قلمدان تقسیم میں نتیش و نائیڈو حاشئے پر!

0
0

بینام گیلانی
۰۰۰
پارلیمانی انتخاب 2024 کے نتائج آنے کے بعد ہر ہندوستانی کے ذہن میں صرف اور صرف ایک ہی سوال گونج رہا تھا کہ "اب کی بار کس کی سرکار”۔کیونکہ حسب ضرورت دونوں ہی اتحاد NDA اور I.N.D.I.A کے پاس نشستوں کی تعداد نہیں ہے۔ جتنی کہ مطلوب ہے۔یعنی 272 نشستوں سے دونوں ہی اتحاد دور رہے۔یوں تو NDA کے پاس 293 نشستیں ہیں۔جو 272 سے کافی زیادہ ہیں۔لیکن ان 293 نشستوں میں کل 28 نشستیں جد یو اور تیلگو دیشم پارٹیاں کی ہیں۔متذکرہ بالا دونوں ہی پارٹیوں کے سربراہان نتش کمار اور چندر بابو نائڈو میدان سیاست کے بہت ہی تیز طرار اور منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور کسی بھی ہاتھ آئے ہوئے موقع کو کسی بھی صورت میں ضائع کرنے کے حق میں کبھی نہیں رہے۔یہ بھی ایک بلا تردید حقیقت ہے کہ ہاتھ آئے ہوئے موقع کو کوئی بھی انسان ضائع کرنا پسند نہیں کر سکتا ہے۔بلکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے حق میں ہوتا ہے۔یہاں تو سیاست کے دو مہارتھیوں کا معاملہ ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہاتھ آئے ہوئے موقع کو ضائع کر دیں۔چنانچہ اپنی نگاہوں میں کئی حسین سپنے سنجوئے دونوں ہی انتہائی تجربی کار سیاست دان سودا بازی کی غرض سے دلی دربار پہنچ گئے۔ شاید وہ دونوں اس حقیقت کو بالکل ہی فراموش کر گئے کہ درباروں میں سودا بازی نہیں ہوتی ہے بلکہ وہاں خیرات و امداد ہی عنایت کی جاتی ہے۔وہ بھی اگر صاحب دربار انصاف پسند غریب پرور عوام دوست اور مہربان ہو۔۔لیکن صد افسوس کہ جس دربار میں نتش کمار اور چندر بابو نائڈو اپنا اپنا دامن پھیلائے پہنچے۔وہاں کے صاحب دربار درج بالا صفات عالیہ میں سے کسی بھی صفت کے حامل نہیں ہیں۔کیونکہ وہ صاحب دربار تو خود صرف لینا جانتے ہیں دینا نہیں۔ ان کو اگر طلب کرنے سے نہیں ملا تو وہ بڑھ کر چھین لینے کا فن بھی بہت ہی احسن طریقے سے جانتے ہیں۔اسی باعث وہ کسی شخص کو،کسی بستی کو یا کسی قوم کو تباہ و برباد کرنے میں بھی کبھی تاخیر و تامل سے کام نہیں لیتے ہیں۔شاید یہی سبب ہے کہ اس دفعہ دلی دربار کے نشانے پر نتش کمار اور چندر بابا نائڈو ہیں۔متذکرہ بالا دونوں ہی لیڈران بڑی امید و آس کے ساتھ نریندر دامودر داس مودی کی نو تشکیل پانے والی حکومت کو اپنی بیساکھی کا سہارا دینے کی غرض سے پہنچے تھے اور جس نریندر مودی کے سامنے چوں چرا کہ ہمت اسی بی جے پی کے بڑے سے بڑے لیڈران و سیستدان کی نہیں رہی ہے۔اسی نریندر مودی کے سامنے آنکھ میں آنکھ ڈال کر یہ دونوں ہی لیڈران نے اپنا لمبا چوڑا مطالبہ رکھ دیا۔انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ جس ندیندر داس مودی کے سامنے وہ مطالبہ پیش کر رہے ہیں وہ مودی ازلی متکبر ،کاذب مطلب پرست اور سازشی ذہن کا حامل خود ہے۔۔اسے درج بالا میدان عمل میں شکست دینا یا اس سے اپنی شرط تسلیم کروانا مشکل ہی نہیں ناممکن۔