’لوگ مررہے ہیں،یہ مسئلہ ہے‘

0
0

اس حکومت کو کرسی پر بیٹھے کا کوئی حق نہیں: عمر عبداللہ
جان محمد

جموں؍؍’’اگر حکومت سمجھتی ہے کہ کشمیر میں لوگوں کا سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو اسے اقتدار کی کرسی پر بیٹھے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے،وادی کے حالات میں کوئی سدھار نہیں آرہا ہے اور سیکورٹی فورس و شہری ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے‘‘۔ان خیالات کااِظہارحزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت نیشنل کانفرنس کے کارگزارصدر ورکن اسمبلی عمرعبداللہ نے یہاں ریاستی قانون سازاسمبلی کے باہرنامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کیا۔عمرعبداللہ نے کہا’’لوگ مررہے ہیں، کیا یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ اگر حکومت کو لگتا ہے کہ لوگوں کا مرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو مجھے لگتا ہے کہ اس حکومت کو کرسی پر بیٹھے کا کوئی حق نہیں ہے، میری حکومت کے دوران اس طرح کے واقعات ہوتے تھے تو میں ہی جانتا ہوں کہ مجھ پر کیا گذرتی تھی،میں نے کبھی نہیں کہا کہ شہری ہلاکتیں کوئی مسئلہ نہیں ہے،میں خود مانتا تھا کہ یہ مسئلہ ہے‘‘‘۔انہوں نے کہا ’’اس سال کا ابھی صرف دوسرا ہفتہ چل رہا ہے، کتنے سویلین مر گئے، ہمارے کتنے بہادر سیکورٹی فورس اہلکار مر گئے،اگر ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد بھی لگتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس کوئی مسئلہ نہیں ہے اور ہم بیوقوقف لوگ ہیں اور خوامخواہ شور کرتے ہیں،تو پھر شاہد ہم میں ہی کوئی کوتائی ہے‘‘۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ لوگوں کے منہ کو نشانہ بناکر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا ’کل جس کو مارا گیا، اُس نے کوئی بندوق نہیں اٹھائی تھی۔ منسٹر صاحب نے خود مانا کہ وہ بے گناہ تھا۔ اس کی گردن میں گولی لگی ہے۔ جو زخمی ہوا ہے، اس کے کندھے میں گولی لگی ہے۔ سیدھے مظاہرین کے منہ کو نشانا بنایا جارہا ہے۔ وہ جنگجو ہوتا تو میں مانتا کہ جھڑپ میں مارا گیا۔ حکومت نے کہا کہ وہ بے گناہ تھا ، اس لئے انہوں نے انکوائری صادر کی ہے‘۔ انہوں نے کہا ’ کشمیر کے حالات سدھر نہیں رہے ہیں۔ ہمیں حالات میں کوئی سدھار نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ دوسرا ہفتہ چل رہا ہے اور ہمارے قریب آٹھ سیکورٹی فورس اہلکارمارے جاچکے ہیں۔ شہری ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے‘۔ نیشنل کانفرنس کارگذار صدر نے کہا کہ اپوزیشن نے اسمبلی میں بحث کے لئے تحاریک التواء جمع کرائی تھیں لیکن حکومت نے بحث کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا ’پہلے دن کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے تحاریک التواء پیش کیں جن میں مطالبہ کیا گیا کہ کشمیر کی سیکورٹی صورتحال اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر بحث ہو۔ انہوں نے اس کی اجازت نہیں دی‘۔ انہوں نے کہا ’کل کولگام میں احتجاج کے دوران ایک نوجوان کی موت ہوئی، اس کو لیکر ہم نے آج سرکار سے جواب مانگا۔ ہمیں امید کررہے تھے کہ وزیر داخلہ و یونیفائیڈ ہیڈکوارٹرس کی چیئرپرسن (محبوبہ مفتی) یہاں آکر وہی بات کرے گی جو ہمیں اخبارات میں ان کے حوالے سے پڑھنے کو ملی ہے۔ لیکن وہ نہیں آئیں۔ وہ اُس وقت آئیں جب میں نے اس معاملے کو ایوان میں اٹھایا، لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ ایوان میں اس ہلاکت پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کریں۔ اور ہمیں یقین دہانی کراتیں کہ وہ ان واقعات کو روکنے کے سمت میں اٹھائیں گی۔ لیکن وہ نہیں آئیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا