بشیر چراغ
سرینگر کشمیر
جتنی یہ عمر بڑھ گئی اتنی ہی گھٹ گئی
اچھی کٹی، بڑی کٹی جیسی بھی کٹ گئی
وہم و گماں سے اور، تصور سے بھی پرے
راحت میرے نصیب کی اوروں میں بَٹ گئی
کتنی شدید ہوک ہے، تلخی ہے یاس ہے
تھوڑی سی آنچ لگنے سے دنیا سِمٹ گئی
میں جذب ہوگیا تو تھا اس کے وجود میں
لیکن وہ خود سے چار دِشاؤں میں بٹ گئی
اُس کے بدن کے تہہ میں بھی اس کا پتہ نہ تھا
رنگِ شباب میں تو وہ اپنوں سے پِٹ گئی
آنکھیں بھی راکھ ہو گئیں دیدارِ شوق میں
پھر کیا مرے بدن سے تباہی لپٹ گئی
یوں تو غمِ فراق نے لاغر کیا مگر!
تاریکِ غم میں کیسے مصیبت وہ چھٹ گئی
وہ جس سے اڑ رہی تھی وہ پرواز کس کی تھی!
یکلخت یوں چراغؔ وہ نظروں سے ہٹ گئی
٭٭٭