اس کی نگاہ میں قول و کردار اور عہد و پیمان کی نہ کوئی قدر و قیمت و اہمیت ہیاور نہ ہی اپنے عہدے کے وقار کی پروا۔انہیں بس اس امر کی فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ اقتدار کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔اس مقصد کے تحت وہ ظرف و ضمیر کا سودا کرنے سے بھی باز نہیں رہتے۔جب دیکھا اقتدار ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔کیونکہ ان کے پاس مطلوبہ تعداد نشستوں کی نہیں ہے۔چنانچہ اقتدار کی حفاظت کے لئے آپ نے نتش کمار اور چندر بابو نائڈو کے سامنے دامن پسار دیا۔معلوم نہیں اس کے لئے ان دونوں سے کیا کیا وعدے وعید ہوئے۔جب نتش اور چندر بابو نائڈو دربار تک پہنچ گئے تو مودی جی بالکل ہی بدل گئے۔اس غیریت کا اظہر نتش کمار اور چندر بابو نائڈو سے کیا کہ وہ بھی اپنی مثال آپ ہی ہو کر رہ گیا۔دونوں ہی لیڈران نے اپنا اپنا مطالبہ رکھا تو مودی جی نے ان مطالبات کو قابل اعتنا بھی تصور نہیں کیا اور سرے سے خارج کر دیا۔۔مودی جی نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ وزارتیں اپنے چہتوں کے حوالے کر دیں جن پر نتش کمار اور چندر بابو نائڈو کا دعویٰ تھا۔مودی نے متذکرہ بالا دونوں ہی افراد کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں کی۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کہیں اور کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔یہی مودی کی نگاہ میں چند بابو نائڈو اور نتش کمار کی اہمیت یا قدر رہ گئی ہے۔جہاں تک مودی کی ہٹھ دھرمی اور غرور کا سوال ہے تو یہ رویہ تو مودی جی خود آر ایس ایس کے ساتھ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ جب وزرا میں محکمہ کی تقسیم ہو رہی تھی تو سر سنگھ سنچالک شری موہن بھاگوت نے پہلے تو نریندر داس مودی کے وزارت عظمیٰ پر اعتراض جتایا۔موصوف کا کہنا تھا کہ چونکہ شیوراج سنگھ چوہان سابق وزیر اعلیٰ مدھیہ پردیش بہت زیادہ ووٹوںسے فاتح ہوئے ہیں پھر آپ ہی کی کد و کاوش اور آپ ہی کی شبیہ کے بل پر مدھیہ پردیش میں بی جے پی کل 29 نشستوں پر فتحیاب ہوئی ہے۔چنانچہ اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس 18ویں پارلیمانی انتخاب میں کل ہند پیمانے پر آپ ہی کی کارکردگی سب سے بہترین دہی ہے۔چنانچہ وزارت عظمیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو ہی ملنی چاہئے۔ دوسری جانب موہن بھاگوت امیت شاہ کو پھر سے وزارت داخلہ سونپنے کے سخت مخالف تھے۔انہیں یہ معلوم ہے کہ یہ گھوڑا اب بالکل بے لگام ہو چکا ہے۔ یہ کسی کی کچھ سنتا ہی نہیں ہے۔اس کی نگاہ میں تو آر ایس ایس کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں رہی۔شاید اسی کی ایما پر جے پی نڈا صدر بی جے پی نے باضابطہ بیان دیا تھا کہ اب ہماری پارٹی کو کسی بیساکھی کی ضرورت درپیش نہیں ہے۔۔اب ہماری پارٹی خود اس قدر مستحکم ہو چکی ہے کہ اپنے بل پر حکومت سازی کر سکتی ہے۔یہی ذہنیت اب بیشتر بی جے پی والوں کی ہو چکی ہے۔ جو چیزیں مشاہدے میں آرہی ہیں ان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہزاروں تنظیموں کی بانی بی جے پی اب خود اپنے وجود کی جنگ لڑی رہی ہے اور مودی و شاہ کے آگے خود کو بالکل بیبس محسوس کر رہی ہے۔ایسے میں مودی و شاہ کے بڑھتے قدم کو کون روکے۔اس وقت ہندوستانی معاشرے کے پیش نگاہ یہ ایک بہت بڑا ہی نہیں بلکہ تباہ کن مسئلہ ہے۔جس کا حل کسی صورت نظر نہیں آرہا ہے۔وہی آر ایس ایس ہے جو ان دونوں کی سرشاری کا سد باب کر سکتی ہے۔لیکن اب وہ خود ہی ناقدری و بے اعتنائی کا شکا ہو کر رہ گئی ہے۔ایسے میں نتش و نائڈو مودی کا کیا بگاڑ سکتے ہیں جب مودی کو لگام لگانے میں خود سر سنگھ سنچالک موہن بھاگوت ہی ناکام ہو چکے ہیں۔موہن بھاگوت کیا سارے آر ایس ایس کے عہدیداران اپنی قسمت کو کوستے ہوں گے کہ کس نامعقول گرہ نچھتر میں ہم لوگوں نے اس نریندر داس دامودر داس مودی کو وزیر اعظم بنا دیا تھا کہ آج اس نے خود آر ایس ایس کو بیوقعت کر کے رکھ دیا۔خود تو خود عنان ہوا ہی۔اپنے ساتھ پوری بی جے پی کو خود عنان بنا کر رکھ دیا۔۔سر سنگھ سنچالک موہن بھاگوت اپنے ایک پسندیدہ انسان گڈکری کو وزارت داخلہ دلانے میں ناکام رہے۔اس سے بڑی بیعزتی ان کی کیا ہوگی۔جہاں موہن بھاگوت جیسی طاقتور اور سناتنوں میں مقبول شخصیت کا حال زار یہ نظر آتا ہے۔وہاں نتش کمار اور چندر بابو نائڈو چلے تھے مودی سے اپنی شرطیں منوانے۔یہ تسلیم کہ فوری طور پر مودی کو نتش و نائڈو کی ضرورت درپیش تھی۔کیوںکہ حکومت سازی میں انہیں کچھ نشستوں کی ضرورت درپیش تھی۔چنانچہ متذکرہ بالا دونوں ہی حضرات مودی پر دبائو بنانے لگے۔جبکہ نتش کمار کو بہار میں خود مودی کی ضرورت درپیش ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید بیجا نہ ہوگا کہ مودی ہی کے رحم و کرم پر بہار کی نتش حکومت قائم ہے۔چنانچہ کم از کم نتش تو اس حالت میں نہیں ہیں کہ وہ مودی پر کوئی دبائو بنا سکیں۔سو مودی نے نتش کو ان کی حیثیت کے مطابق مرکزی حکومت میں ایک وزارت ” پنچایتی راج ” عطا کر دی۔بس اللہ اللہ خیر صلا۔پھر نتش کمار اپنا سا منہ لئے دلی دربار سے اپنی مڑئی میں واپس ہو گئے۔ان کا بہار کو خاص درجہ دلانے کا خواب بھی خواب ہی رہ گیا۔دوسری طرف ان کا ایوان زیریں کے اسپیکر کا خواب بھی خواب ہی رہ گیا۔یہ سب صرف اس لئے عمل پزیر ہوا کیونکہ اب نتش کمار پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔نتش کمار نے کس قدر اپنا اعتماد و اعتبار کھو دیا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ جہاں تک ایوان زیریں کے اسپیکر کا سوال ہے تو ایوان میں اس سے زیادہ طاقتور عہدہ کوئی نہیں ہے۔ہر بڑا فیصلہ اسپیکر ہی لیتا ہے اور اس کے فیصلے کو عدلیہ میں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔نتش کمار کو اسپیکر کا عہدہ نہیں ملنے کا سب سے بڑا سبب یہی ہے۔چلئے درج بالا معاملہ تو نتش کمار کا ہوا۔ان کے پاس تو اپنی مجبوریاں بھی ہیں جن کے باعث وہ مودی کے سامنے بلند آواز میں گفتگو کرنے سے بھی قاصر ہیں چنانچہ انہیں جو ہاتھ اٹھا کر مل گیا۔بس اسی پر صبر و قناعت کرنے کے سوا اور کوئی چارہئ کار ہے ہی نہیں۔لیکن چندر بابو نائڈو کے پاس تو کوئی ایسی مجبوری نہیں ہے۔پھر بھی وہ خاموشی کی ردا اوڑھنے کے لئے مجبور کیوں ہیں۔اتنا تو ضرور ہے کہ وہ نتش کمار سے کچھ بہتر حالت میں ہیں۔کیونکہ جہاں نتش کمار کو محض ایک کیبنیٹ وزارت ملی وہیں چندر بابو نائڈو کو دو وزارت ملی۔لیکن موصوف کے اسپیکر کا خواب بھی خواب ہی رہ گیا۔گرچہ اسپیکر کا انتخاب ہونے میں ابھی تاخیر ہے۔تاہم اسپیکر کے لئے ایک نام سیاسی گلیارے میں بہت ہی برق رفتاری سے گشت کر رہا ہے۔وہ نام نامی ہے شری متی پرنیشوری دیوی جو اندھر پردیس بی جے پی کی صدر اور چندر بابو نائڈو کی سالی بھی ہیں۔نیز کئی دفعہ کی فاتح بھی ہیں۔پرنیشوری دیوی کے نام کو اچھال کر مودی نے چندر بابو نائڈو کو رام کرنے کی سعی بلیغ فرمائی ہے۔لیکن چندر بابو نائڈو اتنے بڑے بیوقوف بھی نہیں ہیں کہ وہ حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے۔وہ جانتے ہیں کہ یہ بی جے پی میری پارٹی کو بھی توڑنے کی کوشش کر سکتی ہے۔کیونکہ وہ ایک ایک ایم ایل اے کو 100-100 کروڑ کا آفر دیتی ہے تو پھر ایک ایم پی کو خرید ے کے لئے کتنی بڑی رقم کا آفر دے سکتی ہے۔ بغیر کسی جوکھم کے اتنی بڑی رقم کوئی نادان ہی ٹھکرا سکتا ہے۔اب پارٹی کو دل بدل کے عذاب سے محفوظ رکھنے کا بس ایک ہی کارگر طریقہ ہے وہ یہ ہے کہ ایوان میں اسپیکر اپنا ہو۔اسی لئے چندر بابو نائڈو اسپیکر کے عہدے پر مصر ہیں۔لیکن مودی نے انہیں بھی خالی ہاتھ واپس کر دیا۔ستم در ستم تو یہ ہے کہ یہ دونوں نتش و نائڈو کے پاس راہ فرار بھی نہیں ہے۔مرکزی حکومت کو حمایت دینا اب ان دونوں لیڈران کی مجبوری ہو گئی ہے۔اگر زرا سی چوں چرا کیا تو ان دونوں کو ای ڈی،سی بی ائی،ائی بی اور انکم ٹیکس کا عذاب جھیلنا پڑ سکتا ہے اور جیل کی بھی سیر کرنی پڑ سکتی ہے۔جیسے ہی یہ لوگ جیل گئے ان کی پوری پارٹی توڑ دی جائے گی۔اس طرح دونوں ہی لیڈران کا سیاسی کیریر ختم۔ چنانچہ اپنے سیاسی کیریر اور پارٹی کے وجود کو بچانے کے لئے نتش و نائڈو کیا اقدام کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ایک امید جاگزیں ہوتی ہے کہ اس دفعہ مرکزی حکومت کو ایک مضبوط حزب اختلاف کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے قبل کی طرح حکمران طبقہ منمانی کرنے سے قاصر ہوگا۔کیونکہ اسے ہر قدم پر مخالفت کا اندیشہ لگا رہیگا۔یہ حکمران طبقہ آئی ڈی،سی بی آئی اور انکم ٹیکس وغیرہ کو بھی بیدریغ غلط ڈھنگ سے استعمال نہیں کر سکے گا۔کیونکہ اس دفعہ خود ان محکمہ جات کے افسران کو ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑیگا ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا