ماسٹر محمد دین صاحب ایک گوہر نایاب 

0
0
محمد ریاض ملک اڑائیوی منڈی پوچھ 9858641906
mrayaz227@gmail. com
تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں استاد کو والدین کے بعد سب سے زیادہ محترم حیثیت حاصل رہی ہے۔بادشاہ ہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ، خلیفے ہوں یا کہ کوئی اللہ کا ولی  سبھی اپنے استاد کے آگے ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آئیں گے۔  حقیقت میں مرتبہ ومقام استاد کی بدولت نصیب ہوتاہے۔آج جس استاد کی بات کرنے جا رہے ہیں ۔ وہ ضلع پونچھ کے ایک ایماندار اورہمدرد استاد ہیں۔جنہیں علم کے فلک پر ماسٹر محمد دین کے نام سے یادکیاجاتاہے ۔ جو ضلع پونچھ سے 26 کلو میٹر دور پلیرہ گاوں کے ایک مسلم گھرانے میں محترم لعل دین کے گھر 1938ءمیں پیداہوے۔ ماسٹر محمد دین صاحب سے ایک بار پوچھا حضرت آپ کی پیدائش کب ہوئی تو محترم ماسٹر محمد دین صاحب نے بلیک بورڈ پر لکھا جب علامہ اقبال رح کی وفات ہوئی تھی ۔آپ کی والدہ صاحبہ کا نام محترمہ نذیرہ بیگم تھا ۔جو نہایت ہی نیک،پاکباز تھی ۔ جن کا شمار صاحب علم میں ہوتا ہے۔بچپن سے ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تمام زمہ داریوں کا بوجھ والدہ محترمہ کے سر پڑگیا -ماسٹر محمد دین  نے بنیادی درسی تعلیم اپنی والدہ نزیرہ بیگم اور اپنے ماموں جان محترم قاضی بدرالدین  کے زیر نگرانی حاصل کی ۔بدرالدین صاحب اپنے وقت کے قاضی اور صاحب علم ، علم شناس اور علم دوست شخص کے طور پر جانے جاتے تھے ۔۔اس کے بعد انھوں نے داخلہ اس وقت کے  پرائمری اسکول لوئل بیلہ میں لیا۔۔قسمت سے وہاں معلم استادوں کے استاد محترم ثناوللہ صاحب براچھڑ والے کی نگرانی کا شرف حاصل ہوا ۔۔جو اپنے وقت کے بے مثال استاد ہوا کرتے تھے ۔پانچویں جماعت پرئمری سکول  لوئل بیلہ سے  پاس کرنے کے بعد ہائی اسکول پونچھ میں داخلہ لیا ۔اور وہی سے دسویں جماعت تک حاصل کرنے کے بعد 1956عیسوی میں 18سال کی عمر میں بحثیت استاد پرائمری اسکول لوئل بیلہ میں ہی تعینات ہوئے ۔ جہاں انہوں نے تعلیم میدان میں بحثیت استاد قدم رکھا۔
شادی اور بچے :-والد صاحب کا سایہ بچپن میں ہی سر سے اٹھ گیا ۔والدہ صاحبہ نے بچپن میں ان کی شادی کروادی جو 1963 تک باحیات رہی اور 1963کو شریک حیات نے الودع کہہ دیا پھر دوسری شادی پلیرہ کے دولی خاندان کے نامور گرانے میں امنہ بیگم دختر سردار میرباز خان سے 1963 میں ہوئی ۔جن کے باطن سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔۔تین بیٹے اور دو بیٹیاں گورنمنٹ ملازم ہیں اور ایک بیٹا زاتی کاروبار کرتا ہے,تنویر احمد شیخ قاضی بارویں ارٹی ٹیچر محلہ کماراں
ماسٹر محمد آمین ایم اے بی ایڈ ۔ایم ایس ہنڈی ناڑ
ماسٹر عبدالروف ہائی سکول پلیرہ ایم اے بی ایڈ
عبدالقدوس ،ایم اے بی ایڈ  انآیمپلائیڈ
بہین طاہرہ پروین پی ایس بنواس ,رفعت ارا ایم پی ڈبلیو کی حثیت سے محکمہ دیہی ترقی میں تعینات ہیں۔غرض جو دوسروں کے بچوں کی فکر تعلیم معاش اور مستقبل کا خیال رکھتا ہے۔ اس کے خود کے بچے بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ لیکن جو دور جدید کے کچھ اساتذہ کی طرح بچوں کے ساتھ بھید بھاؤ کرکے تعلیم سے دور رکھتے ہیں۔ ان اساتذہ کے بچے ضرور اس کی سزاء بھگتیں گے۔
بحثیت استاد:-1956میں 18سال کی عمر میں بحثیت استاد پرائمری اسکول لوئل بیلہ میں تعینات ہوئے مختلف اسکولوں میں فرائض منصبی انجام دینے کے بعد 1995میں گورنمنٹ کا ریکارڈ سے بطور استاد سبکدوش ہو گے مگر عوام اور طلباء و طلاب کے لئے تا حیات استاد ہیں ۔
سیاسی سرگرمیاں :
استاد کا کام صرف تعلیم دینا نہیں بلکہ نئی نسل کی تربیت بھی کرنا ہے۔ ایک آئیڈیل استاد کو غیر سیاسی ہوتا ہے مگر بچوں میں سیاسی شعور لانا اس کے فرائض میں سے ایک فرض ہوتا ہے غیر جانبدارانہ رویہ استاد کا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے طلباء مختلف سیاسی گھروں سے اتے ہیں اور ان سب کو برابر کی نظر میں رکھنے کے لئے غیر سیاسی ہونا بہت ضروری ہے استاد کے منصب کا کوڈ آف کنڈکٹ اسکے غیر سیاسی ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی اخلاقیات کا تقاضا بھی ہے۔ ایک استاد کے لیے اس کے سارے طلبا ایک جیسے ہونے چاہیے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ایک استاد کے لیے وہ برابر ہیں ۔ یہ تمام صفات استاد محترم میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ سیاسی شعور میں بلوغیت پر کام ضرور کرتے تھے مگر غیر جانبدار رہتے تھے ۔۔۔جب ماسٹر محمد دین صاحب 1995میں سبکدوش ہوے۔ اس کے بعد مذہبی امور کو سر انجام دیتے رہے ۔2001میں جب پنچایتی  الیکشن کا بغل بجا تو لوگوں نے انھیں سرپنچ منتخب کیا اور پانچ سال بہترین طریقے سے سرپنچ کے عہدہ پر فائز ہو کر لوگوں کی خدمت کی ۔
طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری بڑی اہم ذمہ داری  ہوتی ہے۔ اور جو شخص اس فرض کو دیانت داری، نیت، خلوص اور احساسِ فرض کے ساتھ سرانجام دیتا ہے وہ قوم کی صحیح معنوں میں بہت بڑی خدمت کرتا ہے۔ یہ خدمت ماسٹر محمد دین صاحب نے بخوبی نبھائی ہے۔  وہ نیکی و پرہیزگاری کا مکمل ومجسم نمونہ تھے۔  اور ان کی زیارت ہی سے تعلیم کے مقدس فیض کا عکس شاگرد کے دل میں اتر جاتا تھا۔ ماسٹر محمد دین صاحب  عصرِ حاضر کے تناظر سے بخوبی واقف تھے۔ ان کا کام طالب علم کو محض اسباق یا کتب پڑھادینا نہیں تھا  بلکہ  اصل کام اپنے طلباء میں علم کا شوق پیدا کرناہوتا تھا۔مزید جاننےکی لگن پیدا کرنا اور تحقیق و جستجو کیلئے ان کی استعداد میں اضافہ کرنا ہوتا تھا۔ جو ماسٹر محمد دین صاحب پورے اور کھرے اترے تھے۔جہاں علمی شوق اور جزبہ خدمت خلق تھاوہی وہ کہتے تھے۔کہ
استاد جتنی دلکش اور اچھی شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس کا اتنا ہی اچھا اور مثبت اثر طالب علم پر پڑتا ہے ۔ طالب علم اپنی شخصیت کی تعمیر میں اس کا اتباع کرتا ہے اور حصول علم میں اس کی زبان سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دیتا ہے یہی صفات محترم ماسٹر محمد دین صاحب میں تھی وہ ہمیشہ طلباء  کو جھوٹ سے پرہیز اور سچ بولنے کی تلقین کرتے تھے ۔وہ طلبہ کے ساتھ گفتگو کا انداز اور لب ولہجہ ہمہ وقت نرم و شیریں ہونا  رکھتے تھے کیونکہ   زبان کی نرمی اور سختی کے اثرات اور نتائج بہت دور رس ہوتے ۔ماسٹر محمد دین صاحب  عادات، اقوال و اعمال،لباس اور وضع قطع کے لحاظ سے ہمیشہ  طلباء کے لئے  رہبر و رہنما کا کام کرتے تھے
علم وفن کو دوسروں کی طرف منتقل کرنے بلکہ پورے تعلیمی عمل کی کامیابی اور مؤثر حکمت عملی کے  اعلیٰ استعداد کے  مالک تھے اور خود نفسِ مضمون پر عبور رکھتے تھے استاد ایک نہایت قابل احترام شخصیت ہوتی ہے۔ چاہے وہ عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا ہو‘ مذکر ہو یا مونث ہو، کسی اسکول یا مکتب کا ہو جس کا ادب اور فرماں برداری کرناہم پر واجب ہے۔ استاد کی اسی تعظیم و اطاعت گزاری کی وجہ سے انسان کہاں سے کہاں پہنچادیا جاتا ہے اس کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب وہ زندگی میں کسی بہتر مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ بعض اوقات والدین سے زیادہ توجہ ‘ حوصلہ ‘اعتماد‘ ترقی اور ہمت اساتذہ عطا کرتے ہیں ایسے استاد صدیوں بعد ملتے ہیں.
2019 کے بعد محترم ماسٹر محمد دین صاحب کی صحت علیل ہونے کی وجہ سے وہ گھر پر ہی رہے۔ اور 28 اکتوبر 2023 بروز سنیچر وار اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔اور شاگردوں اور چاہنے والوں کو داغ فرقت دیکر ہمیشہ ہمیش کے لئے ہم سے جداہوگئے۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا