سبزار احمد بٹ
منور رانا کا اصل نام سعید منور علی تھا۔جبکہ منور رانا قلمی نام اختیار کرتے تھے منور رانا کا شمار اردو کیعالمی شہرت یافتہ شاعروں میں ہوتا ہے۔ یہ ان گنے چنے شاعروں میں گردانے جاتے ہیں جنہوں نے غزل میں ماں کے موضوع کو پیش کرنے کی شروعات کی ہے۔منور رانا ہندوستان کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہترین شعرائ میں سے ہیں۔ جو پچھلے پانچ دہائیوں سے دنیا کے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے مشاعروں کی زینت بنے ہوئے تھے۔ یہ چمکتا ہوا تارا 26 نومبر 1952 میں رائے بریلی اترپریس میں طلوع ہوا۔ تاہم انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ کلکتہ میں گزارا۔تقسیم ہند کے وقت منور رانا کے رشتہ دار پاکستان ہجرت کر گئے۔ لیکن منور رانا کے والد نے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی۔ منور رانا سے پہلے اردو غزل گوئی میں صرف حسن و عشق کے موضوعات پیش کیے جاتے تھے۔لیکن مزکورہ شاعر نے غزل میں ماں جیسا موضوع پیش کیا اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ
تیری عظمت کے لیے تجھ کو کہاں پہنچا دیا
اے غزل میں نے تجھے تزدیک ماں پہنچا دیا
۔منور رانا سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ غزل میں ماں جیسے موضوع کو پیش کرنے کی کیسے سوجھی؟۔ تو جواباً کہا کہ بنگال میں میرے کالج کے دوست مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ جب ہمارے بنگلہ ساہت انگریزوں سے لڑ رہے تھے .تو تمہاری غزل طوائف کے کوٹھے سے اتر رہی تھی۔ تو میں نے سوچا بات تو سچ ہے ہماری غزل میں محبوبہ کے کان، ناک، ہونٹ، ہاتھ، اور کمر وغیرہ کا ذکر اس طرح ہوتا ہے جیسے غزل نہیں کوئی گوشت کی دکان ہو۔کیوں نہ اس روایت کو بدلا جائے. اور ماں جیسے مقدس موضوع کو غزل کی زینت بنایا جائے۔چنانچہ میں نے غزل کو وشیا کے کوٹھے سے نکال کر ماں کے قدموں میں لا کر رکھ دیا۔ میں نے غزل گوئی میں ماں لفظ کو برتنے کی نئی راہ نکالی .اس پر سوالات بھی اٹھائے گئے اور اعتراض بھی جتایا گیا کہ غزل کے معنی ہیں محبوبہ سے باتیں کرنا ماں سے نہیں۔ اور اس میں محبت، حسن و عشق کے موضوعات پیش کیے جاتے ہیں ماں جیسا موضوع غزل میں پیش کرنا اس صنف کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ تو میرا یہی جواب تھا جب ایک عام سی لڑکی کسی کی محبوبہ ہو سکتی ہے تو میری ماں میری محبوب کیوں نہیں ہو سکتی۔جو دنیا کے کسی بھی شخص سے زیادہ مجھ سے محبت کرتی ہے. اور میرے لیے اتنی تکالیف سے نمبردآزما ہوتی ہے بقولِ منور رانا
اس طرح سے میرے گناہوں کو دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو
مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا
بیجھے گئے فرشتے ہمارے بچاؤ میں
جب حادثات ماں کی دعا سے الجھ پڑے
منور رانا کی شاعری نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے۔ وہ اپنی شاعری میں نئی پود کو ماں سے محبت کرنے اور ماں کا خدمت گزار بننے اور ماں کی دعائیں حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ کہتے ہیں
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہو گا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
منور رانا کی شاعری اردو کے علاوہ ہندی، بنگالی اور گرومکھی زبانوں میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں حقیقت پسندی سے کام لیا ہے
ایک بار منور رانا سے پوچھا گیا کہ اب آپ ضعیف العمر ہیں لیکن آپ کی بینائی میں کوئی فرق نہیں آیا تو جواباً منور رانا نے یہ شعر پڑھا تھا کہ
مختصر ہوتے ہوئے بھی زندگی بڑھ جائے گی
ماں کی آنکھیں چوم لیجیے روشنی بڑھ جائے گی
اتنا ہی نہیں منور رانا نے اپنی شاعری میں نہ صرف ماں بلکہ ان کی شاعری میں رشتوں کی قدرومنزلت کا جگہ جگہ اشارہ ملتا ہے
رو رہے تھے سب تو میں بھی پھوٹ کر رونے لگا
ورنہ مجھکو بیٹیوں کی رخصتی اچھی لگی
کچھ دن اور ماں کو خوش رکھنا چاہتی تھی
وہ بچی کپڑوں کی مدد سے اپنی لمبائی چھپاتی تھی
گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں
بیٹیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں
اڑ کے اک روز بہت دور چلی جاتی ہیں
گھر کی شاخوں پہ یہ چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں
لیکن ماں کے موضوع کو منور رانا کی شاعری سے ہر گز جدا نہیں کیا جا سکتا ہے
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
اداس رہنے کو اچھا نہیں بتاتا ہے
کوئء بھی زہر کو میٹھا نہیں بتاتا ہے
کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں
یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے
ماں دنیا کی ایسی دولت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ دنیا کی ساری دولت ایک طرف اور ماں کا پیار اور ماں کی دعا ایک طرف۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ آجکل کے بھائیوں میں جب بٹوارہ ہوتا ہے تو باقی ساری دولت کو حاصل کرنے پر جھگڑا ہوتا ہے۔ لیکن جب ماں کی بات آتی ہے تو خاموشی چھا جاتی ہے اور ماں کو دولت کے بجائے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ اسی مضمون کو منور رانا نے کچھ اس طرح سے پیش کیا ہے کہ
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکان آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
منور رانا کا کہنا ہے کہ اگر ماؤں کی بات مانی جائے تو نہ صرف بھائیوں میں بلکہ ملکوں میں بھی بٹوارہ نہیں ہوگا اور سب لوگ مل جل کر رہیں گے بقولِ منور رانا
کوئء سرحد نہیں ہوتی گلیارہ نہیں ہوتا
اگر ماں بیچ میں ہوتی تو بٹوارہ نہیں ہوتا
منور رانا نے ماں سے منسلک ہر چیز کو اپنی شاعری میں برتنے کی کوشش کی ہے۔ اور وہ ماں کی میلی چادر کو ستاروں سے بھی افضل سمجھتے ہیں کہتے ہیں
تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہونگے اے فلک
مجھ کو میری ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی
دنیا میں جس قدر محبتوں اور چاہتوں کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ماں کی محبت اور چاہت کے سامنے سب کچھ پھیکا پھیکا سا لگتا ہے مزکورہ شاعر نے اسی مضمون کو کچھ اس طرح سے ادا کیا
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا
منور رانا کی جو تخلیقات منظر عام پر آچکی ہیں ان میں نیم کے پھول، کہو ظل الٰہی سے، جنگلی کبوتر، بغیر نقشے. کا مکان ،مہاجرنامہ ،چہرے یاد رہتے ہیں، سفید جنگلی کبوتر اور ماں قابل ذکر ہیں منور رانا نے اپنی شاعری میں غریب اور محنت کش طبقے کو اپنا موضوع بنایا ہے۔وہ اس طبقے کے لیے ایک وکیل بن کر کھڑے ہیں لکھتے ہیں کہ
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا
کوزہ گروں کے گھر میں مسرت کہاں سے آئے
مٹی کے برتنوں کا زمانہ نہیں رہا
ہمارے ساتھ چل کر دیکھ لیں یہ بھی چمن والے
یہاں اب کوئلہ چنتے یہ پھولوں سے بدن والے
پیاس کی شدت سے منہ کھولے پرندہ گر پڑا
سیڑھیوں پر ہانپتے اخبار والے کی طرح
منور رانا نے ملک کی اوچھی سیاست اور فرقہ پرست لوگوں کو بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ نشانہ بنایا ہے لکھتے ہیں کہ
مناسب ہے کہ تم بھی پہلے آدم خور بن جاؤ
کہیں سنسد میں کھانے کوئی چاول دال جاتا ہے
سیاست نفرتوں کا زخم بھرنے ہی نہیں دیتی
جہاں بھرنے پہ آتا ہے تو مکھی بیٹھ جاتی ہے
اک بازو کاٹنے پہ تلے تھے تمام لوگ
سوچو کہ کیسے دوسرا بازو نہ بولتا
فرقہ پرست لوگ نہ ہوتے اگر یہاں
بلبل ہی بولتا یہاں الو نہ بولتا
روشنی اک خاص کنبے کا مقدر بن گئی
چمنیوں نے صرف بستی میں دھواں پہنچا دیا
جلا کر راکھ کر دیتی ہے اک لمحے میں شہروں کو
سیاست بستیوں کو روز کوڑا گھر بناتی ہے
منور رانا کی شاعرانہ عظمتوں کے اعتراف میں انہیں بہت سارے اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے
۔جن میں امیر خسرو ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ، غالب ایوارڈ، شہود عالم آفاقی ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ ،اور ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ قابل ذکر ہیں منور رانا نے 2015 میں ملک میں عدم رواداری کو لے کر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بطورِ احتجاج واپس کیا تھا ایسا انہوں نے ایک راست ٹیلی ویڑن شو کے دوران کہا تھا اپنے بیانات اور اشعار کی وجہ سے منور رانا سرخیوں میں بھی رہے ہیں۔ کیونکہ منور رانا بے باک انداز میں اپنی بات رکھتے ہیں اور اکثر اوقات اپنی بڑی سے بڑی بات شعر میں پیش کرنے کی قابل قدر صلاحیت رکھتے ہیں منور رانا کا شمار اردو کے ان چنندہ شاعروں میں ہوتا ہے۔جنہوں نے اپنی غزلوں میں ماں کی اہمیت اور عظمت کے ساتھ ساتھ ماں کے احساسات، جزبات، محبت اور ایثار کو بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور وہ اس امر میں بہت حد تک کامیاب بھی ہو گیے ہیں مہاجر نامہ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس کے چند اشعار یوں ہیں
مہاجر ہیں مگر اک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے.
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں
لیکن ان کی شاعری میں جس قدر ماں کا موضوع چھایا رہتا ہے شاید ہی کوئی اور موضوع ہو (منور رانا نے ماں کے مقدس موضوع کو غزل کی زینت بنا کر اردو غزل کا معیار بلند کیا ہے اور اردو غزل کو وہ عزت و توقیر بخشی ہے جس سے اردو غزل ناآشنا تھی غزل میں ماں کے موضوع کو پیش کر کے منور رانا نے اردو غزل میں مختلف موضوعات کو پیش کرنے کی راہ ہموار کی ہے دیکھا جائے تو منور رانا نے غزل کو ایک محدود دائرے سے نکال کر اس کو کینوس وسیع سے وسیع تر کر دیا ہے) منور رانا کے بعد بہت سارے شاعروں نے اس موضوع کو غزل میں پیش کرنے کی کوشش کی۔مثال کے طور پر عباس تابش کا یہ شعر عرض کرنا چاہوں گا کہ
ایک مدت سے ماں میری سوئی نہیں تابش
اک بار میں نے کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
اس حوالے سے افتخار عارف نے بھی قلم اٹھایا ہے لکھتے ہیں
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
اسی مضمون کی آبیاری کے لیے احمد سلمان نے بھی قلم اٹھایا تو کچھ یوں رقمطراز ہوئے
سب نے مانا مرنے والا دہشت گرد اور قاتل تھا
ماں نے پھر بھی قبر پہ اس کی راج دلارا لکھا تھا
خدا نے یہ صفت دنیا کی ہر عورت کو بخشی ہے کہ وہ پاگل بھی ہو جائے تو بیٹے یاد رہتے ہیں
ماں کی عظمت پر منور رانا کے تخلیق کردہ چند اور شعر ملاحظہ فرمائیں
اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کالا ہو گیا
ماں نے آنکھیں کھول دیں گھر میں اْجالا ہو گیا
بزرگوں کا میرے دل ابھی تک ڈر نہیں جاتا
جب تک جاگتی رہتی ہے ماں میں گھر نہیں جاتا
مسلسل گیسوؤں کی برہمی اچھی نہیں ہوتی
ہوا سب کے لیے یہ موسمی اچھی نہیں ہوتی
منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کے نہیں رونا
جہاں بنیاد ہو زیادہ نمی اچھی نہیں ہوتی
منور رانا نے اس طکے اشعار بھی تخلیق کئے ہیں جیسے
اس فاختہ کی کوکھ سے زخمی ہوں آج تک
جو فاختہ تم نے اس دن دعوت دی کاٹ دی
منور رانا کی شاعری میں احتجاجی لہجہ بھی پایا جاتا ہے لکھتے ہیں
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے۔
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
بہت سی کرسیاں اس ملک میں لاشوں پہ رکھی ہیں
یہ وہ سچ ہے جو جھوٹے سے جھوٹا بول سکتا ہے
امیرِ شہر کو تلوار کرنے والا ہوں
میں جی حضوری سے انکار کرنے والا ہوں
کہہ دو اندھیرے سے دامن سمیٹ لے اپنا
میں جگنوؤں کو علمدار کرنے والا ہوں
ان اشعار میں نہ صرف مزمتی لہجہ اپنایا گیا ہے اور ان میں امیر وقت کے لیے للکار بھی ہے
ہندی اور اردو کی زبانوں کو منور رانا بہنیں قرار دیتا ہے اور کہتے ہیں
سگھی بہنوں کا رشتہ ہیجو ہندی اور اردو میں
کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا
منور رانا نے دنیا کی ترقی اور بلدی کو عارضی قرار دیا ہے کہتے ہیں کہ
بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے
فضا میں شام ہوتے ہی پرندے لوٹ آتے ہیں
زمین پر جو سکون ہے آسمانوں میں نہیں ملتا
منور رانا ایک بہترین شاعر مونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نثرنگار بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہیں ڈاکٹر مظفر حنفی، عرفان صدیقی اور سید منیر نیازی نے نثر نگاری کی طرف مائل کیا۔” بغیر نقشے کا مکان ” انکے مضامین کا مجموعہ ہے جو منور رانا نے اپنے عزیز واقارب کے نام لکھے ہیں ان مضامین میں ایک قسم کا خاکہ دکھائی دیتا ہے۔” چہرے یاد رہتے ہیں ” منور رانا کے خاکوں اور انشایوں کا مجموعہ ہے دیکھا جائے تو منور رانا کی نثر میں بھی شاعری کی سی مٹھاس اور چاشنی پائی جاتی ہے۔
کل یعنی 14 اور 15 جنوری 2024 کی درمیانی رات کو طویل علالت کے بعد اردو شاعری کا یہ درخشندہ ستارہپی جی آئی لکھنو میں داعئی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ اور یہ آواز ہمیں ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔ غزل میں ماں کی وکالت کرنے والے شاعر منور رانا نہیں رہے۔۔ اللہ مغفرت فرمائے