۰۰۰
محمد تحسین رضا نوری
۰۰۰
اللہ ربّ العالمین نے امت مسلمہ کو لاتعداد انعام و اکرام سے نوازا۔ رمضان المبارک جیسی نعمت عظمیٰ، پھر اس کے اختتام پر بطور ضیافت عید الفطر کا خوبصورت دن عنایت فرمایا۔ یہ ہماری یکجہتی کی انوکھی مثال ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی، انشاء اللہ مسلمان اسلامی اصولوں کے مطابق ہی عید منائیں گے، عید کا دن خوشی منانے کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، دوستوں اور پڑوسیوں سے ملاقات، غریبوں اور مستحقین کی مدد کا دن بھی ہے، اس آپسی تعلقات سے محبت پیدا ہوتی ہے، دل صاف ہوتے ہیں اور مصافحہ سے گناہ جھڑتے ہیں، بچھڑے ہوئے لوگ عید الفطر کے موقع پر ایک ہو جاتے ہیں، ٹوٹے ہوئے رشتے دوبارہ جڑ جاتے ہیں۔
محترم قارئین! عید الفطر کا دن خوشی و مسرت کا دن ہے، اس دن اعمال صالحہ کی کثرت کے ساتھ ساتھ خوشی کے اظہار کا بھی حکم دیا گیا ہے، حضرت انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول کریم مدینہ منورہ تشریف لائے، اْس زمانے میں اہل مدینہ سال میں دو دن خوشی منایا کرتے تھے، آپ نے ارشاد فرمایا یہ کیسے دو دن ہیں ؟؟؟ تو لوگوں نے عرض کی، کہ زمانہ جاہلیت سے ہم ان دنوں میں خوشی مناتے ہیں، تو آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیے، یوم اضحٰی، یوم فطر۔ (ابو داؤد شریف)
عید کا دن حصول رضائے الٰہی اور اظہار مسرت کا سبب ہے، اس دن خوب اچھے اعمال کیجئے، گناہوں سے اجتناب کیجئے، ایسی جگہوں سے دور رہیں جہاں مرد و عورت کا اختلاط ہو،
عید کا یہ مبارک دن اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ کمزوروں اور ضرورت مندوں سے بھلائی اور اْن کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کا درس بھی دیتا ہے
عید الفطر کے آداب و احکام_
شب عید کی فضیلت: حضور علیہ الصلوٰ والسلام نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے عیدین کی رات (یعنی شبِl عید الفطر اور شب عید الاضحٰی)طلب ثواب کیلئے قیام کیا ،اْس دن اْس کا دل نہیں مرے گا، جس دن (لوگوں کے) دل مر جائیں گے۔ (ابن ماجہ حدیث)
ایک اور مقام پر حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں : جو پانچ راتوں میں شب بیداری کرے اْس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ ذو الحجہ شریف کی آٹھویں، نویں اور دسویں رات (اس طرح تین راتیں تو یہ ہوئیں ) اور چوتھی عید الفطر کی رات، پانچویں شعبان المعظم کی پندرھویں رات (یعنی شب برائ ت)۔ ( الترغیب و الترھیب، حدیث ۲)
حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی ایک رِوایت میں یہ بھی ہے : جب عید الفطر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تو اسے ’’لیلہ الجائز‘‘ یعنی ’’انعام کی رات‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تواللہ عزوجل اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں: ’’اے امت محمد ! اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو! جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے‘‘۔ پھر اللہ پاک اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’اے میرے بندو! مانگو! کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم! آج کے روز اس اجتماع (یعنی نماز عید) میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اْس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا اطاعت و فرمانبرداری کرو گے میں بھی تمہاری خطاوں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔ میری عزت وجلال کی قسم! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاو?۔ تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔‘‘ (الترغیب و الترھیب)
اکابرین کی عیدیں:
اج کل گویا لوگ صرف نئے نئے کپڑے پہننے اور عمدہ کھانے تناول کرنے کو ہی معاذ اللہ عید سمجھ بیٹھے ہیں۔ ذرا غور تو کیجئے! ہمارے بزرگان دین رحمہم اللہ بھی تو آخر عید مناتے رہے ہیں ، مگر ان کے عید منانے کا انداز ہی نرالا رہا، وہ دْنیا کی لذتوں سے کوسوں دور رہے اور ہر حال میں اپنے نفس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
عیدکاانوکھا کھانا:
حضرت سیدنا ذو النون مصری علیہ الرحمہ نے دس برس تک کوئی لذیذ کھانا تناول نہ فرمایا، نفس چاہتا رہا اورآپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نفس کی مخالفت فرماتے رہے، ایک بار عید مبارک کی مقدس رات کو دل نے مشورہ دیا کہ کل اگر عد سعید کے روز کوئی لذیذ کھانا کھالیا جائے تو کیا حرج ہے؟ اس مشورے پر آپ رحم اللہ تعالی علیہ نے بھی دل کو آزمائش میں مبتلا کرنے کی غرض سے فرمایا: ’’میں اولا دو رکعت نفل میں پورا قراٰن پاک ختم کروں گا، اے میرے دل! تو اگر اس بات میں میرا ساتھ دے تو کل لذیذ کھانا مل جائے گا۔ ‘‘لہٰذا آپ رحم اللہ تعالی علیہ نے دو رکعت ادا کی اور ان میں پورا قراٰن کریم ختم کیا۔ آپ رحم اللہ تعالٰی علیہ کے دل نے اس امر میں آپ رحم اللہ تعالٰی علیہہ کا ساتھ دیا۔ (یعنی دونوں رکعتیں دل جمعی کے ساتھ ادا کرلی گئیں) اپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے عید کے دن لذیذ کھانا منگوایا، نوالہ اْٹھا کر منہ میں ڈالنا ہی چاہتے تھے کہ بے قرار ہوکر پھر رکھ دیا اور نہ کھایا۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: جس وقت میں نوالہ منہ کے قریب لایا تو میرے نفس نے کہا: دیکھا ! میں آخر اپنی دس سال پرانی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہو گیا نا۔ میں نے اْسی وقت کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں تجھے کامیاب نہ ہونے دوں گا اور ہرگز ہرگز لذیذ کھانا نہ کھاوں گا۔ چنانچہ آپ نے لذیذ کھانا کھانے کا ارادہ ترک کردیا۔ اتنے میں ایک شخص لذیذ کھانے کا طباق اٹھائے حاضر ہوا اور عرض کی: یہ کھانا میں نے رات اپنے لئے تیار کیا تھا، رات جب سویا تو قسمت انگڑائی لے کر جاگ اْٹھی ، خواب میں تاجدار رسالت کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی، میرے پیارے پیارے آقا نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اگر تو کل قیامت کے روز بھی مجھے دیکھنا چاہتا ہے تو یہ کھانا ذوالنون کے پاس لے جا اور اْن سے جا کر کہہ کہ ’’حضرت محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب () فرماتے ہیں کہ دم بھر کیلئے نفس کے ساتھ صلح کرلو اور چند نوالے اس لذیذ کھانے سے کھا لو۔ حضرت سیدنا ذوالنون مصری علیہ رحم? اللہ القوی یہ سن کر جھوم اْٹھے اور کہنے لگے: ’’میں فرماں بردار ہوں ،میں فرماں بردار ہوں۔‘‘اور لذیذ کھانا کھانے لگے۔ (تذکر الاولیاء )
حضرت عمر فاروق اعظم کے شہزادے کی عید:
امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مرتبہ عید کے دن اپنے شہزادے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رو پڑے، بیٹے نے عرض کی: پیارے اباجان! کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا: میرے لال! مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تمہیں اس پرانی قمیص میں دیکھیں تو کہیں تمہارا دل نہ ٹوٹ جائے! بیٹے نے جوابا عرض کیا: دل تو اس کا ٹوٹے جو رضائے الہی کے کام میں ناکام رہا ہو یا جس نے ماں یا باپ کی نا فرمانی کی ہو، مجھے اْمید ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی رضا مندی کے طفیل اللہ عزوجل بھی مجھ سے راضی ہو جائے گا۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے شہزادے کو گلے لگایا اور اْس کیلئے دْعا فرمائی۔ (مکاشفہ القلوب)
یوم عیدکے احکام:
عیدین کی نماز کیلئے عیدگاہ کی طرف آتے جاتے وقت تکبیرات (اللہ اکبر اللہ اکبر ، لاالہ الا اللہ و اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد) پڑھی جاتی ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد سے عیدگاہ تک تکبیرات کہتے اور یہ امام کے آنے تک تکبیرات کہتے رہتے۔(سنن دارقطنی) گویا روزے رکھنے کے بعد اور قربانی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرنے کا حکم ہے۔ اس عمل سے عبادت گزاروں کو عاجزی اور انکساری کا عملی درس بھی ملتا ہے۔
ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا سنت ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم عید کے دن ایک راستے سے تشریف لے جاتے تو دوسرے راستے سے واپس لوٹتے (ترمذی)
اس عمل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خوشی کے موقع پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کیساتھ ملاقات ہو۔
عید کے دن غسل کرنا سنت ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے رسول اللہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے دن غسل فرمایا کرتے تھے (سنن ابن ماجہ)
نماز عید الفطر سے پہلے کچھ کھانا اور عید الاضحٰی سے پہلے نہ کھانا سنت ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے حضرت بْریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ? عید الفطر کے دن باہر نہیں نکلتے تھے یہاں تک کہ کچھ کھا لیتے اور عید قربان کے دن کچھ نہ کھاتے یہاں تک کہ نماز عید ادا کرلیتے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
عید الفطر کی نماز سے پہلے کھانا سنت ہے رسول اللہ عید الفطر کے دن طاق کھجوریں کھا کر نماز کیلئے نکلتے (بخاری شریف)
اور عیدالاضحی کے دن نماز کے بعد کھانا سنت ہے بہتر یہ ہے کہ اس کا آغاز قربانی کے گوشت کو کھا کر کرے جیسے کہ ایک حدیث پاک میں آپ کو قربانی کے گوشت سے کھانے کے معمول کا ذکر ہے (سنن دارقطنی)
عید میں غریبوں کا خاص خیال رکھیں:_
اسلام نے عیدین کی خوشی میں غرباء اور مساکین کو شامل کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ محتاج افراد کو احساس محرومی نہ ہو۔ رسول اللہ نے عید الفطر کے موقع پر صدقہ فطر ہر مرد و عورت ، چھوٹے بڑے اور آزادو غلام پر لازم قرار دیا ہے۔(ابوداؤد)۔اسی طرح عیدالاضحی کے موقع گوشت خود کھانے کی ساتھ ساتھ مساکین کو صدقہ کرنے کا حکم ہے (موطا امام مالک)
قرآن حکیم نے قناعت کرنے والے اور سوال کرنے والوں کو قربانی کا گوشت کھلانے کا حکم دیا ہے، عیدین کے موقع پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ نے مساکین کو خوشی میں شامل کرنے کے احکامات دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں کتاب و سنت کے مطابق عید الفطر منانے اور غرباء و مساکین کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور ہمیں زیادہ سے زیادہ عبادت و ریاضت اور تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین