لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سنجیدہ کیوں نہیں ہوتا معاشرہ؟

0
0

 

 

 

رچا پانڈے
پٹنہ، بہار

تعلیم کا شعبہ ان شعبوں میں سے ایک ہے جہاں گزشتہ چند سالوں میں بہار میں سب سے زیادہ تبدیلی اور ترقی ہوئی ہے۔ اساتذہ کی بروقت آمد اور تمام کلاسز کے بروقت انعقاد کے باعث سکولوں میں بچوں کی حاضری بڑھنے لگی ہے۔ نہ صرف شہروں بلکہ دیہی علاقوں میں چلنے والے سرکاری سکولوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر کیا گیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ لڑکیوں کی تعلیم میں دیکھا جائے گا۔ ایک طرف جہاں ریاستی حکومت لڑکیوں کی تعلیم کا فیصد بڑھانے کے لیے مکھیا منتری کنیا اتھان یوجنا،پوشاک اسکیم اور سائیکل اسکیم جیسی کئی اسکیمیں چلا رہی ہے، وہیں دوسری طرف اسکولوں کی حالت کو بہتر بنا کران میں معیاری تعلیم فراہم کرنا آسان ہوگیا ہے۔اگرچہ انتظامی سطح پر نوعمر لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں ترقی ہوئی ہے، لیکن سماجی سطح پر آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے سوچ بہت زیادہ ترقی یافتہ نظر نہیں آتی ہے۔ صرف دیہی علاقے ہی نہیں بلکہ شہری علاقوں میں بہت سے کچی آبادی والے علاقے ہیں جہاں لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بہت محدود ہیں۔ بہار کی راجدھانی پٹنہ شہر کے وسط میں واقع سلم ایریا عدالت گنج اس کی ایک مثال ہے۔ پٹنہ جنکشن کے قریب واقع اس بستی کی آبادی ایک ہزار کے قریب ہے۔ تین علاقوں عدالت گنج،اینخ (گننا)کالونی اور ڈرائیور کالونی میں منقسم اس علاقے تک تعلیم کی لو تو پہنچ چکی ہے لیکن یہ ابھی تک پوری طرح سے روشن نہیں ہوئی ہے۔ ان کالونیوں میں صرف چند نوعمر لڑکیاں ہیں جو بارہویں کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

اس کچی آبادی میں زیادہ تر خاندان روزی روٹی کی تلاش میں دور دراز کے دیہی علاقوں سے آئے ہیں۔ اس میں درج فہرست ذات اور او بی سی برادریوں کی اکثریت ہے۔ڈرائیور کالونی میں رہنے والے خاندانوں کے زیادہ تر مرد آٹو ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں، جبکہ اینخ (گننا)کالونی میں رہنے والے خاندانوں کے مرد پٹنہ شہر کے مختلف علاقوں میں گنے کا رس بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ ان دونوں کالونیوں کا نام کام کے حساب سے قائم کیا گیا ہے۔ ان نچلے متوسط طبقے کے خاندانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اب بھی بہت زیادہ شعور نہیں ہے۔ آج بھی لڑکوں کی تعلیم کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں 18 سالہ کویتا (بدلا ہوا نام) کا کہنا ہے کہ اسے 12ویں کے بعد پڑھائی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا کیونکہ اس کے بھائی کو مزید پڑھنا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ”ہم تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ میرا بھائی اس وقت 10ویں کلاس میں ہے جبکہ باقی دو بہنیں 6ویں اور 8ویں میں پڑھ رہی ہیں۔ گھر میں پیسوں کی کمی ہے۔ والد کے گاڑی چلانے سے اتنی کمائی نہیں ہوتی ہے کہ کفالت کر سکیں۔ گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ ہم بھائی اور بہنوں کی پڑھائی کا خرچ بھی برداشت کر سکیں۔اس لیے مجھے 12ویں کے بعد پڑھائی چھوڑنی پڑی تاکہ پیسے میرے بھائی کی تعلیم پر خرچ ہو سکے۔ وہ کہتی ہیں کہ”میں بھی کالج جانے میں دلچسپی رکھتی تھی لیکن جب پیسے کی بات آتی ہے تو لڑکی کو پہلے اپنی تعلیم چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہی مجھے بھی کرنی پڑی۔کویتا کے پڑوس میں سندھیا کماری (نام تبدیل) کا گھر ہے۔ گھر میں گندے برتنوں کا ڈھیر دھوتے ہوئے وہ بتاتی ہے کہ ”اس کے گھر میں اس کے بڑے بھائی کی مرضی غالب ہے، وہی فیصلہ کرتے ہے کہ کس کو پڑھنا ہے اور کتنا پڑھنا ہے۔ دسویں جماعت میں اس کے کم نمبروں کی وجہ سے بھائی نے اسے اپنی پڑھائی چھوڑنے اور گھر کے کاموں میں ماں کی مدد کرنے کے لیے کہا ہے۔اب وہ لوگ اس کی شادی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی ہے۔وہیں 15سال کی پوجا بتاتی ہے کہ کسی وجہ سے اس کا نام دو سال قبل اسکول سے کاٹ دیا گیا تھا،جس کے بعد وہ پھر کبھی اسکول ہی نہیں گئی۔ وہ کہتی ہے کہ اس کے والد یا اس کے خاندان کے کسی فرد نے دوبارہ اس کے داخلہ کے بارے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی تو اب اس کی بھی پڑھائی میں دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔

تاہم، اسی کالونی میں رہنے والی پرتیما کا کہنا ہے کہ وہ بی اے کے دوسرے سال کی طالبہ ہے۔ اسے گھر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اسے شادی تک تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہے۔ محلے کی زیادہ تر لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ کچھ گھروں میں انہیں شادی تک پڑھنے کی اجازت ہے۔ پرتیما کے مطابق، ان کچی بستیوں میں زیادہ تر لڑکیاں 12ویں سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرپاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے اسکول کے زمانے میں کھیلوں میں حصہ لیا کرتی تھی لیکن جب اس نے کالج میں داخلہ لیا تو اس کے گھر والوں نے اسے کالج میں کسی بھی قسم کی کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے سے انکار کردیا کیونکہ کھیلنے کے لیے اسے شایدپٹنہ سے باہر بھی جانا پڑتا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ کھیل کود کرنے والی لڑکی کی شادی میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ان کے اچھے رشتے نہیں آتے ہیں۔ اس سلسلے میں سماجی کارکن فلک کا کہنا ہے کہ ”اگرچہ عدالت گنج دارالحکومت پٹنہ شہر کے مرکز میں واقع ہے، لیکن یہاں ابھی بھی بیداری کی بہت کمی ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم اور اس سے متعلق مسائل پر گھر والوں کی تنگ نظری ہوتی ہے۔وہ ابھی تک لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں، یا تو وہ 12ویں کے بعد ہی لڑکی کی شادی کر دیتے ہیں یا پھر ان کی تعلیم چھڑا کر انہیں گھر کے کام میں لگا دیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے حکومت کی مختلف اسکیموں کے باوجود عدالت گنج کی کچی آبادی میں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں زیادہ شعور نہیں ہونا باعث تشویش ہے۔

ہمارے ملک میں آج بھی تعلیم ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ خاص طور پر جب ہم خواتین کی شرح خواندگی کی بات کرتے ہیں تو اس میں نمایاں کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ انڈیا اسپینڈ کی رپورٹ کے مطابق سیکنڈری سطح پر لڑکیوں کے اندراج کی شرح میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ سال 2012-13 میں 43.9 فیصد کے مقابلے میں سال 2021-22 میں یہ بڑھ کر 48 فیصد ہو گیا ہے۔ لیکن نوعمر لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی اسکول سے باہر ہے۔ سال 2021-22 میں، جہاں ملک میں پرائمری سطح پر لڑکیوں کے سکول چھوڑنے کی شرح 1.35% ہے، وہیں ثانوی سطح پر یہ بڑھ کر 12.25% ہو گئی ہے۔ اگر ہم بہار کی بات کریں تو 2011 کی مردم شماری کے مطابق جب کہ ملک میں خواتین کی خواندگی کی قومی اوسط 65 فیصد کے قریب ہے،وہیں بہار میں خواتین کی خواندگی کی شرح صرف 50.15 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ جو قومی اوسط سے بہت کم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف اسکیموں کو نافذ کرنے سے ہی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی ہے بلکہ اس کے لئے بیداری پھیلانے کی بھی ضرورت ہے۔ سماجی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کوبھی سمجھے اور لڑکیوں کو بھی پڑھنے کا بھرپور موقع مل سکے۔ (چرخہ فیچرس)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا