’فیصلہ واضح اور اَچھی استدلال کے ساتھ ہونا چاہیے‘

0
0

جج کیس کا فیصلہ کرتے وقت آرکیٹیکچرل ڈیزائنرز کی طرح ہوتے ہیں:چیف جسٹس
لازوال ڈیسک

سرینگر؍؍جموںوکشمیر جوڈیشل اکیڈیمی نے سول ججوں ( جونیئر ) کشمیر ڈویژن کے لئے ’’ حکم اور فیصلہ لکھنے ، قانون کا اطلاق ، بہترین طریقوں کا اشتراک اور اِنصاف کی فراہمی میں اُنہیں درپیش عملی مسائل کا حل تلاش کرنے ‘‘ کے موضوع پر ایک روزہ اِستفساری پروگرام کا اِنعقاد کیا۔اِس پروگرام کا اِفتتاح چیف جسٹس جموںوکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ اور سرپرست اعلیٰ جے اینڈ کے جوڈیشل اکیڈیمی جسٹس این کوٹیشور سنگھ نے کہا ۔ اِس کا مقصد سول ججوں کو خیالات کے تبادلے، تجربات کے تبادلے اور تکنیک سیکھنے کے لئے قانونی شعبے کے ماہرین کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔اِس پروگرام کے رجسٹرار ویجی لنس جموںوکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ یش پال بورنی ، ڈائریکٹر جے اینڈ کے جوڈیشل اکیڈیمی ایم کے شرما اور سپیشل جج انٹی کورپشن ( سی بی آئی کیسز ) سری نگر ریسورس پرسن تھے۔چیف جسٹس نے اِفتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ جج کا بنیادی فرض ہے کہ وہ فیصلہ لکھے جو مدعی کے لئے قابل فہم ہو نہ کہ اعلیٰ عدالتوں کے لئے ۔ اِس مدعی پر تمام توجہ مرکوز ہونی چاہیے جو اِنصاف کے لئے آیا ہے ۔اُنہوں نے مزید کہا کہ فیصلہ واضح اور اَچھی استدلال کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ اُنہوں نے کہا کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لئے ذہن کا استعمال ضروری ہے کیوں کہ ہم اِنسانی تکالیف سے نمٹ رہے ہیں ۔ اُنہوں نے زور دے کر کہا کہ اَچھے فیصلے کے لئے کیس کے حقائق کو درست طریقے سے جانچا جانا چاہیے اور قانونی چارہ جوئی کے دعوئے کو قبول یا مسترد کرنے کے لئے واضح وجوہات سے قانون کا اطلاق ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کا فیصلہ کرتے وقت جج آرکیٹیکچرل ڈیزائنرز کی طرح ہوتے ہیں۔ اگرچہ فوجداری مقدمات میں چارج شیٹ فیصلے کی بنیادہوتی ہے لیکن کیس کا فیصلہ کرتے وقت کیس کے حقائق کا خیال رکھا جانا چاہیے۔چیئرپرسن جے اینڈ کے جوڈیشل اکیڈیمی جسٹس سندھو شرما نے اَپنے خصوصی خطاب میں یونانی فلاسفر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جج کی خوبیاں شائستگی سے سننا ، سمجھداری سے جواب دینا، سوچ سمجھ کر اور غیر جانبداری سے فیصلہ کرنا ہیں۔اُنہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ کیس کا فیصلہ کرتے وقت اور فیصلہ لکھتے وقت جج کو فریقین کے دلائل اور دعوئوں پر غور کرنا چاہیے ۔ مزید حوالہ دیتے ہوئے جسٹس ایچ کے سپریم کورٹ آف اِنڈیا کی سابق جج سیما نے کہا کہ جب وجوہات کے ساتھ فیصلہ دیا جائے تو بہترین ہوتا ہے ۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ ایک مدعی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مقدمہ اس کے حق میں یا خلاف کیوں ہے جو فیصلے سے سامنے آنا چاہیے۔ بنیادی عوامل جن پر غور کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ فیصلہ کرتے وقت دیانت داری کو برقرار رکھا جائے اور اس پر کسی دوسرے معاملے سے بھی متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں فیصلہ لکھتے وقت حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ یہ قانون کی فراہمی اس پہلو پر مبنی ہونا چاہیے جس پر ہم کر رہے ہیں اور فیصلہ کیسے لکھنے جا رہے ہیں۔ممبر جموں وکشمیر جوڈیشل اکیڈیمی جسٹس جاوید اقبال وانی نے اَپنے خطاب میں بریندر کمار گوش کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ٹرائل جج نے ایک مشہور انگریز شاعر جان ملٹن کے سانیٹ’’ آنہز بلائنڈنس‘‘ سے نقل کیاہے یعنی’’ وہ بھی خدمت کرتے ہیں جو صرف کھڑے ہیں اور اِنتظار کرتے ہیں‘‘ایک ڈکیٹی اور قتل کیس میں بریندر کمار گوش کی بے گناہی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ دروازے پر محافظ تھے تب بھی آپ کوئی کارروائی نہ کرنے کے جرم کے مجرم تھے۔جسٹس وانی نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک اور حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئینز لینڈ کی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس روزلین اٹکنسن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو بھی فیصلہ لکھا جاتا ہے اس کے مقاصد ہوتے ہیں۔ڈائریکٹر جے اینڈ کے جوڈیشل اکیڈمی ایم کے شرما نے اپنے استقبالیہ خطاب میں اس پروگرام کے انعقاد کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے اور احکامات لکھنا عملی طور پر ایک فن ہے اور یہ اکثر جج سے جج تک مختلف ہوتا ہے کیونکہ قانون میں کوئی فارمیٹ یا فارمیٹ فراہم نہیں کیا گیا ہے کہ ججوںکو فیصلے اور احکامات کیسے لکھے جائیں۔دن بھر کے انٹرایکٹو پروگرام کو دو تکنیکی سیشنز اور فیڈ بیک کے لیے ایک اِستفساری سیشن میں تقسیم کیا گیا تھا۔پہلے تکنیکی سیشن کی صدارت رجسٹرار ویجی لنس یش پال بورنی، اور ڈائریکٹر، جے اینڈ کے جوڈیشل اکیڈمی ایم کے شرمانے کی ۔دوسرے تکنیکی سیشن کی صدارت سپپشل جج انٹی کورپشن( سی بی آئی کیسز )جتندر سنگھ جموال نے کی ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا