فلسطینی جیالوں نے دجالی طاقتوں کا غرور خاک میں ملادیا ۔۔۔۔۔۔!

0
0

احساس نایاب شیموگہ کرناٹک

اپنی گود میں پالے ہیں پیغمبر اس نے
مومن پر واجب ہے اقصی کا تحفظ کرنا ۔۔۔۔۔
پیغمبروں کی سرزمین فلسطین اور اس کی مقدس آغوش میں پرورش پانے والے مجاہدین اسلام کو ہزاروں سلام
سلام اُن ماؤں کو جنہونے ایسے جیالوں کو جنم دیا ، سلام ہے فلسطین کی اُن بہنوں، بچوں اور بزرگوں کی جراءت اُن کے جذبہ ایمانی پر ، سلام ہے اُن کے حوصلہ و استقامت پر جنہونے ہرحال میں طاغوتی طاقتوں کے آگے جھُکنے سے انکار کیا ۔۔۔۔۔۔

اور الحمدللہ آج فلسطینی جیالوں کے قافلے شہادت کی تمنا لئے سوپر پاور کہلانے والی دجالی طاقتوں پر حملہ کرچکی ہیں
آج حماس کی جنگ عالم اسلام کی جنگ ہے ، اسلامی غیرت و حمیت کی جنگ ہے ۔۔۔۔۔۔
اور آج خود کو مسلمان کہنے والا ہر شخص اس جنگ سے صاف طور پہ جُڑا ہے کیونکہ
نبیوں کی اس مقدس سرزمین فلسطین پر ستر سالوں سے بریٹین اور امریکہ کی ناجائز اولاد، دجالی پیروکار ، دنیا کی رذیل قوم اسرائیل کا قبضہ ہے ۔۔۔۔۔۔

اسرائیل کے خلاف فلسطین کی یہ جنگ آج سے نہیں بلکہ سترسالوں سے جاری ہے اور فلسطینی بچوں سے لے کر نوجوان مرد و خواتین حتی کے بزرگ بھی اس جنگ میں مجاہدین کا کردار ادا کررہے ہیں اور اب تک ہزاروں مسلمان شہید ہوچکے ہیں
اور اس بار حماس کے جیالوں کی جانب سے آمنے سامنے کی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے ۔۔۔
کہا جارہا ہے کہ یہ فلسطین کی بقا کی آخری جنگ ہوگی
جنگ کے تعلق سے مزید بات کریں اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم فلسطین کی تاریخ جانیں
کیونکہ تاریخ سے ناواقف گودی میڈیا اور خود بھارت کے نااہل فرقہ پرست پرائم منسٹر مودی فلسطینی حریت پسندوں کو دہشتگرد کہہ کر دنیا کی بدترین قوم کو مظلوم بتانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔۔۔ اور فلسطینی سپوتوں کو بدنام کرنے کے خاطر حماس کو دہشتگرد بتاکر ان کے تعلق سے سوشیل میڈیا پر جھوٹی و فیک خبروں کا جیسے سیلاب اُمڈ چکا ہے ۔۔۔۔۔۔

فلسطین کو تاریخ میں یہ مقام حاصل ہے کہ دنیا کی تاریخ میں آباد ہونے والا سب سے پہلا شہر جو آج Ariha کے نام سے معروف ہے۔۔۔۔
یہ شہر آٹھ ہزار قبل مسیح میں آباد ہوا ۔۔۔۔
یہود جو کتاب الہی میں تحریف کے مجرم ہیں تاریخ میں تحریف ان کے لئے مشکل نہیں چناچہ وہ فلسطین میں اپنے غاضبانہ تسلط کو جائز قرار دینے کے لئے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ سرزمین فلسطین پر تاریخ انسانیت میں سب سے پہلے آباد ہوئے ۔۔۔۔۔
حالانکہ ان کا یہ دعوی آثار و تاریخی ثبوتوں سے غلط ثابت ہوتا ہے
کیونکہ آسمانی کتاب توریت میں فلسطین کو ارض کنعان کہا گیا ہے
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کنعانی قبیلے یہیں آباد ہوئے اور یہ لوگ عرب تھے اور جزیرے عرب سے ہجرت کرکے یہاں پہنچے تھے ویسے تو اُس وقت یہ لوگ بت پرست تھے لیکن ان سے یہ حقیقیت تو واضح ہوتی ہے کہ یہودیوں کا دعوی غلط ہے ۔۔۔۔۔۔

کیونکہ یہ عرب لوگ یہاں یہودیوں کے پہنچنے سے بارہ سو سال پہلے پہنچ چکے تھے اور کنانیوں نے فلسطین میں دو سو شہروں کو آباد بھی کیا
اسی طرح کنانی قبیلے کی ایک شاخ فانیقی قبیلہ بھی یہاں پہنچا اور اُس کے بعد عارمی قبیلہ بھی فلسطین پہنچا یہ بھی عربی قبیلہ ہے
اسی طرح مختلف مقامات سے ہجرت کرتے ہوئے مختلف قبیلے فلسطین پہنچے جو کہ سارے عرب تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت یعقوب علیہ السلام
حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت یحیی علیہ السلام, حضرت موسی علیہ السلام, حضرت عیسی علیہ السلام اور بہت سے دوسرے پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے
اسی مناسبت سے یہ خطہ زمین پیغمبروں کی پاک مقدس سرزمین کہلاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اس کی حفاظت دنیا کے ہر مسلمان پہ لازم ہے ۔۔۔۔۔
بہرحال
ان علاقون مین عبرانی قومیت کے لوگوں کی آمد کے نشان ولادت مسیح سے لگ بھگ گیارہ سو سال پہلے ملتا ہے
حضرت شمویل علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے بنی اسرائیل کے پہلے بادشاہ تھے انہونے کافی عرصہ حکومت کی اور جب آپ بوڑھے ہوگئے تو انہونے اللہ سبحان تعالی کے حکم سے حضرت طالوت علیہ السلام کو بادشاہ مقرر کیا ۔۔۔۔۔۔
اس واقعہ کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے ۔۔۔۔۔۔ اسی سرزمین پر
حضرات داؤد علیہ السلام نے تیتیس سال حکمرانی کی اُن کے بعد اُن کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے نو سو پینسٹھ قبل مسیح میں حکومت سنبھالی جو انتالیس سال تک قائم رہی ۔۔۔۔۔
پانچ سو اٹھانوے قبل مسیح میں بابل کا ظالم بادشاہ بخت نصر نے حملہ کرکے یوروشلم سمیت تمام علاقوں کو فتح کرلیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی، اور بادشاہ سمیت ہزاروں شہریوں کو گرفتار کرکے بابل میں قید کردیا ۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل کو فتح کیا اور قیدیوں کو آزاد کرکے لوٹا ہوا مال واپس یوروشلم بھیج دیا ۔۔۔۔۔۔
تین سو بتیس قبل مسیح میں یوروشلم پر سکندر آعظم نے قبضہ کرلیا
ایک سو اڑسٹھ قبل مسیح میں یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل میں آیا لیکن اگلے صدی کے روما کی سلطنت نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔۔۔۔۔۔
ایک سو پینتیس قبل مسیح اور ستر قبل مسیح میں یہودی بغاوتوں کو کچل دیا گیا اور اُسی زمانہ میں اُس خطہ کا نام فلسطین پڑگیا پھر
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں فلسطین اسلامی سلطنت میں داخل ہوا اور اسلامی سلطنت کا ایک صوبہ ہوگیا اُس کے بعد سے ہمیشہ فلسطین پر مسلمانوں کی حکومت رہی ایک ہزار پچانوے عیسوی سے بارہ سو ایکانوے ایسوی تک عرض فلسطین بالخصوص بیت المقدس پر عیسائی قبضہ بحال کرنے کے لئے یورپ کے عیسائیوں نے کئی جنگیں لڑیں، یہ جنگیں فلسطین اور شام کی حدود میں صلیب کے نام پہ لڑی گئی ۔۔۔۔۔
صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا اور اس دوران مزید نو بڑی جنگیں لڑی گئیں جس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے ۔۔۔۔

دولت عباسیہ کے خاتمہ کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی سلجوقی سلطنت کے زوال کے بعد امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا اغاز ہوا اُس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عیسائیوں کے دلوں میں بیت المقدس پر قبضہ کرنے کا خیال پیدا ہوا اور اُس کے خاطر اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کی تھیں، جو کم و بیش دو سو سال تک مسلمانوں پر مسلط رہی اُن جنگوں میں تنگ نظری، تعصب بداخلاقی و سفاکیت کا جو مظاہرہ کیا وہ عیسائیوں کی تاریخ میں آج بھی بدنما داغ ہے ۔۔۔۔۔۔
انہیں جنگوں کے نیتجے میں بیت المقدس پر طاغوتی طاقتوں نے قبضہ کرلیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اللہ کو شاید یہ منظور نہیں تھا اللہ سبحان تعالی نے بیت المقدس کی فتح کے لئے سلطان صلاحدین ایوبی جیسے عظیم جانباز کو سن گیارہ سو اڑتیس ایسوی میں پیدا کردیا جو شروع میں نوروالدین زنگی کے فوجی افسر کی حیثیت سے متعارف ہوئے لیکن نورالدین زندگی کے انتقال کے بعد مسلمانوں کے عظیم حاکم بنے اور اپنی بہادری فیاضی اور حسن سلوک سخاوت کے باعث مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں میں بھی مقبول ہوئے۔۔۔۔
آپ کی بڑی خواہش تھی کہ بیت المقدس کو فتح کیا جائے یہ وہ دور تھا جس میں عیسائی طاقتیں مسلمانوں کو نست و نابود کرنے کے در پہ تھیں ۔۔۔۔
صلاحدین ایوبی نے عیسائیوں کے ناپاک عزائم کو ناکام کیا اور ان کی روک تھام کے لئے ان کا پیچھا کیا اور فورا عیسائی کماندر رینالڈ کا پیچھا کرتے ہوئے مقام ہتین میں اُسے پالیا۔۔۔۔
سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ دلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی چناچہ اُس آتشی ماحول میں ہتین کے مقام پر تاریخ کی خوفناک ترین جنگ کا آغاز ہوا ۔۔۔۔۔۔
سن گیارہ سو ستاسسی عیسوی کی اُس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی گرفتار کرلئے گئے
رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھوں اُس کا سرقلم کردیا اُس جنگ کے بعد اسلامی افواج عیسائی علاقوں پر چھاگئی اُس کے بعد صلاحدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے لئے اُس کی طرف رخ کیا ۔۔۔۔
ایک ہفتے تک خون ریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دئے اور رحم کی درخواست کی بالاآخر پورے ایکانوے سال بعد گیارہ سو ستاسسی عیسوی میں بیت المقدس دوبارہ سے مسلمانوں کے قبضے میں آگیا اور تمام فلسطین سے مسیح حکومت کا مکمل خاتمہ ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ گواہ ہے اُس وقت صلاحدین ایوبی نے اعلی اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کیا اور دشمن سے انتقام لینے کے بجائے انہیں معاف کردیا ۔۔۔۔۔۔۔
پھر سلطان صلاحدین ایوبی عظیم فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس مین داخل ہوئے انہونے فدیہ لے کر عیساییوں کو امان دیا اور جو غریب عیسائی فدیہ نہیں دے سکتے تھے ان کے بھائی ملک عادل نے ان کی جانب سے فدیہ ادا کرکے انہیں امان دیا
اُس کے بعد مسلسل سات سو ایکسٹھ سال مسلمانوں کی حکومت رہی۔۔۔۔
لیکن خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد انیس سو سترہ عیسوی مین برطانیہ نے اُس پر قبضہ کرلیا۔۔۔
جب کے ستروین صدی میں نازی جرمنی کے یہودیوں پر مظالم کی وجہ سے فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی شروع ہوچکی تھی اور بعد میں اُس میں مزید اضافہ ہوا ۔۔۔
سن اٹھارہ سو چھیانوے عیسوی میں ایک یہودی صحافی نے ایک کتاب لکھی جس میں اُس نے یہودیوں کے لئے ایک مستقل ریاست کی تشکیل کی دعوت دی اور اُس کے لئے اُس نے دو مقام فلسطین یا ارجنٹینا کی جانب اشارہ کیا کہ اُن دونوں میں سے کسی ایک کو یہودی ریاست بناکر یہودی یہاں پر جمع ہوجائیں ۔۔۔۔
پھر کیا تھا اُس مقصد کی تکمیل کے لئے یہودیوں کی کانفرینسس ہوئیں اور فنڈس جمع کئے گئے اور عملا فلسطین کو یہودی ریاست بنانے کی خاطر اُس کی جانب بڑے پیمانے پر یہودیوں نے ہجرت شروع کردی
اور سن انویس سو عیسوی میں فلسطین میں یہودیوں کی آبادی پانچ فیصد ہوگئی۔۔۔۔
جبکہ مسلمان چھیاسی فیصد تھے اور مسیحوں کی تعداد چودہ فیصد تھی ۔۔۔
یہودیوں کی بڑی تعداد کی نقل مکانی کی وجہ سے عربوں میں غصے کی لہر دوڑ پڑی اور سن انیس سو بیس ، اکیس ، انتیس اور چھتیس ایسوی مین عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اس علاقے میں آمد کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہ سلسلہ جاری رہا ۔۔۔۔۔
یہودیوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی کے باوجود انیس سو تیئیس عیسوی تک فلسطین کی زمین میں سے صرف تین فیصد زمین پر ہی یہودیوں کی ملکیت تھی اور ستانوے فیصد زمین پر عرب باشندگان کی ملکیت تھی
وہیں دوسری طرف برطانیہ کو اس بات کا شدید خوف محسوس ہوا کہ نازی کے ہاتھوں ستائی سرکش قوم یہودی بڑی تعداد میں برطانیہ کا رُخ نہ کرلیں اور پھر ان کی شرارت کی وجہ سے برطانیہ کی مسیح عوام کی زندگیاں اجیرن نہ ہوجائیں ۔۔۔۔
چنانچہ برطانیہ نے فلسطین کو یہودی ریاست کے قیام کا منصوبہ پیش کیا اور اُس کے لئے ہر ممکن مدد دینے کا یقین دلایا
پھر اس کے بعد اسرائیل کا قیام عمل میں آیا ۔۔۔۔۔
سن انیس سو سینتالیس عیسوی میں اقوامی متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک معاہدے کے تحت فلسطین کو تقسیم کرکے ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا
اور برطانیہ نے اُس علاقے سے اپنی افواج کو واپس بلالیا اور چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کو ناجائز اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کردیا گیا
اقوام متحدہ نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان ظالمانہ انداز میں تقسیم کیا کہ اصل مالک اور قدیم باشندگان کو فلسطین کا پینتالیس فیصد حصہ دیا گیا جبکہ جرمنی سے نقل مکانی کرکے فلسطین پہنچے یہودیوں کو پچپن فیصد حصہ دیا گیا۔۔۔۔
جبکہ اُس وقت فلسطین میں صرف ایکتیس فیصد یہود تھے اور وہ بھی صرف سات فیصد زمین کے مالک تھے
اُس ناانصافی کے بعد کشمکش کا سلسلہ جاری رہا ۔۔۔۔۔۔
اور ہر کشمکش کا انجام یہ نکلا کہ یہود نے مزید علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی ناجائز ریاست میں انہیں شامل کرنا شروع کردیا اس دوران برطانیہ فوج کے ذریعہ عرب باشندگان پر خوفناک مظالم ڈھائے گئے ۔۔۔۔۔
اسرائیلی ریاست کے قیام کے فورا بعد سن انیس سو اڑتالیس عیسوی میں جب برطانیہ نے اپنی فوج کو واپس بلالیا تو یہودیوں اور فلسطنیوں کے درمیان بڑی جنگ شروع ہوگئی جس کے نتیجہ میں یہود نے فلسطین کے اٹھہتر فیصد حصہ پر جبرا قبضہ کرلیا
پھر انیس سو اڑتالیس عیسوی ہی میں اسرائیل نے اچانک حملہ کرکے بیت المقدس کے آدھے مغربی حصہ پر بھی قبضہ کرلیا جبکہ بقیہ آدھا حصہ جس میں مسجد اقصی کا حصہ بھی تھا اردن کے قبضے میں رہا اسی طرح مغربی کنارے پر بھی اردن کا قبضہ رہا اور غرہ پر مصر کی حکومت رہی لیکن چند ہی سالوں بعد انیس سو سڑسٹھ عیسوی میں اسرائیل نے پڑوسی ممالک پر حملہ کرکے ان علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا جسے اقوامی متحدہ نے غیرقانی قرار دیا اس لئے ان علاقوں کو مقبوضہ اراضی کہا گیا ۔۔۔۔۔۔
اقوامی متحدہ کی جانب سے اُن علاقوں کو غیرقانونی کہے جانے کے باوجود اسرائیل نے ان علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا اور اسرائیل کی دعوت پر مزید یہودی ہجرت کرکے یہاں پہنچ کر بچے کُچے عربوں کی ملکیت پر بھی قبضہ جماتے رہے ۔۔۔۔۔
ان تمام واقعات سے سرکش اسرائیل کے حوصلہ دن بہ دن اس قدر بڑھ گئے تھے کہ گزشتہ
دوسال قبل اسرائیل نے غزہ پر بھی بمباری کردی اور یہاں کے بےقسور مسلمانوں جن میں بیمار بزرگ، عورتیں اور بڑی تعدد میں بچوں کو شہید کرکے مسلمانوں کی نسل کشی کی ۔۔۔۔۔۔
غزہ بھی دوہزار پانچ تک اسرائیل کے ناجائز قبضہ میں تھا لیکن دوہزار پانچ میں حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کے دباؤ میں آکر اسرائیل نے غزہ پر سے اپنا قبضہ ہٹالیا اور اپنی کالونیوں کو برخواست کرکے فلسطنیوں کے حوالے کیا گیا لیکن دوبارہ وہاں بڑے پیمانے پر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا اور وہان کے بےقسور مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور عمارتوں سے آباد علاقوں پر بمباری کرکے انہیں کھنڈرات بنادیا گیا ۔۔۔۔ اور اُس وقت امن کی دہائیاں دینے والے حقوق انسانیت کے جھوٹے علمبرداروں نے منہ میں دہی جمائے فلسطینیوں پر مظالم ہوتے دیکھ کر مزے لیتے رہے ۔۔۔۔۔۔
دراصل مسجد اقصی کے حوالے سے اسرائیل کی نیئت ہمیشہ سے خطرناک رہی ہے
اسرائیل مسجد اقصی کو شہید کرکے اُس مقام پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہودیوں کا دعوی ہے کہ یہ مسجد ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ ہے اور مسجد اقصی کی مغربی دیوار ہیکل سلیمانی کی باقیات میں سے ہے جہاں دوہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے ، اسی لئے اُسے دیوارے گریہ کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔
حالانکہ یہ دعوی سراسر غلط ہے اور یہودی کبھی بھی بذریعہ دلیل یہ ثابت نہیں کرپائے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا لیکن وہ اُس کی تعمیر کے در پہ ہیں اور اسی یہودی منصوبہ کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے دنیا بھر کی دجالی قوتین ایکجا ہورہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے
مسجد اقصی کو مسمار کرنے کے لئے انیس اگست انیس سو انہتر عیسوی کو ایک آسٹریل یہودی نے قبلہ اول کو آگ لگادی تھی جس سے مسجد اقصی تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوبی مشرق کی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا
محراب میں موجود ممبر بھی نزر آتش ہوگیا جسے صلاحدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا یہ وہ ممبر تھا جس سے سلطان صلاحدین ایوبی قبلہ اول کی آزادی کے لئے لڑنے والی جنگوں میں ساتھ رکھتے تھے تاکہ فتح ہونے کے بعد اُس کو مسجد میں نصب کریں
چنانچہ فتح کے بعد اُسے نصب کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر فی الحال حماس کے جیالون کا اسرائیل پر حملہ دراصل دجالی طاقتوں پر حملہ ہے یہی وجہ ہے کہ حماس کے خلاف دشمنان اسلام ایک ساتھ چیخ اٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
اور بار بار حماس کو دہشتگرد تنظیم کہا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ اسرائیل پر حملہ کرنے والی فلسطینی مذمت تحریک حماس فلسطین ہی کا حصہ ہے ، یہ تنظیم
1987 میں مغربی کنارے اور غزا کی پٹی پر اسرائیلی قبضہ کے خلاف شروع ہونے والی فلسطینی مذمتی آغاز کے بعد قائم ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
حماس کے دو بنیادی گروہ ہیں پہلا گروہ فلاحی و معاشرتی امور کی تعمیر کا حامی ہے جبکہ دوسرا اسرائیل کے خلاف مذمت کرنے والا ہے۔۔۔۔۔۔
حماس کے منسشور کے مطابق یہ گروہ اسرائیل کی تباہی کے لئے پرعزم ہے وقت کے ساتھ ساتھ حماس کے عسکری ونگ کی طاقت بڑھتی رہی اور سن 2005 کے بعد حماس نے فلسطینی سیاسی عمل مین شمولیت اختیار کرنا شروع کردی
میڈیا رپورٹ کے مطابق حماس فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی قومیت بنیاد پرست جماعت ہے
2006 میں حماس نے فلسطین کے قانون ساز انتخابات میں کامیاب ہوکر 2007 میں اُس وقت کے صدر محمود عباس کی فتح تحریک پر سبقت لیتے ہوئے غزہ پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ مضبوط کیا
حماس کے خلاف متعدد اسرائیلی آپریشن کے باوجود یہ تنظیم قائم رہی ۔۔۔۔۔۔۔
اور حماس کے ان فلسطینی جیالون نے عالم اسلام کے آگے ہر بار یہی پیغام دیا ہے
جہان عزت کی زندگی میسر نہ ہو
وہاں باطل قوتون کے آگے اپنے حق کے خاطر ایسی شہادت کا انتخاب کیا جائے جسے دیکھ کر ارض و سما بھی رشک کرے ۔۔۔۔۔۔۔
آج اگر اسرائیل پر فلسطینی حماس کا حملہ غلط ہے ، آج اگر حماس کے جانباز مجاہدین دہشتگرد ہیں تو ہندوستانی تاریخ میں ہندوستان کی آزادی کے خاطر انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین آزادی بھی غلط ہیں اور کیا وہ بھی دہشتگرد کہلائے جائیں گے ؟؟؟
لیکن کیا کیا جائے گاندھی کے قاتل دہشتگرد گوڈسے کی ناپاک بزدل اولادوں کو نہ ہندوستانی تاریخ پتہ ہے نہ ہی عالم اسلام کی تاریخ سے ان کی واقفیت ہے
یہی وجہ ہے کہ آج مجاہدین اسلام کو ُمسلمانوں کے قاتل سنگھی دہشتگرد خود دہشتگرد کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
یہان افسوس آستین میں پلنے والے اُن سانپوں کے لئے بھی ہے جنہونے اپنے باپ کی ملکیت میں سے باپ کی اولادوں یعنی اپنے بھائی بہنوں کو زمین کا ایک انچ تکڑا بھی دینا گوارہ نہیں سمجھتے، آج وہ بھی فلسطین اسرائیل معاملہ پر مصلحت کی بات کرتے ہوئے اسرائیل کے حق میں کھڑے امن کے علمبردار بن رہے ہیں اور اسلام کے خاطر شہید ہونے والوں پر دہشتگردی کا الزام لگارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
افسوس امن کے چوزے مجاہدین اسلام کا یہ پیغام بھول چکے ہیں ۔۔۔۔
جہان عزت کی زندگی میسر نہ ہو وہان شہادت کا انتخاب ضروری ہے ۔۔۔۔۔
یاد رہے یہودی قوم اللہ کی طرف سے دھتکاری ہوئی بدترین قوم ہے اس قوم نے نبیوں کے ساتھ جس طرح کے ظلم کئے وہ انسانیت کی تاریخ میں شرمناک ہیں
اس قوم کو خوبصورتی سے لے کر دولت، شہرت ،چالاکی دنیاوی ہر نعمت سے نوازہ گیا باوجود یہ قوم اللہ کی نافرمان سرکش قوم رہی اور رہتی دنیا تک یہ سرکشی سے باز نہیں آئے گی یہی وجہ ہے کہ جرمنی سے لے کر برطانیہ تک اس کے لئے زمین تنگ کردی گئی ، اور جرمنی مین دور ہٹلر ان یہودیوں کے ساتھ تاریخ کا خوفناک ظلم کیا گیا ان کی نسل کشی کی گئی ۔۔۔۔۔۔۔
آج امریکہ و برطانیہ جس قوم کے حمایتی ہمدرد بننے کا ڈرامہ کررہے ہیں دراصل اُس یہودی قوم پر بربریت کرنے والے خود عیسائی ہیں ۔۔۔۔۔۔
وہیں عیسائیوں کے ہاتھوں ستائے جانے کے بعد پریشان بےسہارا، بےیارومددگار یہودیوں نے جب جب مسلمانوں کی طرف مدد کی امید سے دیکھا مسلمانوں نے ہر بار ان کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں عزت کی زندگی دی، انہین سہارا دیا
لیکن ہر بار یہ قوم اسلام اور مسلمانوں کی بدترین دشمن ثابت ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔
اور ان یہودیوں نے نبیوں کی مقدس سرزمین کو بےقسور مسلمانوں کے خون سے رنگا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب وقت آچکا ہے نبیوں کی سرزمین کو دجالی مکر و فریب سے آزاد کروایا جائے ۔۔۔۔۔
جس کے لئے اللہ سبحان تعالی نے حماس کو اس دور کے ابابیل کی صورت بھیجا ہے اور حماس کا جانباز لشکر ابابیل کی طرح فضاؤں میں گرجتا ہوا نظر آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اور ان شاءاللہ اسلام کہ یہ غیور جانباز دشمنان اسلام پر کہر بن کر توٹیں گے اور سترسالوں سے طاغوتی طاقتون کی جانب سے بچھایا گیا دجالی جال ایک بار پھر نست و نابود کیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔
میدان جنگ میں ایک ہاتھ میں فلسطینی جھنڈا اور دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھائے یہ جانباز اللہ سبحان تعالی کی وحدانیت کی گواہی دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اور عالم اسلام کو کامیابی کی طرف بلارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
بیشک حماس کے مجاہدین نے سوپر پاور کہلانے والی دجالی فوجوں کا غرور خاک میں ملاتے ہوئے دشمنان اسلام کے آگے یہ ثابت کردیا ہے کہ
کائنات میں اگر کوئی سوپر پاور ہے تو وہ بیشک ایک ہی طاقت ہے اور وہ ہے ہم سب کا خدا ۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ کل تک اسرائیلی ٹیکنالوجی و ایٹمی سسٹم کو لے کر کس قدر جھوٹ و دہشت پھیلائی گئی تھی کہ بغیر اجازت اسرائیلی سرحد پر پرندہ بھی پنکھ نہیں مار سکتا ،،،،، لیکن آج فضاؤں سے کہر بن کر گرتے حماس کے لشکر کو ساری دنیا نے دیکھا ہے ۔۔۔۔۔۔

خیر یہاں پر سوشیل میڈیا ان مجاہدین کو بدنام کرنے کے خاطر جھوٹی فیک خبریں پھیلارہا ہے تاکہ عوام ان مجاہدین سے بدظن ہوجائیں ۔۔۔۔۔ اور دشمن ایک بار پھر اپنے گندے ارادوں میں کامیاب ہوجائے ۔۔۔۔۔
انہیں خبروں میں ایک شرمناک خبر اسرائیلی چالیس بچوں کے قتل کی خبر ہے جو کہ سراسر غلط ہے، اس کے علاوہ کئی قسم کی فیک ویڈیوز وائرل کی جارہی ہیں ، جبکہ سننے میں یہ آرہا ہے کہ ان ویڈیوز کے پیچھے دجالی پیروکار ہیں اور خود اسرائیلی فوج اس طرح کی افواہ پھیلارہی ہے ۔۔۔۔۔۔
جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حماس کے غیور جانباز جنگ کے دوران ڈرے سہمے اسرائیلی بچوں و خواتین کو تحفظ دے رہے ہیں انہیں ریسکیو کرتے ہوئے محفوظ مقامات تک پہنچارہے ۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال دنیا کے اکثر مذاہب میں یہی ماننا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے لیکن مذہب اسلام واحد وہ دین ہے جس میں جنگ کے بھی اصول و ضوابط بتائے کئے گئے ۔۔۔۔۔۔۔
اور الحمدللہ حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف کی جارہی کاروائیوں میں کہیں پر بھی غیراسلامی عمل نظر نہیں آرہا ہے۔۔۔۔۔
باقی بےبنیاد الزامات لگاکر بدنام کرنے والوں کے لئے صرف مسلمان ہونا ہی کافی ہے ۔۔۔۔۔۔ ایسے میں
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اُسے جو لشکر باطل کے ساتھ کھڑا ہے
اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی
ظالم کی کوئی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم
ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے
پھلتی نہیں ہے شاخ ستم اس زمین پر
تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے
کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے
جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے گی صبح امن لہو رنگ ہی سہی ۔۔۔۔۔۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا