ماسٹر دین محمد دیدڑ :بھلیسہ کی ایک قدآور اور تاریخی شخصیت

0
0

منظور سمسھال
بھلیسہ ؍؍ماسٹر دین محمد دیدڑ 1942ء میں ڈھڈکائی بھلیسہ میں چوہدری نور حسین دیدڑ نمبردار کے گھر پیدا ہوئے۔ان کے سات بیٹوں میں ایک تھے۔بچپن سے ہی پولیو کے شکار تھے جس وجہ سے ان کی بائیں ٹانگ کمزور ہونے کی وجہ سے انہیں لاٹھی کا سہارا لینا پڑتا تھا۔لیکن جسم توانا تھا کبھی انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں تھا کہ وہ کمزور ہیں یعنی اپاہج ہونا ان کی ترقی کے راستے میں کبھی آڑے نہیں آیا۔ان کے والد نے اس احساس کے ساتھ انہیں اسکول میں داخل کرا دیاکہ وہ اولاد میں سب سے کمزور تھے جس وجہ سے انہیں باقی کام کاج کرنا بھی دشوار تھا اس لیے ان کو ہی اسکول کے لیے وقف رکھا۔یہاں ان کے والدین کو ان کے احساس تعلیم اور تعلیم کی قدر کرنا اور افادیت کو سمجھنے کی داد دینا لازمی سمجھتا ہوں۔ کہ اس دور میں جب لوگ تعلیم سے کوسوں دورتھے۔زمین ،دودھ اور گھی کھلا تھا۔اگر کہیں کمی تھی تو وہ تھی تعلیم کی کمی۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ گاوں میں کوئی سکول نہیں تھا 1948 میں ان کا داخلہ پرایمری سکول گندو میں کروا دیا گیا۔پرایمری پاس کرنے کے بعد مڈل سکول کلہوتران سے انہوں نے مڈل پاس کیا اور پھر ہائی سکول جکیاس سے دسویں کا امتحان 59-60 میں پاس کیا۔اس طرح دسویں تک کی تعلیم نیہایت ہی کٹھنائیوں اور مشکلات کے بعد مکمل ہوئی۔آپ آنکھیں بند کر کے اس دور کی سڑکوں،راستوں،عمارتوں اور دیگر سہولیات کا تصور کر سکتے ہیں۔کتابیں ،وردی اور سکول فیس کیسے پوری کی جاتی تھیں،اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔بقول ہاشم دین صوفی یہ نہ صرف ڈھڈکائی نواسیوں کی خوش قسمتی تھی بلکہ پورا علاقہ ہی خوشی قسمت تھا کہ دین محمد دیدڑ مرحوم ان سنگلاخ علاقوں سیاس وقت کی اعلی تعلیم سے روشناس ہوے۔اس وقت گوجر کمنٹی میں صرف چوہدری نور محمد تھے جو میٹرک پاس تھے۔ظاہر ہے کہ اس وقت دسیویں جماعت کا امتحان پاس کرنا جوے شیرکے مترادف تھا 1966ء میں ریاست جموں وکشمیر میں غلام محمد صادق وزیراعلیٰ تھے۔مرحوم حاجی میر علی ان کو وزیر اعلیٰجموں وکشمیر کے پاس لے کر چلے گیے۔اس موقع پر ان کے ہمراہ چوہدری نور محمد بھی تھے،جو اس وقت ممبر آف لیجسلیٹو کونسل جموں وکشمیر (ایم ایل سی ) تھے۔کہا جاتا ہے حاجی میر علی نے ان کا پولیو سے متاثرہ پاؤں وزیر ااعلیٰ کے میزکے سامنے رکھا اور انہیں آگاہ کیا کہ کن حالات میں انہوں نے تعلیم حاصل کی۔اس طرح سے اپریل 1966ء میں ان کی تقرری محکمہ تعلیم میں بطور مدرس پرایمری سکول بنون بونجواہ میں ہوئی۔بعد میں پرایمری سکول ملت،پرایمری سکول دگرنڈ اور پھر پرائمری سکول ڈھڈکائی میں رہے۔عمر کا زیادہ عرصہ ڈھڈکائی سکول میں ہی گزرا اور 34 برس لمبا عرصہ محکمہ تعلیم میں خدمات انجام دینے کے بعد جون 2000ء میں اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہوے۔ماسٹر دین محمد دیدڑ ایک دیانتدار شخص تھے جو محنت اور لگن سے پڑھاتے تھے۔اس وقت جب ملازمین کی جواب دہی بہت کم ہوا کرتی تھی۔وہ صرف اؤر صرف رضا خدا کے لیے کام کرتے تھے۔قوم کی کسمپرسی اور غربت کا ان کو بخوبی اندازہ تھا ،اس لیے انہوں نے اپنے فرائض منصبی میں کوئی بھی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔پڑھانے کا طریقہ نرم اور دلچسپ تھا۔وہ کھیل کھیل میں بچوں کو پڑھاتے تھے۔اکثر ترنم سے ابتدائی جماعتوں کو درس دیتے۔کبھی کبھی جب سکول آنے سے قاصر رہتے تو بچوں کو اپنے گھر پر بلا لیا کرتے مگرچھٹی نہیں کرتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ جب وہ انچارچ تھیتو تاخیر سے آنے والے اساتذہ کا وقت نوٹ کیا کرتے اور جب یہ وقت ایک یوم کے برابر ہوتا تو ایک یوم متعلقہ استاد کے کھاتے میں بطور کیجویل لیو اندراج ہوتا۔سکول جوش وخروش سے جاتے۔ہر روز ان کے لیے ایک نیا دن اور ہر صبح نء صبح ہوتی۔سکول پہنچنے کے بعد ملاقاتی سلسلہ ہوتا۔منوں کے درخت کے ساے میی کچھ ہنسی مذاق ہوتا کچھ باتیں واتیں۔اب نہ وہ منوں کا سایہ سکول کو رہا اور نہ ہی ہڈ ماسٹر کا سایہ کمپنٹی پر۔سبھی انہیں ہیڈ ماسٹر کہتے ،یہ ہڈ ماسٹر آج کے پچاسوں ہڈ ماسٹروں پر بھاری تھا۔رعب کا یہ عالم تھا کہ مجال کوئی کلاس میں پڑھاتے وقت آس پاس سے گزرے۔۔۔۔۔خوب صحت مند تھے۔مجھے خوب یاد ہے کہ جب میں تیسری کلاس میں تھا تو ایک زبانی امتحان میں مجھے سوال پوچھا گیابڑی طاقت اور چھوٹی طاقت کیا ہوتی ہے۔۔۔ میں نے جواب تو درست دیا لیکن جب مثال پوچھی تو مجھے اپنا ہاتھ آن کے ہاتھ میں دینا پڑاپھر کیا تھا۔۔۔۔۔۔پہروں بعد ہوش آیا اندازہ نہیں تھا اس آدھے آدمی میں اتنا زور ہوگا۔خیر نمبر پورے کے پورے آئے۔سکول کا نظا م ایسا تھا کہ کھلے آسمان تلے ایک جھوٹی سی یونیورسٹی تھی۔اسٹاف میں ماسٹر علم دین صاحب مرحوم ،جو رشتے میں میرے ماموں جان تھے،ہاشم دین صوفی صاحب ،محمد رفیق فراقی صاحب ،سیف علی صاحب ،شوکت صاحب ،خادم صاحب ،رفیق ظہور صاحب ،خاقان سجاد صاحب علی حسین صاحب وغیرہ تھے۔واقعات بہت ہیں جو ان کی پہلودار شخصیت سے جڑے ہیں ہیڈ ماسٹر دین محمد دیدڑ صاحب مرحوم بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔وہ ایک مردانہ شان رکھتے تھے۔جہاں ان کی طبیعت تیز طرار تھی ،وہاں وہ ہنس مکھ اور خوش مزاج بھی تھے۔ان اوصاف پر بہت سارے مضامین قلم بند کیے جا سکتے ہیں۔ دین محمد صاحب مرحوم کو ادب کے ساتھ بہت لگاؤ تھا۔انہیں 1988ء میں گوجری ادبی سنگت ڈوڈہ کا صدر منتخب کیا گیا۔سنگت کے نایب صدر حاجی قطب الدین عارف رام بن اور سکریٹری جنرل چوہدری ابراہیم صاحب مرحوم مقرر ہوے جن کی کاوشوں کو گوجری ادب ضلع ڈوڈہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا اس وقت ان کے شاگردوں کے بھی بہت سے شاگرد ہیں۔ان کی قربانیوں نیز تعلیمی کاوشوں کو کبھی بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔عوامی بہبودی کے علاوہ اپنے کنبہ پر بھی ان کے کافی احسانات ہیں۔ان کے بھتیجے الحاج سیف علی جو اب ہڈ ماسٹر ہیں ،ان کے ہی زیر پروش رہے۔انہوں نے 2000ء میں سفر محمود کیااور 2000ء میں ہی سبکدوش ہوگئے۔مجھے ان کا شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ بھی ملا ہے جو میرے لئے باعث فخر بھی ہے اور باعث سعادت بھی۔بلخصوص ڈھڈکای اور بالعموم بھلیس ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔سبکدوشی کے بعد ذندگی نے ان سے وفا نہ کی اور17دسمبر 2004ء میں وہ اپنے مالک حقیقی کو جا ملے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا