قیصر محمود عراقی
اپنے بچپن میں ڈھول کی آواز کی ساتھ یہ جملے آپ میں سے اکثر نے سنے ہونگے۔’’اٹھو روزہ دارو،اللہ کے پیارو‘‘۔ اور جب سحر کے وقت گہری نیند میں تیز آوازوں اور ڈھول کی تھاپ کے ساتھ یہ جملے کانوں میں پڑتے تو روزہ دار ہی نیند سے بیدار نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے اندربھی کچھ بیدار ہوجاتا تھا۔ جو روزہ دار نہیں ہوتے تھے یقینا ان کی آوازوں سے بیدار وہ بھی ہوجاتے ہونگے مگر دل میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہوگا کہ اللہ کے پیارے تو اس وقت روزہ دار ہی ہیں، سو یہ لفظ جسمانی اور روحانی بیداری کا ایک پیغام بھی ہوتے تھے۔ آج بھی ان الفاظ کے ساتھ ذہن ماضی کے دریچوں میں پہنچ جاتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ کتنا کچھ بدل گیا ظاہر ہے کہ انسان زندگی کے معمولات شب وروز اور رنگ ڈھنگ سب ہی بدل رہے ہیں سو زمانے کے ساتھ ساتھ اس ماہ مقدس سے وابستہ ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی کے بہت سی اطوار بدل گئے ۔
اب بڑے شہروں میں تو سحری کے وقت ڈھول بجاکر روزہ داروں کو جگانے کا احترام شاید ہی کہی ہوتا ہو، اس لئے کہ آج کل تو موبائل فون کے الارم یہ کام کرتے ہیں۔ اسی طرح آج سے تین چار عشرے قبل مساجد میں روزہ داروں کیلئے گھروں سے افطار بھیجنے کا خاص اہتمام کیا جاتا تھااور بچوں کے ہاتھوں یہ افطاری بھیجی جاتی تاکہ ان میں رمضان کے اکرام کا جذبہ بھی پیدا ہو اور جذبۂ انفاق بھی ۔آپ تین چار دہائی قبل کے کلچر کا آج کلچر سے موازنہ کریں تو واضح طور پر محسوس کریں گے کہ اس وقت غریبوں اور امیروں میں کوئی تفریق نہیں تھا، ایسا نہیں تھا کہ فرق نہیں تھا، یقیناتھا، اس وقت بھی جن کے گھر کے مرد حضرات اچھی نوکری پر ملازمت ہوتے یا اچھے کاروباری ہوتے تھے تو ان کا طرز زندگی نسبتاً آسودہ ہوتا تھا، مگر طبقاتی فرق رویوں میں نظر نہ آتا تھا، سب کا طرز رہائش اور طرز فکر تقریباً یکسا تھا، دولت کے اظہار کے طریقے بھی شاید لوگ یوں نہ ڈھونڈتے تھے جیسے اب ، اس وقت افطار پارٹی کا یو رواج نہ تھا، آج معاشرے کا متوسط لوگ بھی اسی بھیڑ چال کا شکار نظر آتے ہیں۔ پہلے زمانے میں افطار میں سموسے،پکوڑے، بیگنی، چنااور فروٹ وغیرہ متوسط اور نیم متوسط سب ہی کے دسترخوان کے لوازمات تھے، ساتھ ہی کوئی شربت وغیرہ بھی ، بس اتنا ہی تصور تھا افطار کا ، مگر اب افطار کی ڈسوکی اتنی ورائٹی ، افطار وسحر کے مشروبات کی اتنی طرح طرح کے اقسام ،اب تو پہلے روزے سے قبل ہی فریج کولڈ ڈرینکس اور انواع واقسام کے جوس وغیرہ سے بھر جاتے ہیں۔ ماہِ صیام کے بدلتے ہوئے شب وروز کی کہانی ہم میں سے ہر ایک اپنی زبانی سناسکتا ہے، کتنی تیزی سے بدل گیا اور بدلنے کو ہے، آج ٹی وی کے مختلف چینلوں پر افطار وسحر کے پکوان دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ اس وقت تو یوں گھر گھر ایئر کنڈیشن بھی نہ ہواکرتے تھے اور اس وقت تو اتنی مشینی سہولیتیں بھی میسر نہ تھی، خواتین گھر داری کے سارے کام خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں، ماسیوں کا کلچر بھی عام نہ تھا، مگر آج روزہ داروں کو جو آسائش حاصل ہیںبالخصوص بڑے شہروں میں اس وقت کب ان کا تصور کیا جاسکتا تھا؟ وہ دعائیں جو اس وقت ہر مسلمان رمضان میں مانگتے تھے، ہم نے اپنے والدین تو کیا کسی کو بھی یہ دعائیں کرتے نہیں دیکھا، مثلاً رمضان امن وعافیت سے گذرجائے، تراویح اور ختم قرآن کی مجالس بخیریت اور امن کے ساتھ ہوجائیں وغیرہ وغیرہ۔
قارئین محترم! رمضان اگر چہ ہر دور میں ’’کمائی کا سیزن‘‘ہی سمجھا جاتا رہا ہے مگر منافع خوری اور لاقانونیت میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، ماہِ رمضان میں روزہ داروں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے نت نئے طریقے سوچے جاتے ہیں، دھن دولت اس طرح حواس پر ہے کہ اب ہمیں اپنے پڑوسی کے مسائل ومشکلات کا علم تک نہیں ہوتا، بلکہ زندگی محدود دائروں میں اس طرح سمٹ رہی ہے کہ پروس سے تعلقات رکھنے کا تصور بھی معدوم ہوتا جارہا ہے، نہ اپنے وقت پر ہم کسی کا حق سمجھتے ہیں نہ اپنے مال پر ۔ پہلے چھوٹی چھوٹی خوشیاں اڑوس پڑوس میں شیئر کرکے ہر ایک تنہائی سے بچتا تھا اب ہم خوشیاں شیئر نہیں کرتے، مثلاً پڑوس میں افطاری بھیجنے کی رسم یا اہل محلہ کے بچوں کو چھوٹے موٹے تحائف دینا یا رمضان میں قراوت داروں کے حقوق کی ادائیگی، بیماروں اور ضعیفوں کی مزاج پرسی وغیرہ، آج اپنے دائروں میں سمٹ کر ہم اجتماعی طور پر تنہائی کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اسی طرح پہلے رمضان میں مرد معاش جو وقت بچ جاتا تھامساجد میں گذارنے یا گھروں میں عبادات کے اہتمام میں صرف کرنے کو ترجیح دیتے تھے، خواتین بھی خانہ خوانگی امور سے بچ جانے والے وقت کو اپنی اور اپنے بچوں تذکیر اور گھر کی فضاکو روحانی بنانے پر صرف کرتی تھیں، سمجھدار خاتون خانہ امورِ خانگی اس طرح ترتیب دیتی تھی کہ بیشتر وقت تلاوت وتذکیر اور بچوں کی تربیت کیلئے نکال سکیں۔ مگر فی زمانہ نمازِ ظہر کے بعد جو رمضان شوزشروع ہوتے ہیں تو بیشتر گھروں میں پورا پورا خاندان ایک دن کے کئے گھنٹے ان شوز سے تفریح لیتا ہے۔ رمضان کو اس طرح گلیمرائزاور کمرشلائزکردیا جائے گا آج سے دوعشرے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اب تذکیے اور تربیت کاکام سب دوسرے کرتے ہیں سرمایہ جیت گیا اور ہم تماشائی بن کر رہ گئے۔ ایک وقت تھا غریبوں اور محتاجوں کی مدد کی جاتی تھی، ان کے مسائل سنے جاتے تھے مگر اب یہ رجحان کہاں، اب تو سرمایہ دار اپنے سرمائے میں اضافہ کرتا ہے۔
بہر حال یہ سچ ہے کہ رمضان کے مہینے میں سماج میں مذہبی رجحان میں مجموعی طور پر اضافہ نظر آتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہماری مذہبی اور روحانی سرگرمیوں کے اثرات معاشرے پر نظر کیوں نہیں آتے؟ رمضان ہم مذہبی جوش وجذبے سے گذارتے ہیں، حج پر لاکھوں مسلمان عظیم الشان روحانی اجتماع منعقد کرتے ہیںمگر ہمارے معاشرے میں برائی اور خرافات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ آخر ہماری عبادت کا اثر اجتماعی زندگی میں نظر کیوں نہیں آتا؟ یہ ۲۰۲۴کے رمضان المبارک کا ہم سے سوال ہے۔
:6291697668