غالب اردو کا پہلا ترقی پسند شاعر: ڈاکٹر تقی عابدی

0
0

غالب ہر دور کا مقبول شاعر۔ پروفیسر سید عین الحسن
شعبہ ٔ اردو، مانو میں توسیعی خطبہ "عہد حاضر میں غالب کی معنویت” کا انعقاد
حیدرآباد، //”اردو میں سب سے زیادہ نکتہ آفرینی اور حسن آفرینی غالب نے پیدا کی ہے۔ ایجاز و اختصار اس کے کلام کی بنیادی خوبی ہے۔” ان خیالات کا اظہار ممتاز اردو و فارسی اسکالر ڈاکٹر سید تقی عابدی نے شعبۂ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے "عہد حاضر میں غالب کی معنویت” کے موضوع پر منعقدہ توسیعی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ غالب کمالات کا شاعر ہے۔ وہ انسانیت کا شاعر ہے، حقوق انسانی کا شاعر ہے۔ وہ پہلا ترقی پسند شاعر ہے۔ اس کی شاعری کے ساتھ ساتھ خطوط بھی معنویت سے پر ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال اور دیگر اہم شاعروں اور نقادوں نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔
پروفیسر سید عین الحسن، شیخ الجامعہ نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غالب کو وقت کے دائرے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہر دور کا شاعر ہے۔ اسی لیے اس کا کلام ہر دور میں مقبول رہا ہے۔ غالب کے بارے میں ایک زاویے کے بجائے مختلف زاویوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ بے جان شے کو بھی جاندار بنا کر پیش کردینے کے ہنر سے واقف ہے۔ پروفیسر سید عین الحسن نے مزید کہا کہ "دستنبو” کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب کو علم نجوم پر بھی دسترس تھی۔ انھوں نے انگریزوں اور ان کے افرادِ خاندان کے قتل کی مذمت کی تھی۔ وہ انسانی اقدار کے عَلَم بردار تھے۔ میں نے اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر "دستنبو” کا ہندی میں ترجمہ کیا جسے علمی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔“
پروفیسر سید عین الحسن نے شعبے کے اساتذہ کی بھرپور ستائش کی اور انھیں جواہر پارہ قرار دیتے ہوئے شعبے کی ترقی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
مہمان خصوصی پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار، مانو نے اس اہم موضوع پر لیکچر کے انعقاد کے لیے شعبہ ¿ اردو کو مبارک باد دی اور مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ مہمان اعزازی پروفیسر عزیز بانو ڈین اسکول براے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے بھی اس موقعے پر اظہار خیال کیا۔
مہمان اعزازی پروفیسر محمد نسیم الدین فریس ممتاز محقق و ماہر دکنیات اور سابق ڈین ایس ایل ایل آئی، مانو نے کہا کہ غالب کے چھوٹے بھائی یوسف مرزا کے داماد حیدرآباد میں بڑے عہدے پر فائز تھے۔ حیدرآباد کے دور دراز کے علاقوں میں غالب کی شہرت تھی۔ کلاسک وہ شہ پارہ ہے جس کی قدر ہر زمانے میں کی جاتی ہے۔ غالب کا کلام اس اعتبار سے کلاسیکی شاعری ہے۔ اس لیے غالب کا یہ کہنا کہ ‘میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں’ صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ابتداءمیں صدر شعبہ
اردو پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے خیر مقدمی کلمات پیش کیے اور موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ غالب نے اپنے کلام کی بنیاد حسی تجربات پر رکھنے کی بجائے تصوراتی اور تجریدی معاملات پر رکھی ہے۔ وہ نئے مضامین اور لفظ تازہ کی تلاش میں نہایت جگر کاری سے کام لیتے ہیں۔ اظہار کی ندرت اور خیال کی پیچیدگی ان کا امتیازی وصف ہے۔ غالب کو تشکیک کا امام کہا جاتا ہے۔ غالب نے نامساعد حالات میں بھی خون دل سے چراغ جلائے ہیں۔ شکست خوردگی کے باوجود وہ افسردگی اور اضمحلال کا شکار نہیں ہوتے۔ غالب کا کلام ایک حیرت انگیز دنیا ہے۔ وہ نشاط زیست اور آشوب آگہی کا شاعر ہے۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر محمد اختر، اسوسی ایٹ پروفیسر اردو نے کی۔ شعبے کے استاد ڈاکٹر جابر حمزہ نے کلمات تشکر پیش کیے۔ پروگرام کا آغاز محمد سلمان ریسرچ اسکالر شعبہ اردو کے تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ اس موقعے پر شعبہ جات اردو، فارسی، ہندی، ترجمہ، مرکز مطالعات اردو ثقافت، مرکز پیشہ ورانہ فروغ براے اردو میڈیم اساتذہ اور نظامت فاصلاتی تعلیم کے اساتذہ کے علاوہ طلباءو طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا