شوشل میڈیا کا مثبت اور منفی کردار

0
0

محمد امین الرشید سیتامڑھی

اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اور عام طور پر ایک پہلو مثبت ہوتا ہے اور دوسرے میں کچھ منفی پہلو شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے ترقی کے ساتھ بھی یہ دونوں پہلو جڑے ہوئے ہیں۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی منکر نہیں ہو سکتا لیکن اس کے بھی کچھ منفی پہلو ہیں۔ ای میل، وہاٹس ایپ، ٹیلیگرام، فیس بک، انسٹا گرام ، یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا کے ذرائع اور ان سب ذرائع کے استعمال سے کوئی بھی شخص یا ادارہ اپنی بات کو جلدی ، ا?سان اور موثر طریقے سے دوسرے کے پاس پہنچا سکتا ہے۔ ان ذرائع کے جہاں زبردست فائدے ہیں وہیں اگر کوئی ان کا استعمال کسی غلط مقصد کے لئے کرے تو وہ بھی انتہائی خطرناک ہیں۔
میڈیا کی دو قسمیں ہے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا۔ یوں پرنٹ میڈیا سے منسلک افراد کو صحافی کہا جاتا ہے جو کہ مفہوم کے اعتبار سے نہایت ہی مقدس شعبہ ہے۔ صحافت کسی بھی معاملے میں تحقیق اور پھر اسے صوتی بصری اور تحریری شکل میں قارئین ناظرین یا سامعین تک پونچانے کے عمل کا نام بھی ہے شعبہ صحافت کے ویسے تو کئی اجزا ہیں لیکن ایک عام فہم میں جو خاص نکتہ صحافت سے منسلک ہے وہ عوام میں کسی بھی معاملے یا خبر کے حوالے سے اگاہی پیدا کرنے کے ساتھ معاشرے کو باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ثقافت کو بھی اجاگر کرنے کا کام بھی عمل ہوتا ہے۔صحافت معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کا تعاقب کرنا اور اسے بے نقاب کرنے کے ساتھ حکومتی اور نجی سطح پر کرپشن کا کھوج لگانا اور افسران کی غلطیوں سامنے لانا اور ا±ن کے بر±ے اقدامات پر گرفت کرنے کا عملی اقدام کا نام بھی ہے ساتھ ہی صحافت کہ یہ بھی ذمہ داری ہے کہ فرض شناس افسر کی حوصلہ افزائی کے ساتھ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے بھی کوششیں کریں۔یوں صحافت معاشرے کیلئے مفید بھی ہے اور مضر بھی،فائدہ مند بھی ہے اور نقصان دہ بھی۔ کیونکہ صحافت دراصل ایک انکشاف کا نام بھی ہے جو معاشرے رونما ہونے والے ہر مثبت اور منفی فعل پر مبنی ہوتا ہے۔صحافت معاشرے کو ظلمات اور تاریکی سے نکالنے اورنور اور روشنی کی طرف معاشرے کو رواں کرنے کا عمل بھی کہلاتا ہے۔ایک اچھی صحافت ہی کے ذریعے ایک انقلابی مقصد اور اس کے حصول کیلئے معاشرے کی فطری اور نظریاتی تربیت کی جاسکتی ہے۔کیونکہ صحافت معاشرے کی ذہنیت سازی کا بہترین طریقہ عمل ہے
حضرات گرامی!میڈیا، اس دور کا ایک عجیب وغریب انقلاب ہے۔اوریہ انقلاب ہرایک کی زندگی میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسانی زندگی اور معاشرہ کی تشکیل پر اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس نازک موڑ پر ار باب فکر وفن اور اصحاب سیم وزر پر، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میڈیا کے تمام شعبوں اور شاخوں کو، اور اس کے تمام وسائل کو دنیا میں صحیح دین کی صحیح اشاعت اور انسانیت کی رہبری، امن وسلامتی اور سماج کی ترقی اور ہر اچھے کام کے لیے مسخر کرلیا جائے۔ تاکہ نور وظلمت کے تصادم میں شیشہ ظلمت وضلالت پاش پاش ہو کر رہ جائے۔ حق کی حقانیت کے مقابلہ میں باطل کو اپنی پستی قامت کا نہ صرف احساس ہو؛ بلکہ حق کے سامنے باطل سرنگوں ہوجائے۔ اور دنیا میں کتاب وسنت کی ترویج کے ذریعہ ایک بار پھر امن کا ماحول قائم ہو جائے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا