صحافت کے اصول اور موجودہ صورتحال

0
0

سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد.

دنیا میں ہر کام کے اپنے مقرر کردہ اصول ہوتے ہیں کوئی بھی کام جب تک ان مقرر کردہ اصولوں کے تحت کیا جاتا ہے تب تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا ہے۔ لیکن جب کسی بھی کام میں انسان حد سے گزرتا ہے اور اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا ہے تو اس پیشے اور اس کام کی وہی حالت ہوجاتی ہے جو موجودہ دور میں صحافت کی ہوئی ہے۔ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔ اور یہ پیشہ انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے ایک ڈھال کا کام کرتا ہے۔ مظلوموں کی آواز بن جاتا ہے اور بے کسوں کا سہارا بن جاتا ہے۔ سماج میں ایک طرح کا اعتدال بنائے رکھنے میں صحافت کا اہم کردار رہتا ہے۔ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ موجودہ دور میں جب کہ ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کا انقلاب بپا ہوا ہے۔ وہاں صحافت کا شعبہ بھی بہت حد تک متاثر ہوا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی کا ہی کمال ہے کہ صحافت کے شعبے میں انقلاب پیدا ہوا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی واقعہ رونما ہو ایک عام انسان اس سے فوراً خبردار ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی انسان کسی بھی معاملے میں اپنی رائے پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ صحافت کا کام عوامی مسائل کو حکومت تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر اٹھائے جانے والی اقدامات اور لوگوں کئے جانے والے قوانین اور سکیموں کو عوام الناس تک پہنچانا ہوتا ہے اور بعد میں عوامی رد عمل کو من و عن حکومتی اداروں تک پہنچانا بھی صحافت کا ہی کام ہے تاکہ عوامی رد عمل دیکھتے ہوئے ان قوانین اور ان سکیموں کی عمل آوری میں وقتاً فوقتاً تبدیلی لائی جا سکے۔ یہ صحافت ہی ہے جو ایک عام انسان کو اظہار رائے کا وسیلہ فراہم کرتی ہے۔ جو ظلم و جبر اور زیادتی کے خلاف اپنے قلم اور اپنی زبان کے زریعے آواز بلند کرتی ہے۔ صحافت کی اہمیت اور افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی نے یہ شعر کہا تھا کہ۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو.
صحافی کی جہاں یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کے حوالے سے کسی بھی شخص کی رائے کو من و عن پیش کرے اور اپنی رائے دوسروں پر ٹھونسنے سے اجتناب کرے۔ وہاں معاشرے میں امن و سکون بنائے رکھنے میں بھی صحافت کا ایک اہم کردار رہتا ہے۔ معاشرے میں امن و سکون قائم کرنے کا سہرا صحافت کے ہی سر باندھا جاسکتا ہے. اتنا ہی نہیں کسی بھی صحافی خواہ وہ کسی اخبار کا مدیر ہو یا اس کے ہاتھ میں مائک اور کمیرہ ہو کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ زبان کی صحت کا خیال رکھے۔ اخبار میں کوئی ایسی سرخی نہ لکھے یا منہ سے کوئی ایسا جملہ نہ نکالے جس سے کسی بھی طرح کا انتشار پھیلنے کا کوئی بھی خطرہ ہو۔ صحافی کا کام رپورٹنگ کرنا ہوتا ہے نہ کہ فیصلہ سنانا۔ فیصلہ سنانا تو عدالتوں کا کام ہے۔
بد قسمتی سے موجودہ دور میں صحافت کے اصولوں کی سر عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ایک صحافی وکیلانہ انداز اپنایا ہوا۔ جس طرح سے وکیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے موکل کو بچائے چاہیے اس نے کچھ بھی کیا ہو۔ اس طرح سے آج کا صحافی اپنی رائے کا دفاع کرتا ہوا نظر آرہا ہے. اور آج کے اکثر صحافی حضرات غیرجانبداری کے اصول کو بھول ہی گئے ہیں۔ صحافی ایسے صحافت انجام دیتے ہیں جیسے کوئی عدالت فیصلہ سنا رہی ہو۔ سرعام لوگوں کو رسوا اور ذلیل کیا جارہا ہے۔ آئے دن لوگوں کے نجی معاملات کو سڑکوں کی زینت بنایا جارہا ہے۔ کبھی کسی کی ویڈیو، تو کبھی کسی کی تصویر یا کال رکارڑنگ سوشل میڈیا پر ڈال کر سر عام تماشہ بنایا جارہا ہے۔ معمولی اور غیر ضروری معاملات کو اہمیت دے کر ضروری اور انتہائی اہم نوعیت کے معاملات کو پس پشت ڈالا جارہا ہے۔ معاشرے میں انتشار پھیلایا جا رہا ہے۔ صحافت کا اصول ہے کہ کسی بھی طبقے، قوم، یا مذہب کے خلاف کوئی بھی ایسا لفظ یا جملہ استعمال نہ کیا جائے جس سے اس قوم، طبقے اور اس مذہب سے منسلک لوگوں کے جذبات مجروح ہوں۔ ایک شخص غلط ہوسکتا ہے نہ کہ پوری قوم۔ کسی بھی شخص کے ساتھ تب تک مجرم لفظ نہیں جوڑا جانا چاہیے جب تک کہ اس کا جرم ثابت نہ ہو۔ ایک صحافی کو اتنا تو سوجھ بوجھ ہونا چاہیے کہ کس مسئلے کو سر عام لانا ہے اور کسے نہیں۔ کیونکہ کبھی کبھی ایسے معاملات بھی پیش آتے ہیں جن پر پردہ ڈالنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ صحافت سے منسلک لوگوں کو ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہمیں اپنے قانون اداروں کی قابلیت پر پورا بھروسہ ہے۔ وہ اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں لیکن چند ایک صحافیوں کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی ادارہ موجود ہی نہیں ہے۔

