حسان جاذب
اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش کا وقت ہے چہار جانب سے گدھوں کی مانند امت مسلمہ کو ایک کثیر آبادی والا طبقہ نوچنے کے درپے ہے ۔ ملی ، سماجی ، سیاسی ، مذہبی ہر طرح کی منافرت کو نہ صرف جائز سمجھا جارہا ہے بلکہ اس کو پھیلانے کی حکومتی سطح پر ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ وہی وقت ہے جہاں کسی چیز کو جائز نا جائز کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ کس سے صدور ہوا ہے یہ اہم ہوتا ہے اور اسی کے تئیں فیصلہ کیا جاتا ہے۔ آج ہندوستان کے کسی بھی مسئلے کو آپ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو یہی باتیں نظر آئیں گی ۔ یہاں تک بھی شاید وقت کا ستم سمجھا جاتا اور یہ سمجھا جاتا کہ طاقت کی پجاری ہمیشہ کم و بیش پائےگئے ہیں ۔ کل انکی تعداد کم تھی آج زیادہ ہے ۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر جب کسی قوم کو مٹی میں ملانے کی بات کی جائے ۔ ایک خاص طبقے کی عزت سے کھلواڑ کو نہ صرف جائز سمجھا جائے بلکہ اس کی بیٹیوں بہنوں کے ناموس کو چھیننے پر انعامات سے نوازاجا ئےتو پھر ایسا وقت فیصلہ کن وقت ہوتا ہے ۔ جہاں کسی قوم کے لیے سوچنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ وقت و حالات اس عملی قدام کا متقاضی ہوتا ہے جس کے نتائج دور رس ثابت ہوں ۔ حالیہ مسائل میں مسئلہ ارتداد نہ صرف اہم بلکہ ناگزیر ہوگیا ہے ۔ مختلف پلیٹ فارم سے مختلف حوالوں کے ساتھ علمإ دانشور مسلم لڑکیاں جو ارتداد کی شکار ہورہی ہیں اس کی تعدا سالانہ آٹھ سے دس لاکھ بتارہے ہیں ۔ حالانکہ یہ بہت اہم ذرائع سے بات نہیں کی جارہی لیکن اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ حالات نہایت ہی نازک ہیں ۔ یہ فتنہ جو کل تک بڑے شہروں اور بڑے مخلوط اداروں تک سمٹا ہوا تھا اب گائوں دیہات اور چھوٹے سے چھوٹے اداروں میں پھیل چکا ہے ۔ یا پھر جو تعلیم سے مکمل نابلد ہیں وہ بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے اس فتنے سی محفوظ نہیں۔ باضابطہ سڑکوں پر غیر مسلم لڑکوں کےساتھ نقاب زیب تن کیے مسلم لڑکیاں گھومتی نظر آتی ہیں ۔ اور ذہنی معیار یہ ہے کہ وہ تمام غیر مسلم لڑکا نہایت ہی سماج کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے ۔ جسے خوداپنے مذہب میں انسانیت کے خانوں میں نہیں رکھا جاتا ۔ اس کے ذریعہ سے یہ بھگوا لوو ٹرپ جیسی مذموم حرکتوں کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ جس میں سب سے زیادہ کامیابی اسے مخلوط درسگاہوں سے مل رہی ہے ۔ اسی حوالے سے مولانا سجاد نعمانی صاحب کی تقریری کلپ بھی گردش کررہی ہے جس میں وہ مسلم بچیوں کا کالج یونیورسٹی بغر گھر والوں کے اکیلے جانا حرام کہہ رہے ہیں ۔ بات درست بھی ہے لیکن نہ یہ ممکن ہے اور نہ اس بات پہ کوئی کان دھرنے والا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں نہ یہ کوئی کار آمد نسخہ ہے جو دیرپا ثابت ہو یا جس سے بہت بہتر نتائج نکل سکے ۔ کیونکہ اصل مسئلہ وہ ہے ہی نہیں ۔ اصل مسئلہ تو دینی حمیت اسلامی تہذیب اور غیرت کا فقدان ہے ۔ جس کے پیدا کرنے کی امت مسلمہ کوئی خاطر خواہ سبیل نہیں تلاش کرپارہی ہے ۔
یہ بات تو تسلیم کرنی ہی ہوگی کہ اگر فتنہ منظم ہے تو اس کا جواب بھی منظم طریقوں سے ہی دینا پڑیگا۔ جس کے لیے زمینی سطح پر کام کرنے کی فی الفور ضرورت ہے ۔ ورنہ حالات ابھی تو کچھ بدتر نہیں ہوئے آنے والا وقت سوچ سے زیادہ خطرناک ہوگا ۔ جس وقت شاید کچھ کرنے کو بچے گا بھی نہیں ۔ خود مسلمانوں کا ایک طبقہ لبرل ہونے کا نام پر آپس میں بٹ جائے وہ دن دور نہیں ۔ حالات یہ ہیں کہ کالج یونیورسیٹیوں کی صرف طالبہ نہیں بلکہ جو پروفیسر اور معلمہ ہیں انکی سوچ مذہبی معاملے میں بہت تشویشناک حد تک منفی پائی جاتی ہے ۔ انہیں ان کی سوچ کو مذہبی رجحانات سے اس حد تک دور رکھا گیا ہے کہ وہ تنفر آمیز لہجہ اختیار کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتے اور جب انہیں آئےینہ کا صحیح رخ دکھایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ آپ غلط زاویے پر ہیں تو وہ ششدر رہ جاتی ہیں ۔ انہیں پھر یہ شکوہ ہوتا ہے کہ ہم نے تو کبھی یہ سنا ہی نہیں تھا ۔ حالانکہ وہ اپنے فن میں ماہر بھی ہوتی ہیں اور مہذب بھی لیکن شروع سے وہ ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور ایسے ماحول میں پرورش پاتی ہیں جس سے وہ بعد میں بھی آسانی سے نہیں نکل پاتی ہیں جس کی وجہ سے میں انہیں اس سطحی سوچ کا ذمہ دار بھی نہیں سمجھتا ۔
دوسری طرف مسلم لڑکوں کی غیر مسلم لڑکوں کے مقابلے اعلی تعلیم میں اس قدر کم حصہ داری ہے کہ خال خال نظر آتے ہیں ۔ جبکہ مسلم لڑکیاں کثیر تعداد میں نظر آتی ہیں اگر یہی توازن رہا تو یہ مسئلہ در پیش آنا کوئی انہونی نہیں جب کہ ایک طرف طرح طرح کے حربے بھی اپنائے جارہے ہوں ۔ کتابوں کی مثالیں بھی مسلمانوں کو ویلن بناکر پیش کی جارہی ہو اور ایک مخصوص مذہب کے ماننے والے کو ہیرو ۔ ہر موقع پر مسلم بچیوں کو احساس کمتری میں دھکیلنے کے ساتھ ساتھ ایک طبقے کو سجا سنوار کر پیش کیا جارہا ہو تو یہ ارتداد کا مسئلہ درپیش ہونا کچھ تعجب خیز نہیں ۔ لیکن ان ساری منفی اور گوناگوں کیفیت کے باوجود امت مسلمہ کو ایک ایسی شریعت اللہ نے بخشی ہے جس میں تمام طرح کے حل موجود ہیں بس اسے سمجھنے اور اس پر چلنے کی ضرورت ہے ہمارے پاس اسلاف کے وہ نمونے موجود ہیں جنہوں نے اس سے بھی بدتر حالات میں امت کی ڈوبتی نائو کو پار لگایا ۔اگر ہم ہندوستانی ماحول کے تناظر میں اپنی تاریخ دیکھیں تو ہماری تاریخ صدیوں پرانی ہے ۔ جس میں طرح طرح کے چیلنج کا یہاں کے مسلمانوں نے مقابلہ کیا ہے 1857 کے بعد کے حالات دیکھ لیں اس ملک میں مسلمان مفتوح قوم بن چکی تھی سارے کس بل نکل گئے تھے اسی اندھیرے میں سرسید احمد خاں جیسے ہزاروں جیالے امت کا درد رکھنے والے نے شمع جلائی اور جگہ جگہ مدارس اسکول کالج کا جال بچھایا یہ الگ بات ہے کہ بعد والی نسلیں اس روش کو خاطرخواہ نہ اپنا سکی ۔ جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں اگر آج اسی چراغ سے روشنی حاصل کی جائے اور ہر دوچار مسلم بستی کے بعد مسلم اسکول ہر علاقے میں مسلم کالج کھولے جائیں جہاں عصری تعلیم بھی اسلامی تہذیب کے تئیں دی جائے بلکہ سیاسی شخصیتوں سے بھی اپنی مراد سڑکیں بجلی اور دگر مفاد کی باتوں کو پس پشت ڈال کر تعلیمی نظام پر مرکوز کی جائیں اور اسی بنیاد پر انہیں سپورٹ کیا جائے تو یقیناً یہ کام آسان ہوگا ۔ دیہاتوں میں زیادہ تر مسلم لڑکیاں پرآئویٹ کوچنگ اور ہوم ٹیوشن سے گمراہ ہورہی ہیں ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم بچے چھوٹے موٹے (پلمبرنگ ) جیسے کاموں کو پڑھ لکھ کر بھی ترجیح تو دیتے ہیں لیکن ٹیوشن دینا معیوب سمجھتے ہیں ۔ اس کا بھی ہر بستی اور شہروں کے ہر محلوں میں انتظام کی کوشش جائے۔ جس میں مسلم ٹیچر کے ذریعہ ہی تعلیم دینے کو لازم سمجھا جائے ۔ بلکہ صاحب حیثیت شخصیات اس میں غریب بچوں کی مدد بھی کریں ۔ محلے کی مسجدوں کو وسعت دی جائے اور عورتوں کے لیے ہر ممکن الگ انتظام کیے جائیں جس میں روزانہ کی تعلیم و تدریس کے لیے عالمہ عورتوں کو اجرت پہ رکھا جائے ۔ جمعہ کے خطبوں میں اگر انکی حاضری ہوگی تو ان کے اندر خود بخود اسلامی واقعات اور تعلیم سے وابستگی ہوگی کیونکہ عام طور پہ غیر مسلم لڑکے اسی بہانے ان سے نزدیک ہوتے ہیں ۔ وہ پہلے کہتے ہیں کہ ہم آپ سے اسلام جاننا چاہ رہے ہیں دو چار سوالوں کے بعد وہ ایسا پیچیدہ سوال کرتے ہیں جس سے یہ نابلد ہوتی ہیں پھر وہ اس مسئلے پر اپنے مذہب کی مختلف لچھے دار باتوں سے برتری ثابت کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کم علمی کی وجہ سے مسلم لڑکیوں کا ذہن بھی اپنے مذہب کے تئیں مشکوک ہوجاتا ہے اور بھگوا سازشوں کا شکار ہوجاتی ہیں ۔
اسی طرح سے ماہانہ دینی مجالس کا عورتوں کے لیے خاص طور پر انتظام کیا جائے جس میں یونیورسٹی اور کالج کی لڑکیوں کو بطور اسپیکر موقع دیا جائے گھر گھر ہر زبان میں حضرت خدیجہ سے لیکر حضرت عائشہ تمام امھات المومنین اور حضرت سمیہ سے لیکر حضرت خولہ تک کی سیرت پڑھائی جائے اور طرح طرح کے کلچرل اسلامی پروگرام کیے جائیں جو اسلامی غیرت سے تعلق رکھتے ہوں ۔ جس طرح تبلیغی جماعت والے ہر گھر سے جڑے ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح نوجوان طبقوں کو جوڑنے کی سعی کی جائے اور امام مسجد کو لازم اس بات پہ تیار کیا جائے کہ وہ اسلامی حمیت و غیرت پہ ہر جمعہ میں باتیں رکھیں اور روایتی عنوانات کو چھوڑ کر سماجی ماحول میں بہتری کے عنوانات کو اپنائیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں تمام طرح کی شمولیت زمینی سطح پر ہنگامہ کم کام زیادہ کی ذہنیت کے ساتھ نوخیز مسلم بچوں اور بچیوں کے ہاتھوں انجام دیے جائیں تاکہ دھیرے دھیرے اسلامی حمیت و غیرت خود بخود ان کے دلوں میں پیوست ہو اور اس مذموم فتنے کی سرکوبی کی جاسکے ۔
9304938716