مدثراحمدکرناٹک
9986437327
9986437327
ملک میں ایک کے بعد ایک مسجدوں پر فرقہ پرست طاقتیں قبضہ جمانے کی پوری کوششیں کررہی ہیں۔مسجدوں کے تحفظ کیلئے جہاں مسلمان حکومتوں سے اْمیدیں باندھا کرتے تھے،اْنہیں وہاں پر شدید نااْمید ہاتھ لگی،اس کے بعد مسلمانوں نے عدالتوں نے سے اْمید لگائی تو وہاں پر بھی مسلمانوں کو نااْمیدی ہی ہاتھ لگ رہی ہے،حالانکہ ملک میں ایک ایساقانون بھی ہے جس میں یہ کہاگیاہے کہ1947 سے پہلے جس جس کی عبادت گاہ،جس قوم کی تحویل میں ہیں،اْن عبادت گاہوں پرکوئی دوسرا اپنا ہونا کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔1992 میں بابری مسجدکی شہادت کے بعد یہ قانون نافذکیاگیاتھا،باوجوداس کے اس قانون پر عمل پیرائی نہ کہ برابرہورہی ہے۔
اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت قانون کو نافذکرنے کیلئے جو عدالتیں موجودہیں،ان عدالتوں میں سنگھ پریوارکا قبضہ ہوتاجارہاہے۔سنگھ پریوارکے کارندے،وکیل،پولیس اور ججوں کے منصب پر فائزہیں۔کرناٹک کیشیموگہ ضلع کے تیرتھ ہلی تعلقہ میں مقامی عدالت کے جج نے گذشتہ دنوں دستورکو گیتا سے مشابہت کی،اس کے علاوہ انہیں جو تقریرکرنے کیلئے بلایاگیاتو وہ تقریرکے اغاز وانجام میں جئے شری رام کے نعرے پکارے۔اندازہ لگائیے کہ کس طرح سے عدالتوں میں سنگھ پریوارکی فکررکھنے والے ججس براجمان ہوچکے ہیں۔ملک کیجو موجودہ حالات ہیں وہ مسلمانوں کیلئے لمحہ فکرہیں،مسلمانوں کواب اپنے طورطریقوں پر مزید تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے تو مسلمان کسی ایک حکومت کی اڑمیں اکر اس قدرپْراْمید نہ ہوجائیں کہ ان کے اوقافی اداروں،مساجد،مدرسوں اور خانقاہوں کے تحفظ کیلئے کوئی حکومت اگے ائیگی اور حکومتوں کا بھروسہ ہی کیا کیاجاسکتاہے،اج یہ اِدھر تو کل اْدھرکا رخ کرتے ہیں۔کبھی ہندوتوا کی مخالفت کرتے ہیں تو کبھی نرم ہندوتواکی تائیدمیں اْتراتے ہیں،مسلمانوں نے اب تک ایسے ہی دھوکہ کھایاہے۔سیاستدانوں کی چکنی چپٹی باتوں پر بھروسہ کرتے ہوئیکبھی اپنے مستقبل کو مستحکم بنانے کی فکرنہیں کی،جس وقت مسجدوں،مدرسوں کے دستاویزات کو مضبوط کرانے کا موقع ملاتھا،اْس دوران تومسلمانوں نے یہ کہہ خاموشی اختیارکرلی تھی کہ ہماری حکومت ہے،ایسے میں ہم کون انگلی اٹھائیگا؟کس کے پاس دم ہے کہ مسلمانوں کی مسجدوں پر انکھ اٹھا کر دیکھے؟
ا س طرح کے اوور کانفیڈنس بیانات نے مسلمانوں کو اج بیچ چوراہوں پر لاکھڑاکیاہے،جہاں پر نہ حکومتیں ان کی سن رہی ہیں،نہ عدالتوں میں ان کی چل رہی ہے۔اس وقت بھی مسلمانوں کی مسجدیں،مدرسے ایک طرح سے غیر محفوظ ہیں،مسلمان اپنی عبادت گاہیں تو عالیشان ،زبردست وخوبصورت بنالیتے ہیں مگر ان عبادت گاہوں اور درسگاہوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے نہ ان کے دستاویزات درست ہوتے ہیں نہ ہی ان کی امدنی کاحساب وکتاب کا کوئی پتہ ہوتاہے۔
اج جو مسجدیں تعمیرکی جارہی ہیں،تیس چالیس سال بعدیہ قدیم مسجدیں کہلائینگی،اْس وقت بھی ملک میں حالات مزید فتنہ برپانیوالے ہونگے،تو کیا اْس وقت کی نسلیں ان مسجدوں کو بچاپائینگی؟۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اج جو مسجدیں ہمارے درمیان موجودہیں،اْن مسجدوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئیقانونی طورپر تیاری کرنی ہوگی۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلمان اپنی نسلوں کو صرف پیسہ کمانے کی دوڑلگانے کے بجائیایسے شعبوں میں نمائندگی کرنے کیلئیتیارکریں،جس میں عدلیہ ،انتظامیہ اور میڈیا شامل ہے،جب تک ان تینوں شعبوں میں مسلمانوں کی معقول نمائندگی نہیں ہوتی،اْس وقت تک ہم غیر وں سے انصاف کی اْمیدنہیں رکھ سکتے۔گذشتہ دنوں کیرلاکیمرکزمیں تعلیم حاصل کرنیوالے پچاس سے زائد طلبائنے وکالت کی ڈگری حاصل کرتے ہوئے وکالت کے پیشے کو اختیارکیاہے،یہ وکلائ مدرسوں کے فارغین ہیں اور مستقبل کو دیکھتے ہوئے اے پی استادکے ماتحت چلنیوالے ان مدرسوں سے فارغ ہونیوالے یہ نوجوان وکیل بن چکے ہیں۔وہیں دوسری جانب مسلمانوں کے دوسرے مدارس میں قابل اور باصلاحیت طلباء کے ہوتے ہوئے بھی یہ طلباء فراغت حاصل کرنے کے بعد یاتو محض امامت وتدریس کے شعبے سے جڑجاتے ہیں یاپھر معمولی پیشوں کو اختیارکرلیتیہیں۔ جس طرح کی صلاحیت فارغین مدارس میں ہوتی ہے وہ صلاحیتیں شائدہی دوسرے طلباء میں ہوتی ہے۔
اسلام صرف مسجدوں اور مدرسوں تک محدودنہیں ہے بلکہ اسلام زندگی کے ہر شعبے میں موجودہے،جب تک مسلمانوں کی نمائندگی سماج کیتمام شعبوں میں دینداروں کے ذریعے سے نہیں ہوتی،اْس وقت تک اچھے سماج کی بنیادرکھنا ممکن نہیں ہے۔اس مضمون کا اخذ یہی ہے کہ مسلمانوں کو پہلے تو اپنے مسجدوں،مدرسوں اور اوقافی اداروں کے دستاویزات کو درست کرنے کی پہل کرنے کیلئے اگے اناچاہیے،دوسرا کام دیندار اور فارغینِ مدارس کے علاوہ مسلمانوں کی نئی نسل سماج کے ہر شعبے میںقیادت کیلئے اگے آئے۔