( اختر جمال عثمانی۔ بارہ بنکی mb.9450191754, )
عام بجٹ میں جس طرح کے التزامات کئے گئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ مودی حکومت نے آخر کار تسلیم کر لیا ہے کہ بے روزگاری ملک کا ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے اور اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ سرکاری اور دیگر ملازمین کا عدم اعتماد بھی فکر مندی کا باعث تھا۔ چنانچہ بجٹ میں جہاں نوجوانوں کو لبہانے والے کئی نکات رکھے گئے ہیں وہیں ملازمین کے ٹیکس میں کچھ رعایت دی گئی ہے۔عام انتخابات کے بعد ایکزٹ پول کے نتائج سے یہ اشارہ مل رہا تھا کہ ایک بار پھر ملک اسی راستے پر گامزن رہیگا بی جے پی اپنے دم پر اکثریت حاصل کر لے گی ۔ کچھ چینل تو چار سو پار کی گردان بھی کر رہے تھے۔
الیکشن کے دوران این ڈی اے کی طرف سے وزیر اعظم نریندر مودی نے خود کمان سمبھالی ۔ لیکن الیکشن کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کی عوام نے ان کی باتوں اور ظاہر کئے جا رہے خدشات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ راہل گاندھی نے اپنی ہر ریلی میں عوام کے سامنے اس طرح کے سوال اٹھائے کہ ملک میں اتنی غربے کیوں ہے کہ اسی کروڑ عوام کو مفت راشن کے سہارے رہنا پڑے ، ملک بے روزگاری کا مرکز کیوں ہے ،۔ ایسے بہت سے سوالوں کا این ڈی اے کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ راہل گاندھی نے لگاتار ملک کی ترقی اور ملک کو آگے لیجانے اور مستقبل بہتر بنانے کی بات کی۔ سب سے زیادہ پر اثر رہا انکا تیس لاکھ نوکری دینے کا وعدہ، جس نے نوجوانوں کو جوش سے بھر دیا، واضح رہے کہ موجودہ وقت میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان برسوں سے بیکار ہیں، این ڈی اے کی دور میں برائے نام بھرتیاں ہوئیں ہیں۔ امتحان ہوتے ہیں ، برسوں رزلٹ نہیں آتے، کینسل ہو جاتے ہیں کبھی انٹرویو ہوکر کینسل ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ روزگار کی طرف سے مایوس نوجوانوں کو تیس لاکھ نوکریوں کے وعدے نے راہل گاندھی یا انڈیا اتحادکے پیچھے لام بند کر دیا ہو ۔اور انکی ہر ریلی میں بھیڑ بڑھنے لگی جس میں بڑی تعداد نوجوانوں کی دکھائی دیتی۔ اپنی سرکار بن جانے پر وہ ملک کی ترقی کے لئے کیا کیا کرنے والے ہیں ہر ریلی میں بتاتے رہے۔ الیکشن کی مہم کے دوران انھوں نے ڈھائی سو سے زیادہ انتخابی جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کیا۔ ریلیوں سے ایسا لگتا تھا کہ ملک کے لوگ ترقی کے ایجنڈے پر توجہ دے رہے ہیں لیکن الکشن کی مہم کو غیر متعلق مدعوں کی طرف لے جانے کی تمام کوششیں وزیر اعظم نریندر مودی وزیر داخلہ امت شاہ اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی کی طرف سے کی گئیں ۔فرقہ وارانہ خطوط پر و و ٹوں کو تقسیم کرنے کی کوششیں آخر تک جاری رہیں۔ ، رام مندر کی تعمیر کو الیکشن کا مرکزی مدعا بنایا گیا اور اسے ایک بہت بڑی حصولیابی قرار دیا گیا، لیکن یہ الیکشن جمہوریت کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہونے جا رہا تھا۔ نصف صدی قبل جب جمہوریت نے آمریت کی راہ پکڑ لی تھی وزیرِاعظم اندرا گاندھی اور انکی کانگریس پارٹی کو شکست ہوئی تھی اور جمہوریت بہا ل ہوئی تھی۔ اگرچہ اس الیکشن کے نتائج سے حکوت کی تبدیلی کی امید لگائے لوگوں کو تومایوس ہونا پڑا۔ لیکن ان نتائج نے ملک کو مکمل تاناشاہی کی طرف جانے کے راستے میں دیوار کھڑی کر دی۔ ا ن ساری کوششوں کے بعد بھی بی جے پی مکمل اکثریت حاصل کر پانے میں ناکام رہی ۔بہر حال چندر بابو نائڈو کی تیلگو دیسم پارٹی اور نتیش کمار کی جنتا دل یونائٹد کے سہارے نریندر مودی کی قیادت میں تیسری بار این ڈی اے کی حکومت قائم ہو گئی۔پارلیمنٹ کا پہلے سیشن کا پہلا دن ہی دھماکہ خیز ثابت ہوا جب راحل گاندھی نے بہ حیثیت اپوزیشن لیڈر خطاب کیا۔ دس برس کے بعد پہلی بار بی جے پی کو ایک طاقتور حزب اختلاف کا سامنا کرنا پڑا۔
چند روز قبل پارلیمان کا بجٹ اجلاس شروع ہوا ہے ۔ وزیر خزانہ محترمہ نرملا سیتا رمن نے ساتویں بار عام بجٹ 2024 پیش کیا۔ اس میں کانگریس کے انتخابی منشور کے کچھ اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے تو بجٹ کو کانگریس منشور کا کاپی پیسٹ تک قرار دے دیا، ایسا تو نہیں ہے لیکن جس طرح کانگریس نے اپنے منشور میں جس طرح نوجوانوں ، کسانوں اور خواتین کے لئے منصوبوں کا اعلان کیا تھا تو لگتا ہے ان طبقات کو مطمئن کرنے کی بجٹ میں کسی حد تک کوشش کی گئی ہے۔ نوجوانوں کی تعلیم اور روزگار کے لئے تین بڑی اسکیموں کا وعدہ اور دو لاکھ کروڑ روپے کے پیکج کا اعلان کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے الیکشن کے دوران بیروزگاری کا معاملہ اپوزیشن کا خاص مدعا رہا تھا۔ اس لئے اب حکومت کے لئے اس سے بے اعتنائی برتنا ممکن نہیں تھا۔ منصوبے کے مطابق اگلے پانچ سال چار کروڑ روزگار فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ ساتھ اس مدعت میں بیس لاکھ نوجوانوں کو ٹریننگ دینے کا پلان ہے، ایجوکیشن لون کی رقم میں اضافہ کرتے ہوئے اندرون ملک تعلیم کے لئے دس لاکھ روپئے قرض دیا جائے گا۔انٹرن شپ کے لئے بھی کافی رقم مستخص کی گئی ہے۔ بی جے پی کے پچھلے دورِ حکومت میں کسان کافی ناراض رہے۔ کسانوں کی تحریکوں اور دھرنوں کو بزورِ طاقت کچلا گیا ۔ دھرنے کے دوران بہت سے کسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سرکار نے کسانوں کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے کارپوریٹ کمپنیوں کے حق میں قانون بنائے۔ جس کو کسان بے شمار قربانیاں دے کر ہی واپس کرا سکے۔ قانون واپسی کے بعد بھی کسانوں کی ناراصگی بر قرار رہی جس کا خمیازہ بی جے پی کو سیٹوں کی تخفیف کی شکل میں بھگھتنا پڑا، اس عام بجٹ میں کسانوں کو کچھ رعایتیں ہی مل سکی ہیں ۔ جب کہ ان کی خاص مانگ ایم ایس پی کو قانونی شکل دینے پر کوئی توجہ نہیں نظر آتی ۔ دوسرے کسانوں کی مانگ قرض معافی کی رہی ہے۔ ان کی شکایت رہی ہے کہ حکومت کارپوریٹ گھرانوں کے لاکھوں کروڑ کے قرضے معاف کرتی رہی ہے ۔ لیکن کسانوں کے معمولی رقم کے قرضے معاف نہیں کئے جاتے جس کی بنا پر ہر سال ہزاروں کسان خودکشی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہاں خواتین کے کئے البتہ کئی ترقیاتی اسکیموں کے لئے فنڈ کا اعلان کیا گیا ہے۔دفاعی اخراجات میں اضافہ درپیش خطرات کو دیکھتے ہوئے مناسب ہے۔
عام طور سے مانا جا رہا تھا کہ سرکاری ملازمین حکومت سے مطمئن نہیں ہیں اور حکمراں جماعت ان سے جس طرح کے تعاون کی ان سے امید کر رہی تھی ا نہوں نے نہیں کیا۔ سرکاری ملزمین کو ٹیکس میں مناسب راحت ملی ہے۔ نیو ٹیکس رجیم میں اب تک 3 سے 6 لاکھ تک5 فیصد تھا 6 سے 9 لاکھ تک 10 فیصد ، 9 لاکھ سے12 لاکھ تک 15 فیصد 12 سے 15 لاکھ پر 20 اور 15 لاکھ سے زیادہ پر30 فیصد ٹیکس تھا جسے اب گھٹا کر اس طرح کر دیا گیا ہے 3 لاکھ تک کوئی ٹیکس نہیں 3 سے 7 لاکھ تک 5 فیصد۔ 7 سے 10 لاکھ تک 10 فیصد، 10 سے 12 لاکھ تک 15 فیصد ، 12 سے 15 لاکھ پر20 فیصد اور 15 لاکھ سے زیادہ پر 30 فیصد۔ مزید رعایتوں کے بعد ملازمین کو سات لاکھ آمدنی تک پر کوئی ٹیکس نہیں دینا ہوگا۔ الیکشن کے نتائج نے واضح کر دیا تھا کہ اس بار بی جے پی کو سرکار بنانے کے لئے آندھرا پردیش کی تیلگو دیسم پارٹی اور بہار کی جنتا دل یونائٹڈ کا ساتھ ہر حال میں چاہئے۔ حکومت قائم ہونے میں تعاون کے لئے چندرا بابو نائڈو اور نتیش کمار اپنے صوبوں کے لئے خصوصی درجہ چاہتے رہے ہیں ۔ خصوصی درجہ کے قطع نظر حکومت نے بڑی فراخ دلی سے عام بجٹ میں بہار کے لئے اٹھاون ہزار نو سو کروڑ روپئے اور آندھرا پردیش کے لئے پندرہ ہزار کروڑ روپئے کا التزام کیا ہے تا کہ ان صوبوں میں ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچایا جا سکے۔۔ اس طرح سے این ڈی اے کی اس حکومت کے پہلے عام بجٹ پر عام انتخابات کے نتائج کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں
٭٭٭
٭
اختر جمال عثمانی، دیوہ روڈ، رفیع نگر۔ بارہ بنکی
یو پی۔ انڈیا۔۲۲۵۰۰۱
. +919450191754 mbموبائیل۔۹۴۵۰۱۹۱۷۵۴
Email: akhtar.jamal.usmani@gmail.com