واشنگٹن، //بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ روزکہا کہ وہ غزہ سے آنے والی ان تصاویر سے پریشان ہے جس میں مردوں کو برہنہ دکھایا گیا ہے۔
گذشتہ ہفتے اسرائیل نے حماس کے مزاحمت کاروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا اور فوٹیج نشر کی تھی جس میں مردوں کو غزہ میں برہنہ حالت میں سر جھکا کر بیٹھے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان میٹ ملر نے ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا، "ہمیں یہ تصاویر پریشان کن معلوم ہوئی ہیں۔” ملر نے مزید کہا کہ امریکی حکام نے ان تصاویر کا مسئلہ اسرائیلیوں کے ساتھ اٹھایا تھا۔
العربیہ کے مطابق لندن میں قائم عربی زبان کے خبر رساں ادارے العربی الجدید نے کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد میں سے ایک اس کا نامہ نگار دیا کہلوت تھا۔ ادارے نے بین الاقوامی برادری اور حقوق کے گروپوں پر زور دیا کہ وہ صحافیوں کی گرفتاری کی مذمت کریں اور کہا، "العربی الجدید ساتھی دیا الکہلوت اور دیگر شہریوں کی ذلت آمیز گرفتاری کی شدید مذمت کرتا ہے۔”
صلیبِ احمر کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) نے کہا کہ اسے ان تصاویر پر تشویش ہے اور تمام قیدیوں کے ساتھ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق انسانیت اور وقار کے ساتھ سلوک ہونا چاہیے۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ایلون لیوی نے تصاویر کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں باقاعدہ بریفنگ میں بتایا، "ہم ان افراد کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو جبالیہ اور شیجائیہ (غزہ شہر) میں حماس کے مضبوط فوجی مراکز میں پکڑے گئے ہیں۔”
"ہم فوجی عمر کے مردوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ان علاقوں میں پائے گئے جہاں سے عام شہری ہفتوں پہلے نکل چکے تھے۔”
7 اکتوبر کو اسرائیل میں مزاحمت کار گروپ کی دراندازی کے بعد فلسطینی علاقوں میں حماس کے خاتمے کے لیے اسرائیلی فوج نے اپنی مہم شروع کر دی جس کے بعد شہریوں کو غزہ کے ان علاقوں سے نکل جانے کا کہا گیا ہے جہاں وہ فوجی آپریشن کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایک تصویر میں 20 سے زیادہ آدمیوں کو فرش یا گلی میں گھٹنے ٹیکے ہوئے دکھایا گیا ہے جن کو اسرائیلی فوجی دیکھ رہے ہیں اور درجنوں جوتے اور سینڈل سڑک پر پڑے ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں اور مردوں کو قریب ہی ایک ٹرک کے پیچھے گھسایا گیا تھا۔ وہ بھی نیم برہنہ تھے۔
کچھ فلسطینیوں نے کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ان تصاویر میں اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے ہیں اور وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ ان کا حماس یا کسی دوسرے گروپ سے کوئی تعلق ہے۔
کچھ فلسطینیوں نے شمال مشرقی قصبہ بیت لاہیا کے طور پر اس جگہ کو شناخت کیا جہاں سے ان افراد کو پکڑا گیا تھا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے اسرائیل نے شہریوں کو نکل جانے کی تنبیہ کی تھی اور اسے ہفتوں سے اسرائیلی ٹینکوں نے گھیرے میں لیا ہوا اور محاصرہ کر رکھا ہے۔
ورجینیا میں مقیم ایک فلسطینی نژاد امریکی ہانی المدھون نے کہا کہ اس نے ایک تصویر میں رشتہ داروں کو دیکھا اور رائٹرز کو بتایا، وہ "معصوم شہری ہیں جن کا حماس یا کسی دوسرے گروپ سے کوئی تعلق نہیں۔”
آئی سی آر سی میڈیا ریلیشنز ایڈوائزر برائے شرقِ اوسط جیسیکا موسن نے ایک بیان میں کہا، "ہم تمام زیرِ حراست افراد کے ساتھ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق انسانیت اور وقار کے ساتھ سلوک کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔”
لندن میں فلسطینی مشن کے سربراہ حسام زوملوٹ نے ایکس پر کہا کہ تصاویر نے "انسانیت کی تاریخ کے کچھ تاریک حصّوں کو ظاہر کیا ہے۔”
ممتاز فلسطینی سیاست دان حنان اشراوی نے ایکس پر کہا کہ یہ واقعہ "فلسطینی مردوں کی تذلیل اور توہین کی صریح کوشش ہے جنہیں ان کے خاندانی گھروں سے اغوا کیا گیا اور برہنہ کر کے جنگی ٹرافیوں کی طرح دکھایا گیا۔”