حمزہ شعیب
دنیا بھر میں پھیلی کچھ نام نہاد حریت پسند تنظیموں کی منافقت یا جذباتیت نے ہمیشہ بڑے بڑے ملی عزائم کو ناکام بنانے میں کامیاب کردار ادا کیا ہے. "حماس” کا مشکوک کردار بھی ان تنظیموں سے کچھ الگ نہیں، اگر فلسطین کے مسائل کو ایمانداری سے دیکھیں تو حماس سے نفرت سی ہونے لگتی ہے، اس کی جذباتیت نے مسئلے کو بڑا پیچیدہ بنا دیا ہے، وہ فلسطینی قوم جو جینے اور زندہ رہنے کے مسائل سے جوجھ رہی ہے اس کے سامنے بار بار جنگی صورتحال پیدا کرنا اور کاؤنٹر اٹیک میں ظالم یہودیوں کے ہاتھوں بے قصور مسلمانوں کو نہتے پیش کر دینا حماس کی عادت رہی ہے، خبروں کے مطابق مل شاہ فہد نے اپنے زمانے میں فلسطین-اسرائیل جھگڑے کا ایک کامیاب اور دور رس حل تیار کر لیا تھا جس پر دونوں فریق راضی بھی ہو گئے تھے لیکن ‘حماس’ کی بدعقلی اور جذباتیت نے اسے عمل میں آنے سے پہلے ہی روک دیا، کون نہیں جانتا کہ عرب اسرائیل جنگ کے غدار حافظ ال?سد کے بیٹے اور سیریاء مسلمانوں کے قاتل بشار الاسد نصیری کے ساتھ آج بھی حماس کے کتنے گہرے تعلقات ہیں ؟ اور ال?سد ‘حزب اللات’ جیسی شدت پسند تنظیم کے کتنے قریبی اور حمایتی ہے، آج کے کیلکولیٹڈ راکٹ حملے سے ہمارے بہت سے مسلمان خوش ہو رہے ہیں جو فطری ہے اور دنیا کے ہر انصاف پسند کی دلی صدا ہے کہ فلسطین غاصب اسرائیل کے چنگل سے آزاد ہو، لیکن جانے انجانے میں وہ اس کے پس پردہ حقائق سے کہیں نہ کہیں چشم پوشی کر رہے ہیں کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اس کا خاکہ تیار کہیں اور ہوا، میدان کارزار کہیں اور سجی ہے اور بھاری نقصان کسی اور کا ہوگا…، اس کے علاوہ حملے کی ٹائمنگ بھی اپنے آپ میں کئی طرح کے سوالات کھڑے کر رہی ہیں کہ واقعی یہ حملہ القص کی لڑائی کے لیے ہے یا کَرَپشن میں ڈوبے اور عوامی احتجاج سے پریشان اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کو سیاسی آکسیجن فراہم کرنے کے لیے؟ کیا فلسطین یا حماس ابھی اس حالت میں ہے کہ اسرائیل کے رد عمل/ کاؤنٹر اٹیک کی تاب لا پائے گا؟ کیا فلسطینی عوام ذہنی طور پر تیار ہے اس جنگ کے لیے؟ عوامی حقوق کی پاسداری کا سوچے بنا انھیں مسلسل ایک بے نتیجہ جنگ میں جھونک دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا جہاد "بیچارہ” ہوگیا ہے (نعوذبااللہ) کہ ذاتی منفعت اور انتقام بھڑاس بجھانے کے لیے اس کا استعمال کیا جائے؟ اس کے علاوہ اور بھی کئی خدشات و سوالات ہیں جنھیں اس وقت لکھنا تھوڑی جلدبازی ہوگی لیکن آنے والے دنوں میں خود ہی حقائق بے نقاب ہو جائیں گے لیکن جب تک معصوم فلسطینیوں کا بڑا خسارہ ہو چکا ہوگا اور واضح رہے کہ جنگ صرف جذبات اور قوت بازو سے نہیں جیتی جاتی؛ اس لیے دل و دماغ کا مضبوط ہونا بھی نہایت ضروری ہے. تاریخ نے ایسی بہت سی جنگیں دیکھی ہیں جہاں مختصر سی فوجوں نے فقط قوت و جذبات سے بھری لاکھوں پر مشتمل فوجوں کو شکست دی ہے.