آجکل ہر دس میں سے ایک شخص صحافی بنا ہوا ہے۔ نہ کسی خاص ترتیب کی ضرورت اور نہ ہی کسی سند کی حاجت۔ بس ہاتھوں میں مائک اور کیمرہ ہونا چاہیے۔ نہ اصولوں کی خبر اور نہ ہی ضابطوں کی پاسداری۔ نہ ہی قانون کا لحاظ اور نہ زبان کا صحیح استعمال۔سوشل میڈیا پر ایسے ایسے نمونے نمودار ہو گئے ہیں کہ اللہ ہی حافظ ہے۔ کچھ نہیں تو پھر بھی کوئی نہ کوئی ایسی پوسٹ شیر کر دیتے ہیں جس سے ایک با حس اور سنجیدہ انسان کو نہ صرف ذہنی کوفت ہوتی ہے بلکہ نئی نسل پر بھی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں
سوشل میڈیا پر آتے ہی انسان کو ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی میدان جنگ میں آیا ہو۔ ہر طرف سے شور فقط شور سننے کو مل رہا ہے۔ ہر طرف سی ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ دہشت کا ماحول بنایا جارہا ہے۔ صحافی چلا چلا کر اپنی رائے منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس انتشار کی شکار اگر چہ ہر طرح کی صحافت ہو گء ہے تاہم اخبارات اس انتشار سے کسی حد تک بچے ہوئے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اس انتشار کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ صحافی سوشل میڈیا پر مائک اور کیمرہ لے کر نمودار ہوتا ہے اور جو بات ایک منٹ میں کہی جا سکتی ہے۔ اس کی تمہید میں آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت صرف کیا جارہا ہے۔ اور آخر پر کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی بات ہوجاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اچھے صحافی موجود نہیں ہے ہاں مگر ایسے سنجیدہ، غیر جانبدار اور انصاف پرور صحافیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کسی بھی شخص کو مائک اور کیمرہ ہاتھ میں لینے سے پہلے دس دس بار سوچنا چاہیے کہ یہ آسان کام نہیں ہے بلکہ ایک صحافی بننا تیر دھار والی تلوار پر چلنے کے برابر ہے۔ شام کر گھر پہنچ کر کیا صحافی کو یہ خیال آتا ہوگا کہ آج اس کی مائک اور کیمرہ کی وجہ سے کتنے لوگوں کا بلا ہوا اور کتنے لوگوں کی عزت کا سرعام تماشہ بن گیا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صحافی برادری کی تربیت کا اہتمام کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ صحافی مائیک اور کمیرہ ہاتھ میں لینے سے پہلے صحافت کے اصولوں سے آگاہ ہوسکے۔ اس موضوع پر ابھی تک سیکنڈوں کتابیں لکھی جاچکی ہے۔ کاش صحافت سے منسلک لوگ کم سے کم ایک کتاب کا بغور مطالعہ کرتے اور صحافت کے اصول جان پاتے۔ تاکہ وہ غیر جانبدار اور شاندار رپورٹنگ کر سکے۔

میں ہاتھ جوڈ کر الیکٹرانک میڈیا سے منسلک لوگوں سے چند ایک گزارشات کرنا چاہوں گا
.. کسی ایسی بات یا ایسے واقعے کی تشہیر نہ کریں جس سے امن و سکون کی صورتحال بگڑنے کا خطرہ ہو۔
… کسی بھی چیر کی رپورٹنگ کرنے سے پہلے پوری تیاری کر لیں
کسی بھی شخص کے نجی معاملے کو سڑک پر لانے سے اجتناب کریں
.. غیرجانبداری اپنائیں اور کسی بھی صورت میں اپنی رائے ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں
.. الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں
. کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے دوسروں کو تکلیف ہو یا کسی کے جذبات مجروح ہوں
.. کم سے کم صحافت پر لکھی کسی ایک کتاب کا بغور مطالعہ کریں..
صحافت کو تجارت نہ بنائیں۔ بلکہ خدمت کے طور پر یہ کام انجام دیں.
… ہر بار لائو آنے سے اجتناب کریں۔ کیونکہ لائو کے بعد اس پر آپ کا اختیار نہیں رہتا ہے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا