غزہ میں رمضان میں تو حالت بدل جائے

0
149

محمد اعظم شاہد

اسرائیلی بربریت کے باعث غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں کے حالات قیامت خیز رہے ہیں۔ہر طرح سے پانچ مہینوں سے جاری بمباری اور زمینی حملوں سے مظلوم فلسطینیوں کا دائرۂ حیات تنگ کیا جاتا رہا ہے ۔ اپنا سب کچھ لٹا کر غزہ کے باشندے بے کس وبے بس ہوکر رہ گئے ہیں ۔ چوبیس لاکھ کی آبادی والے غزہ میں اسی فیصد باشندے اپنے کھنڈر بنے مکانات سے دور نقل مکانی کے مسائل سے روبرو ہیں ۔ حماس کی وزارت صحت کی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی غیر انسانی تشدد اورحملوں میں تادم تحریر شہید ہونے والوں کی تعداد تیس ہزار سے تجاوز کرگئی ہے ۔ہر روز تقریباً ایک سوفلسطینی اسرائیلی دہشت گردی کا شکار ہوکر جاں بحق ہورہے ہیں۔ 72 ہزار کے آس پاس زخمی افراد جن میں خواتین، بچے اوربوڑھوں کی تعداد زیادہ بتائی جارہی ہے ۔ اپنے علاج کے لیے کئی آزمائشوں سے گزررہے ہیں ۔ روز مرہ ضروریات زندگی کے لیے ضروری اشیاء کی قلت نے قحط اور فاقہ کشی کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ پینے کا صاف پانی اور غذا کی قلت تشویش ناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے ۔پانی اور غذاکے لیے پناہ گزیں کیمپوں میں بسے ستم زدہ لوگ لمبی قطاروں میں دیکھے جارہے ہیں ۔ فاقہ کشی سے بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے ۔اسرائیل نے ضروری اشیاء جو دیگر ممالک سے غزہ پہنچائی جارہی ہے ، اس پر پابندی بنائے ہوئے ہے ۔رسد سے لیس سینکڑوں ٹرک رفح سرحد پر غزہ میں داخلے کے منتظر ہیں ۔ بہرحال قلت اور قحط کی صورتحال پیدا کرنے میں اسرائیل کے جنگی منصوبے دن بدن سنگین ہوتے جارہے ہیں۔بے سروسامانی میں غزہ کے باشندوں کی درگت امن عالم کی بڑی بڑی باتیں کرنے والے طاقتور ممالک کے دوغلے معیار کا کھلا ثبوت ہے ۔ ایک طرف اسرائیل کی حمایت کرتے امریکہ نے اسلحہ ،فوجی اور مالی امداد میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، حماس کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکہ نے اسرائیل کو اس دور کا سب سے بڑا دہشت گرد بناکے رکھ دیا ہے اور اب عالمی سطح پر جنگ بندی کے لیے جو ثالثی اقدامات ہورہے ہیں ان میں امریکہ بھی شامل ہے اور نمایاں کردار نبھانے کا سوانگ بھی بھررہا ہے ۔ غزہ میں ظلم وستم کی وحشیانہ صورتحال کے لیے اسرائیل کی حمایت ہر طرح سے کرنے کے بعد امریکہ اپنے فوجی ہیلی کاپٹرس سے کھانے پینے کی اشیاء بڑے بنڈلس میں فضائی طورپر گرارہا ہے ۔بھوک اور پیاس سے متاثرہ غزہ کے لوگ یہ امداد لینے بے چین نظر آرہے ہیں ۔غزہ پٹی کے ساحلی علاقے میں بھی پانی پر کئی بنڈلس گرائے گئے، جنہیں حاصل کرنے غزہ کے مکینوں کی حالت قابل رحم رہی ہے۔ امریکہ زخم دینے اور پھر مرہم لگانے کے کام صدیوں سے کرتا آرہا ہے۔
صیہونی اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے مطالبات تیز تر ہوگئے ہیں ۔ ماہ رمضان المبارک کے آغاز کے لیے اب کچھ ہی دن باقی رہ گئے ہیں ۔مکمل جنگ بندی کے لیے اسرائیل اپنے تکبر میں راضی نہیں ہے ۔اس کا مقصد ہے کہ غزہ فلسطینیوں سے مکمل طورپر خالی ہوجائے اور ان کی شناخت اور وجود کا بھی خاتمہ ہوکر رہ جائے۔ اس چھوٹی سی اسرائیلی حکومت کی ہٹ دھرمی اور ضد کے آگے بڑے بڑے ملک جنگ بندی کے لیے اس کو (اسرائیل کو) آمادہ کرنے رمضان کے پیش نظر چھ ہفتوں کی عبوری جنگ بندی کے لیے دباؤ بنائے ہو ئے ہیں۔حالیہ دنوں میں قطر،حماس کے نمائندے اور امریکہ قاہرہ (مصر) میں اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے لیے اورجنگ بندی کو یقینی بنانے کی کوششوں میں ہیں۔اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے اس امن گفتگو Peace Talks اور جنگ بندی Cease Fire کے مذاکرات میں شرکت کرنے سے انکارکردیا ہے۔اقوام متحدہ اوردیگر ممالک جو غزہ میں امن کے حامی ہیں ان کی آوازیں اَن سنی رہ گئی ہیں۔اسرائیل اپنا غیر ذمہ دارانہ موقف پر اپنے غرور اور وحشیانہ نظریہ سے قائم ہے۔قیاس لگایا جارہا ہے کہ آمدرمضان کے پیش نظر عنقریب عبوری جنگ بندی کا اعلان ہوپائے گا۔تاکہ اس مبارک مہینے کے دوران غزہ میں بربریت پرقابو پایا جاسکے۔
اسرائیل کے لیے مستقبل میں جو حالات ہوں گے وہ تو ہوکر ہی رہیں گے۔ مگر حالیہ پانچ مہینوں سے جاری اسرائیلی وحشیانہ بمباری اورظلم وستم نے پوری دُنیا کے امن پسند اور جذبۂ آزادی کے قدردانوں کو مایوس کردیا ہے۔ غزہ میں بسے فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اوران کی (فلسطینیوں کی) بے بسی کا مذاق اڑاتے جوویڈیوز اسرائیلی فوجیوں نے بنائے ہیں۔ اس کی بھی کھل کر مذمت کی جاری ہے۔ جس بے دردی سے فلسطینیوں کو ستایا جارہا ہے ۔اس پر مصلحت اوردوستی نبھانے کے نام پر کئی اسلامی ممالک کی پراسرار خاموشی بھی لائق مذمت ہے ۔ اسرائیل کی اسلام دشمنی روزاول ہی سے واضح ہے مگر حالیہ جاری جنگ میں یہ دشمنی اوراسلام فوبیا کارنگ شدت سے نمایاں ہوگیا ہے۔رمضان المبارک کے دوران خدا کرے غزہ میں کچھ تو ستم رسیدہ فلسطینیوں کے لیے راحت نصیب ہوجائے۔
[email protected]
cell: 9986831777

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا