مختصر سوانح :سیدمخدوم اشرف جہانگیر سمنا نی رضی اللہ عنہ

0
0

ترتیب : محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
رابطہ نمبر:9037099731
٭آلِ رسول احمد الاشرف القادری کٹیہار کی کتاب : ’’ مختصر سوانح :سیدمخدوم اشرف جہانگیر سمنا نی رضی اللہ عنہ ‘‘ سے ماخوذ کیا گیا ہے ، آپ پڑھیں اورا ستفادہ اٹھائیں۔

(28محرم الحرام :عرس مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ)
تارک السلطنت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ: حیات و خدمات

جہاں میں ہے بڑا شہرہ ولایت ہو تو ایسی ہو
ملایا حق سے لاکھوں کو ہدایت ہو تو ایسی ہو
شہ سمناں تھے پہلے پھر ہوئے کونین کے سرور
ہدایت ہوتو ایسی ہو نہایت ہوتو ایسی ہو
مریدوں کی قیامت میں رہائی نار دوزخ سے
کریں گے اشرف سمناں حمایت ہوتو ایسی ہو
ساتویں صدی ہجری میں ایران کے صوبہ خراسان میں سادات حسینی کی حکومت تھی جسکا دار الحکومت شہر سمنان تھا۔ سلطان سید ابراہیم (المتوفی 723ہجری) اس حکومت کے سر براہ تھے جو ظاہری شان و شوکت اور سطوت و جلال کے ساتھ ساتھ باطنی خوبیوں سے بھی پوری طرح بہرہ ور تھے ۔سلطان سیدابراہیم صرف ایک بیدار مغز حکمران ہی نہ تھے بلکہ متقی و پرہیز گار عالم با عمل بھی تھے۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ ان ہی دین و دنیا کی دولت سے مالا مال مکرم و محترم شخصیت کے فرزند ارجمند تھے۔ سر زمین ہندوستان میں جن بزرگوں کے فیض قدوم سے شمع اسلام فروزاں ہوئی اور جنکے نقوش پاک کی برکت سے اس شمع کی روشنی ہر چہار سمت پھیلی ان مقدس ہستیوں میں سے ایک حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ذات بابرکت ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
ولادت باسعادت: حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کی ولادت بھی اپنی جگہ ایک کرامت ہے۔ شہر سمنان میں ایک صاحب حال مجذوب شیخ ابراہیم علیہ الرحمہ نامی رہا کرتے تھے ایک روز سلطان سید ابراہیم اور انکی اہلیہ محترمہ شاہی محل کے حرم میں تشریف فرما تھے کہ اچانک شیخ ابراہیم مجذوب اس جگہ پر وارد ہوئے تو سلطان اور ملکہ عالیہ نے ان مجذوب بزرگ کی حد درجہ تعظیم کی ان کو نہایت احترام سے اپنی جگہ بٹھایا اور خود ان کے سامنے ادب سے کھڑے ہو گئے۔ مجذوب نے پوچھا ’’ ابراہیم کیا تو اللہ تعالی سے بیٹا مانگتا ہے؟‘‘ یہ سن کر سلطان اور ملکہ بہت خوش ہوئے کیونکہ اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں بہت ملول رہتے تھے اور اکثر بارگاہ خداوندی میں رو رو کر دعائیں کیا کرتے تھے۔ اب مجذوب کی زبان سے اچانک یہ سنا تو دونوں کے چہروں پر خوشی اور مسرت کی لہریں دوڑ گئیں۔ سلطان نے ادب سے عرض کی، آپ بزرگ ہیں دعا فرما دیں۔ مجذوب بزرگ نے اولاد نرینہ کی دعا فرمائی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ چند روز بعد سلطان ابراہیم نے سرور کائنات فخر موجودات ﷺ تم کو خواب میں دیکھا۔ حضور پر نورﷺنے فرمایا :’’ اے ابراہیم! تجھ کو اللہ تعالی دو فرزند عطا کرے گا بڑے کا نام اشرف اور چھوٹے کا نام اعراف رکھنا اشرف اللہ کا ولی ہو گا اور مقرب بارگاہ ایزدی ہو گا۔ اسکی پرورش اور تربیت بھی خاص طریقے سے کرنا‘‘ ۔ ( مختصر سوانح : سید مخدوم ا شرف جہانگیر سمنانی، ص:04)۔
حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ولادت سے تین ماہ قبل اہل سمنان نے ایک مجذوب کو دیکھا جو شہر کے گلی کوچوں میں نہایت بلند آواز میں صدا لگا رہا تھا ’’باادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں اس مجذوب کو سب سے پہلے اس سپاہی نے دیکھا جو شہر سمنان کی فصیل پر پہرہ دے رہا تھا کیونکہ رات کو شہر کے دروازے بند کر دیئے جاتے تھے تاکہ ڈاکو ولٹیرے اندر داخل نہ ہو سکیں۔ رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی یہ آواز جب اسکے کانوں پہنچی تو وہ بڑا حیران ہوا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے مجذوب کو فصیل کے اندر پایا کیونکہ فصیل اتنی بلند تھی کہ بغیر کسی ذریعے کے اسکو عبور کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں تھا اب سپاہی پر دہشت طاری ہو گئی اور وہ حیرت سے مجذوب کی جانب دیکھ رہا تھا جس کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھی اور وہ مسلسل یہی صدالگارہا تھا: ’’با ادب باملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں اس آواز سے شہر سمنان کے در و دیوار گونج رہے تھے لوگ حیران تھے کہ یہ دیوانہ کون اور کس کے آنے کی خبر دے رہا ہے۔ یہ وہی شیخ ابراہیم مجذوب تھے جنہوں نے سلطان سید ابراہیم کو فرزند سعید کی بشارت دی تھی۔ اور اب ان کی ولادت سے تین ماہ قبل یہ خبر پورے شہر سمنان میں پھیلا دی تھی۔ آخر مجذوب کی دعا اور حضور پر نورﷺکی بشارت پوری ہوئی اور8 70 ہجری کو حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ (بحوالہ: حیات غوث العالم مصنف مخدوم الملت ابوالمحامد سید محمد اشرفی جیلانی محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ ۔
تعلیم و تربیت:سلطان خراسان سلطان سید ابراہیم نے اپنے فرزند کی تعلیم حفظ قرآن سے شروع کروائی اور تربیت پر بطور خاص توجہ دی سات سال کی عمر میں حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے بفضل خدا قرآن کریم مع سات قرآت کے حفظ کیا اور چودہ سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ میں عبور حاصل کر لیا، حضرت مخدوم سمنانی کمسنی ہی میں حضرت شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور صاحب کشف کرامت بزرگ تھے حضرت رکن الدین کی خصوصی توجہ اور اپنے جذبہ صادق کی وجہ سے حضرت مخدوم سمنانی تیزی سے راہ سلوک پر گامزن ہو گئے۔ جب آپ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو آپ کے والد ماجد سلطان سید ابراہیم وصال فرما گئے۔ اس طرح اس کم عمری میں سلطنت سمنان کی ذمہ داری کا بار گراں آپک کے کندھوں پر آگیا لیکن آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایسا بہترین نظام چلایا کہ لوگ حیران رہ گئے۔
آپ نے 722ھ سے 733 ھ تک دس سال نہایت عدل و انصاف سے حکومت کی اسی دوران حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ کو اسم ذات بغیر مدد زبان ورد کرنے کی مشق کرائی اور اس کا ورد کرنے کا حکم دیا، آپ نے اس ورد کی مشق مسلسل دو سال کی۔اس مشق کے بعد اشغال اویسیہ کی جانب رجوع ہوئے تو خواب میں حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کی زیارت ہوئی جنھوں نے براہ راست آپ کو اشغال اویسیہ کی تعلیم دی اور اجازت شغل مرحمت فرمائی۔ ) مختصر سوانح : سید مخدوم ا شرف جہانگیر سمنانی، ص:04)۔
سیاحت و دین تبلیغ: حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے پیر و مرشد حضرت علاؤالدین گنج نبات رحمتہ اللہ علیہ کے حکم پر تبلیغ دین کے لئے روانہ ہو گئے آپ نے پوری دنیا کی سیاحت کی اور اس دوران لاکھوں انسانوں کو راہ ہدایت دکھائی تبلیغ کے سلسلے میں بڑی بڑی رکاوٹیں آئیں اور بہت ہی خطرناک جادو گروں سے مقابلے ہوئے، لیکن کوئی بھی آپکے سامنے نہ ٹھہر سکا آپ نے اس سلسلے میں تقریر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تحریری کام بھی جاری رکھا آپ نے 31 تصنیف فرمائیں جو مرور ایام کے ساتھ ساتھ وہ نا پید ہو گئیں، لیکن اب بھی الحمد اللہ 10کتابیں ایسی ہیں جو صحیح حالت میں ہیں۔ اور عالم اسلام کی مختلف جامعات میں محفوظ ہیں اکثر کتا ہیں فارسی میں تھیں بعد میں آپ نے ان کا عربی میں ترجمہ کیا جس طرح ایک کتاب فوائد العقائد تھی یہ کتاب فارسی میں تھی بعد میں اس کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ آپ کے خلیفہ و جانشین حضرت سید عبد الرزاق نور العین فرماتے ہیں: کہ جب آپ عرب میں تشریف لے گئے تو بدوؤں نے تصوف کے مسائل جانے کی خواہش کی تو آپ نے فوائد العقائد کا عربی زبان میں ترجمہ کیا آپ کی تصانیف میں لطائف اشرفی کو بڑی اہمیت حاصل ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ نے تصوف کے بڑے اہم اسرار ورموز بیان فرمائے ہیں طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے یہ کتاب دیگر جامعات کے علاوہ جامعہ کراچی کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
سید اشرف جہانگیر سمنانی صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اردو زبان کے پہلے ادیب بھی مانے جاتے ہیں۔ چنانچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ آپ کا ایک رسالہ اردو نثر میں ’’اخلاق و تصوف‘‘ بھی تھا۔ پر وفیسر حامد حسن قادری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق بھی یہی ہے کہ اردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالہ ’’اخلاق و تصوف‘‘ ہے جو758 ھ مطابق 1308 ء میں میں تصنیف کیا گیا ۔یہ قلمی نسخہ ایک بزرگ مولا نا وجہہ الدین کے ارشادات پر مشتمل ہے اور اس کے28 صفحات ہیں۔ قادری صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مذکورہ رسالہ اردو نثر ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی پہلی کتاب ہے اور داستان تاریخ اردو میں لکھے ہیں۔ اردو نثر میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں پس محققین کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ اردو نثر نگاری کے پہلے ادیب و مصنف ہیں۔
تصانیف جلیلہ :
1۔رسالہ مناقب اصحاب کاملین و مراتب خلفائے راشدین 2۔ رسالہ غوثیہ
3- بشارۃ الإخوان 4۔ارشاد الاخوان
5۔ فواید الاشرف 6۔ اشرف الفوائد
7۔ رسالہ بحث وحدۃ الوجود 8۔ تحقیقات عشق
9۔ مکتوبات اشرفی 10۔اشرف الانساب
11۔ مناقب السادات 12۔ فتاوائے اشرفی
13۔ دیوان اشرف 14۔ رسالہ تصوف و اخلاق (بزبان اردو)
15۔رسالہ حجۃ الذاکرین 16۔ بشارۃ المریدین رسالۃ قبریہ
17۔ کنز الاسرار 18۔ لطائف اشرفی (ملفوظات سید اشرف سمنانی)
19۔ شرح سکندر نامہ 20۔ سر الاسرار
21۔ شرح عوارف المعارف 22۔ شرح فصول الحکم
23- قواعد العقائد 24۔ تنبیہ الاخوان
25۔ متالیحہ، تصوف 26 تفسیر نور بخشیہ
27- رسالہ در تجویز طعنہ یزید 28۔ بحر الحقائق
29۔ نحواشرفیہ 30۔ کنز الدقائق
(بحوالہ: حیات غوث العالم، محبوب یزدانی، لطائف اشرفی)
دیدار صحابی رسول : غوشیت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہونے کے علاوہ حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے حضرت سید نا ابوالرضا حاجی رتن ابن ہندی رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول ﷺتھے، ان کے دیدار و ملاقات کا شرف بھی حاصل فرمایا۔ چنانچہ حضرت مخدوم سمنانی رضی اللہ عنہ ہی کا ارشاد ہے: ’’ وقتی کہ ایں بملازمت حضرت ابوالرضار تن رسید داز انواع لطائف ایشاں بہر مند شدہ یک نسبت خرقہ ایں فقیر بحضرت رتن میرسد و ادرا بحضرت رسول اللہ ﷺ‘‘ (بحوالہ: لطائف اشرفی، جلد: 1، ص: 378)۔
اس لحاظ سے آپ تابعی ہوئے اور اس امتیازی وصف نے حضرت مخدوم قدس سرہ کی ذات گرامی کو جملہ مشائخ کے درمیان منفرد اور بے مثال بنادیا۔ حضرت حاجی رتن رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو:(علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب ’’الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ”صفحہ: 225 تا 232 اور اجمالی کے لئے، اذکار ابرار، صفحہ: 26،27)۔
وصال پر آہ حسرت : حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی زندگی سیاحت و تبلیغ دین میں گزاری اور سیاحت کے دوران کئی سو بزرگان دین سے فیض حاصل کیا۔ سن 808 ہجری میں ہندوستان میں ہندؤں کے مقدس مقام اجود ھیا کے قریب پہنچے اور کچھوچھہ شریف میں اپنی خانقاہ قائم کی۔ محرم الحرام کا چاند دیکھ کر آپ نے بڑی طمانیت کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا ’’ کاش جد مکرم حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی موافقت جلد نصیب ہوتی‘‘۔ اسکے بعد آپ کی طبعیت ناساز ہو گئی اور آپ بستر علالت پر دراز ہو گئے اور آپ نے مریدین کو بلا کر فرمایا میں چاہتا ہوں کہ میری قبر میری زندگی میں تیار ہو جائے۔ حسب الحکم لحد مبارک تیار کی گئی اور اس وقت نصف محرم گزر چکا تھا آپ ایک قلم اور کاغذ لے کر قبر میں تشریف لے گئے اور وہاں بیٹھ کر مریدین کے لئے ہدایت نامہ تحریر فرمایا جس میں اپنے عقیدے اور مسلک کی وضاحت فرمائی اور مریدین کو راہ سلوک طے کرنے دین کے احکام پر پوری استقامت کے ساتھ عمل کرنے اور شریعت اور طریقت پر عمل کرنے کی سخت تاکید فرمائی یہ ہدایت نامہ رسالہ قبریہ کے نام سے مشہور ہے۔
آپ نے اپنے حجرہ خاص میں مریدین اور خلفاء کی موجودگی میں حضرت سید عبدالرزاق نورالعین کو طلب فرمایا اور ان کو خرقہ مبارک تاج اشرفی اور تبرکات خاندانی عطا فرما کر اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ ظہر کے وقت آپ نے نور العین کو امامت کا حکم دیا اور خود انکی اقتداء میں نماز پڑھی۔ نماز کے بعد آپ خانقاہ میں رونق افروز ہو گئے اور سماع کا حکم فرمایا قوالوں نے شیخ سعدی کے اشعار پڑھے ایک شعر پر آپ کو کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وجد کی کیفیت میں خالق حقیقی کے در بار اقدس میں پہنچ گئے۔ آپ کا مزار پر انوار کچھوچھہ شریف ضلع فیض آباد یوپی میں مرجع خلائق ہے ۔( مختصر سوانح : سید مخدوم ا شرف جہانگیر سمنانی، ص:15)۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب الاخبار الاخیار میں فرماتے ہیں کہ آپ کا مزار کچھوچھہ شریف میں ہے یہ بڑا فیض کا مقام ہے اس علاقے میں جنات کو دور کرنے کے لئے آپ کا نام لینا تیر بہدف ہے۔
آپ کا مزار مبارک کچھوچھہ شریف میں آج بھی مرجع خلائق ہے اگرچہ مخدوم سمنانی کے وصال مبارک کو چھ سو سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے لیکن آج بھی آپ کی یاد لوگوں کے دلوں میں موجود ہے آپ کا عرس مبارک ہر سال 26 تا 28 محرم الحرام کو کچھوچھہ شریف میں نہایت شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ جس میں ہندوستان پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی لوگ وہاں جا کر شرکت کرتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں بھی ان کی طرح نیک نیتی اور خلوصیت سے امت محمدیہ کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، دین کے احکام پر پوری استقامت کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، مسلک اہلسنت و جماعت یعنی مسلک اعلحضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی ﷺپر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں قرآن ، نماز ،روزہ ،زکاۃاور حج کو اس کے مقررہ وقتوں میں بحسب شریعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا