہے ۔ عمران کی بات سن کر سب کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے اور حاجی صاحب کے ہاتھ سے تسبیح چھوٹ کر فرش پر گر پڑی۔
ختم شد
Dr. M. Arif
Kali bagh,Bettiah,Bihar, India,
Mob,No7250283933
EMAIL: mohammadarifalam2018@gmail.com
Mob:7250283933