عالمی سطح پر ہر دوسرا بچہ افلاس کا شکار‬

0
0

ڈاکٹر کہکشاں عرفان
اے غریبی تیرا رکھے کوئ پردہ کیسے
تو تو ہر چہرے کو آئینہ بنا دیتی ہے۔

آج کئ ماہ بعد مفلسی نے میرے دل میں ایک درد جگایا ہے ۔آج میرا دماغ جھنجھنا اٹھا جب بات بچوں پر آگئ۔ میرے معزز قارئین آج میں اس تلخ حقیقت سے آپ سب کو بھی متعارف کرانا چاہتی ہوں جس خبر کو پڑھ کر مجھے درد محسوس ہوا۔اس کا احساس آپ سبھی کے دلوں میں جگانا ہی اس کالم کا مقصد ہے ۔ درد محسوس ہونا بھی زندہ رہنے کی علامت ہے ورنہ آج تو ہر شخص مردہ ہے ۔بے حس ہے۔ غالب کا ایک مشہور شعر ہے ۔
رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں کہ مجھ پہ آساں ہوگئیں ۔
آج غریبی اور مفلسی کے رنج و غم کے ہم سب اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ درد کا احساس مٹ گیا ہے ۔اب مشکل مشکل نہیں لگتی ۔ پھر بھی اللہ کا کرم ہے ہم سب کے پاس پیٹ بھرنے کے لئے انواع و اقسام غذائیں، تن ڈھا نپنے کو ملبوسات ، موسم کی مار سے بچنے کے لئے چھت میسر ہے بچے اسکول بھی جارہے ہیں، تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ایسے والدین بھی خوش نصیب ہیں اور ان کے بچے بھی ۔مگر ہمارے گھر سے باہر بھی دنیا ہے ۔نظر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کے آس پاس بھی نظر آئیگی ۔ اس کا نام ہے غریبی اور مفلسی ۔پھر بھی ہر طرف ایک جشن کا سماں ہے کہیں آزادی کا جشن منایا جارہا ہے کہیں ترقی کا جشن منایا جارہا ہے کوئ چاند پر جارہا ہے کوئ سورج کو چراغ دکھا رہا ہے ۔ کہیں لنگر ہورہا ہے کہیں بھنڈرا، کہیں پنڈال سج رہے ہیں کہیں شامیانے لگ رہے ہیں ۔ ٹرک بھر بھر کر شادیوں میں جہیز دیا جارہاہے ۔ شادی اور پارٹی ہو تو گلوکاروں اور رقاصاؤں پر روپئے لٹا ۓ جاتے ہیں ۔مگر ان روپیوں کی قیمت کوئ ان پچیس کروڑ بچوں سے پوچھے جو روپیوں اور پیسوں کی قلت کے باعث دو وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کے نہیں کھا پارہے ہیں ۔اسکول کا چہرہ نہیں دیکھ پارہے ہیں ۔یہ سب کچھ سماجی عدم مساوات کی دین ہے جو امیر ہے تو اتنا امیر کہ اس کے بچے سونے کا نوالہ کھاتے ہیں ۔ مہنگی مہنگی لگزری ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کر اسکول جاتے ہیں ۔ ساتھ میں خوبصورت بیگ ، برانڈڈ بوتل ، بہترین لنچ باکس اور اس میں قسم قسم کے لنچ بھی ۔
مگر معزز قارئین آج بھی بین الاقوامی سطح پر ہر دوسرا بچہ غریبی کے معیار سے بھی نیچے زندگی گزار رہا ہے ۔اور اس غربت و افلاس کا بچوں کے جسمانی نشو نما اور معاشرتی فروغ پر بہت بڑا اثر پڑ رہا ہے۔ بچوں کے ذہن پر کتنا گہرا اثر پڑ رہا ہے اس کا اندازہ لگانا ہو تو اپنے آس پاس ذرا غور سے بچوں کو دیکھئے ۔اب پہلے جیسے نہ بچے رہے نہ ان کا بچپن نہ وہ معصومیت رہی نہ بے فکری ، آج بچے معاشی بدحالی کے ساتھ اخلاقی پستی کا بھی شکار ہیں وجہ ان کی محرومیاں ہیں، معاشی بدحالی ہے ،تنگ دستی ہے ،غربت ہے ۔مائیں گھر کی روزی روٹی کا انتظام کرنے کام پر نکل جاتی ہیں ۔ پیچھے ان کا بچہ کیا کرتا ہے کن بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے؟ کیسی زبان استعمال کرتا ہے ؟ یہ دیکھنے کی فرصت نہیں ہے والدین کے پاس ۔ غربت سے بڑی کوئ بدعا نہیں۔بین الاقوامی بینک اور یو نی سیف کی نئ تحقیق سے یہ بات۔معلوم ہوتی ہے۔پوری دنیا میں غریبی اور مفلسی سے جوجھنے والے انسانوں میں پچاس فیصد سے زیادہ آبادی بچوں کی ہے ۔ 52.5فیصدی بچے ہیں جو انتہائ مفلسی اور غریبی کا شکار ہیں ۔رپورٹ کے مطابق 2013 میں انتہائ مفلس بچوں کی آبادی 47.3 تھی جو 2022 میں بڑھ کر 52۔5 ہوگئ ہے۔ اور مزید تعجب اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ غریبی کے معیار سے بھی نیچے زندگی گزار نے والے بچوں میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد سب سے زیادہ 18.3 فیصد ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے ؟ ایسے معاشرے اور ملک میں کس ذہنیت کی نسل تیار ہوگی اس کا آپ صرف تصور کیجئے ۔ بیمار، بدحال ، بدکار ، برباد ،بد کردار ، کچھ بھی یا سب کچھ ہو سکتی ہے یہ نسل ،جب ماں کی گود نہیں میسر ہو گی ،جب دودھ کی جگہ بچوں کو افیون چٹائ جاتی ہو ،جب سر چھپانے کو چھت گرم تن ڈھانپنے کو گرم کپڑے بھی میسر نہ ہوں تو جھگی جھونپڑی میں رہنے والے انسان رضائ اور سوئٹر شال کے بجاے خود بھی نشہ کرتے ہیں اور اپنے معصوم بچوں کو بھی کراتے ہیں ۔ سر پر چھت نہیں، تن پر لباس نہیں، پیٹ میں روٹی نہیں تو ایسے ماں باپ کو اگر چند پیسے مل بھی جائیں تو وہ سب سے پہلے کیا خریدینگے ؟
وہ جس کا ایک ہی بچہ ہو ، بھوکا آٹھ پہروں سے
بتاؤ اہل دانش تم کہ وہ گندم لے کہ تختی لے ؟
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں آج بھی 25 کروڑ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں ۔جنوبی ایشیا کی بات کی جاے تو پچاس لاکھ سے زائد بچے پرائمری تعلیم بھی نہیں حاصل کر پارہے ہیں ۔یو نی سیف کی تحقیق اور رپورٹ کے مطابق جن ممالک میں بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم م ہیں وہ عدم مساوات کا شکار ہیں ۔کم آمدنی والے ممالک میں پانچ میں سے صرف ایک بچہ اولین تعلیم کے لئے اسکول جا پاتا ہے ۔ یو نیسکو نے اپنی نئ رپورٹ ” ایس ڈی جی مڈ ٹرم پروگریس ریویو” میں ایک بتایا کہ 2021 سے اب تک اسکولی تعلیم سے محروم ہونے والے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ بڑے افسوس کے ساتھ یہ بتا رہی ہوں کہ پچھلے دو سالوں میں بنیادی تعلیم سے محروم اسکول کا چہرہ نہ دیکھنے والے بچوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے پچیس کروڑ تک پہنچ گئ ہے۔ ایسے ملکوں اور ان کے باشندوں کی زندگی کیسی ہوگی؟ ان کی زندگی جینے اور گزارنے کا انداز کیسا ہوگا؟ ان تمام محرومیوں کی وجہ غربت ہے ،افلاس ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ ہر طرف گناہ اور جرائم کا راج ہے ۔ چوری چکاری ،لوٹ کھسوٹ، بے ایمانی، رشوت خوری ،زنا کاری ،بدکاری نشہ خوری، لڑائ جھگڑے ، گھریلو تشدد ،سماجی استحصال سماج میں عام ہیں ۔
سچ پوچھئے تو اخلاقیات معاشیات کی محتاج ہے ۔بھوکے پیٹ تو عبادت بھی نہیں ہوتی ،تعلیم اور تربیت کہاں سے ہوگی ؟ اور جب تعلیم و تربیت نہیں ہوگی تو ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کیسے ہوگی؟ اور معاشرہ ہی مہذب نہیں ہوگا تو ملک میں جرائم کیسے کم ہونگے ؟ ملک کی ترقی کیسے ہوگی ؟ مفلسی بہت ساری برائیوں کی جڑ ہے ۔ایک تندرست اور صحت مند جسم میں ایک توانا دماغ ہوتا ہے ۔اور صحت مند دماغ توانا سوچ ،اچھی فکر رکھتا ہے ۔اچھی فکر اور اچھے خیالات اچھے اخلاق کی طرف لے جاتے ہیں ۔اور اچھے اخلاق سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔مگر افسوسناک مقام یہ ہے کہ معاشرے کی بنیاد بیمار ، پریشان حال ،بھوکے ،ننگے ،بچوں پر ہوگی تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس معاشرے کی عمارت کیسی ہوگی ؟
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
اقوام متحدہ کی عالمی رپورٹ کے مطابق تمام کاوشوں کے باوجود انتہائ مفلسی اور غریبی کے معیار سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ غریبی کا انتہائ معیار کیا ہے ؟ 178 روپئے روزانہ اگر کسی بچے پر خرچ ہوتا ہے تو یہ انتہائ غربت کا معیار ہے ۔مگر افسوس یہ ہے روزانہ 178 روپئے بھی ماں باپ اپنے بچے پر نہیں خرچ کر پاتے ہیں ۔
آؤ اس ماں کی زبانی بھی کوئ بات سنیں
روز بچوں کو جو بھوکا ہی سلا دیتی ہے
اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہوگی ؟ جب دنیا میں بچوں کی زندگی ہی داؤ پر لگی ہوئ ہے ۔

Email:dr.kahkashanirfan1980@gmail.com

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا