شمس الرحمن فاروقی کے یوم ولادت 30 /ستمبر کے موقع پر قلم برداشتہ

0
0

 

 

 

 

 

 

ڈاکٹر انیس صدیقی

یاد نامہ
آج پچھلے پہر، چہل قدمی کے روزمرہ معمول کے مطابق موبائل کے الارم سے آنکھ کھلی۔عادتاً ایک اچٹتی نگاہ موبائل پر ڈالی، اسکرین پر تحائف اور گلدستے ڈیلور کرنے کی خدمات انجام دینے والی ایجنسی فرنس اینڈ پیٹلس کا ایک نوٹیفکیشن روشن تھا ، جس میں یاددہانی کرائی گئی تھی کہ ہر سال آج کے دن آپ اپنی محبوب شخصیت کو گلدستہ بھیج کر سالگرہ کی مبارکباد دیا کرتے ہیں۔نوٹیفکیشن میں اس شخصیت کا نام پدم شری شمس الرحمن فاروقی تھا۔اس نام کے اجاگر ہوتے ہی، آنکھوں میں نمی در آئی اوربصارت دھندلا گئی۔میں فرنس اینڈ پیٹلس کو کیسے بتاتا کہ تین برس بیت گئے میرے سب سے محترم، مربی، کرم گستر، ایک ایسے مقام کوچ کر گئے ہیں، جہاں تک رسائی ممکنات سے پرے ہے۔
سورج ابھی اگا نہیں ہے۔چہار جانب سرمئی، ملگجا اندھیرا ،لمحہ لمحہ، پرت در پرت مائل بہ سپیدی ہے۔چہل قدمی کرتے میں آگے کی جانب بڑھتا جاتا ہوں تاہم میرا ذہن یادوں کی روش پر پیچھے کی جانب گامزن ہے۔ذہن کے پردے پر برسوں قبل فاروقی صاحب سے ہوئی پہلی ملاقات کا منظر ابھرتا ہے۔انجمن ترقی اردو ہند کی دعوت پر فاروقی صاحب گلبرگہ تشریف لائے ہیں۔صبح گیارہ بجے انھیں جلسہ گاہ پہنچنا ہے۔میں اپنے چند مخلصین کے ہمراہ، ہوٹل کے کمرے کے باہری حصے میں ان کا منتظر ہوں۔چند ہی لمحے گزرتے ہیں، کمرے کا دروازہ کھلتا ہے۔ نہایت وجیہ، رعب دار ایسی شخصیت کا ورود ہوتا ہے، جسے صرف تصویروں میں دیکھا تھا، وہ اب مجسم میرے سامنے ہے۔سفید فل آستین کی شرٹ پر ہلکے براؤن رنگ کی چیکس والی صدری میں ملبوس، تبسم کناں چہرے کی جاذبیت میں اضافہ کرتی دبیز عدسوں والی عینک… مجموعی اعتبار سے پہلی نظر میں دل موہ لینے والا ظاہر… فرداً فرداً تعارف و مصافحہ ہو رہا ہے۔میں نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور اپنا نام بتایا۔انھیں میرے نام اور کم مایہ کام سے واقفیت ہے ۔خوش دلی سے مل رہے ہیں ۔جلسے کا وقت قریب آرہا ہے۔فاروقی صاحب ہمارے درمیان بیٹھے ہیں۔ناشتہ کررہے ہیں۔باتیں بھی ہو رہی ہیں۔قہقہے بھی لگ رہے ہیں۔فاروقی صاحب کے تبحر علمی، سنجیدگی و بردباری کا جو رعب داب میرے تصور پر سایہ فگن تھا، اسے بذلہ سنجی و خوش گفتاری نے کافور کردیا۔
اس منظر سے متصل دوسرا منظر میرے سوچ سمندر میں ڈوب، ابھر رہا ہے۔تنگ دامنی کی شکایت کرتا، سامعین سے کھچا کھچ بھرا، انجمن کا خواجہ بندہ نواز ایوان اردو ،فاروقی صاحب کی گلبرگہ میں مقبولیت اور محبوبیت کا ثبوت پیش کر رہا ہے۔توسیعی لکچر سے قبل پرستاران فاروقی، گل پوشیوں کے ذریعے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ناظم جلسہ نے جب میرے نام کا اعلان کیا تو میرے ہاتھوں میں پھولوں کا ہار نہیں بلکہ میری پانچ سالہ، شبانہ روز محنتوں کا حاصل، خوبصورت سرورق سے مزین ‘شب خون’ کے توضیحی اشاریے کا پندرہ سو صفحات پر مشتمل ٹائپ شدہ مسودہ ہے۔میں بڑے ادب سے یہ مسودہ ان کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔شاید فاروقی صاحب کے سان و گمان میں نہیں تھا کہ میں ان سے اپنی عقیدت و ارادت کا اظہار یوں کروں گا۔ان کے چہرے پر حیران کن مسرت عیاں ہے۔وہ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں اس اشاریے کے بارے میں سامعین کو کچھ بتاؤں۔علمیت و فضیلت کے کوہ گراں کے روبرو، مجھ جیسے ذرہ بے مقدار کی لب کشائی پر اصرار مجھے حواس باختہ کیے دے رہا ہے۔تاہم پاس داری حکم میں لڑکھڑاتی زبان سے چند باتیں ‘شب خون’ اور اشاریے کے تعلق سے کہیں اور دور سامعین کے درمیان نشست سنبھال لی۔
یادوں کا کارواں رواں دواں ہے۔دو ایک برسوں بعد حیدرآباد میں فاروقی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔’شب خون’کے اشاریے کی اشاعت کے سلسلے میں گفتگو کرنا مقصود ہے۔میرے ساتھ اس کا مسودہ ہے۔اس سے قبل کہ مقصد و مدعا پر گفتگو کا آغاز ہوتا، فاروقی صاحب مسودہ کی ورق گردانی کرنے لگتے ہیں ، پھر اپنی جیب سے سیاہ سیاہی والا پین نکال کے مسودہ میں در آئی اغلاط کی تصحیح میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔بڑی دیر تک ان کی یہ مصروفیت جاری رہتی ہے ۔پھر بتاتے ہیں کہ اس مسودہ کی باریک بینی سے پروف ریڈنگ کی ضرورت ہے۔اس ملاقات کے بعد اس مسودے کی اشاعت تک فاروقی صاحب نے ایک ماہر نگران کار کی طرح اس میں اتنی ترمیم اور اتنے اضافے کروائے کہ اللہ کی پناہ… لیکن اس سارے عمل میں مجھے اندازہ ہوا کہ فاروقی صاحب حد درجہ کاملیت پسند واقع ہوئے ہیں۔بالآخر شب خون کے توضیحی اشاریے کی اشاعت کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کی منظوری حاصل ہوئی۔تاہم بڑی مدت تک اس کی اشاعت التوا کا شکار رہی۔
اس دورانیے کا ایک اور واقعہ میرے خزینہ یادداشت سے نمودار ہو رہا ہے۔غالباً 2008 کی بات ہے۔کرناٹک اردو اکادمی بنگلور کے دفتر میں اراکین اکادمی کی میٹنگ جاری ہے۔صدر اکادمی نے، اکادمی کے زیر اہتمام گوپی چند نارنگ کے انٹرویوز کے مجموعے کی اشاعت کی تجویز پیش کی۔ظاہر ہے صدر اکادمی کی تجویز کو منظور ہونا ہی تھا۔لیکن میں نے بہ حیثیت رکن اکادمی ،جواباً یہ تجویز پیش کی کہ گوپی چند نارنگ کے ساتھ شمس الرحمن فاروقی کے انٹرویوز کو بھی اکادمی کے تحت شائع کیا جائے ۔رد و قدح کے بعد تجویز کی معقولیت کے سبب صدر اور اراکین اکادمی نے نہ صرف یہ تجویز منظور کی بلکہ مجھے ہی اس کی ترتیب و تدوین کی ذمہ داری تفویض کی۔یہ بات فاروقی صاحب کے گوش گزار کی تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مختلف رسائل اور کتابوں کی نشاندہی کی، جن میں ان کے انٹرویو شائع ہوئے تھے۔بڑی تگ و تاز کے بعد فاروقی صاحب کے 29 انٹرویو اکٹھا ہوئے،جنھیں اکادمی کی مالی اعانت سے ‘سو تکلف اور اس کی سیدھی بات’ کے عنوان سے شائع کیا گیا۔اس کام میں میرے شراکت دار ڈاکٹر رحیل صدیقی تھے، جنھوں نے اس سے پہلے فاروقی صاحب انٹرویوز کا ایک اور مجموعہ شائع کیا تھا۔
یادوں کی ڈور کھنچتی ہی جارہی ہے۔فاروقی صاحب سے متعلق ان دو کتابوں کے بعد اچانک خیال گزرتا ہے کیوں نہ فاروقی صاحب کی نثری نگارشات کا اشاریہ ترتیب دیا جائے۔یہ کار آسان اس لیے بھی نہیں کہ فاروقی صاحب نے صاف کہہ دیا تھا کہ اس ضمن میں، میں انھیں زحمت نہ دوں۔سینکڑوں رسائل اور کتابوں کی چھان پھٹک کے بعد یہ اشاریہ ‘علامتوں کے صحرا کا مسافر : شمس الرحمٰن فاروقی’ منظر عام پر آتا ہے ۔کئی اعتبار سے یہ اشاریہ دستاویزی اہمیت کا حامل ہے۔بالخصوص اس کتاب میں شامل ‘آئینہ خانہ حیات فاروقی’، فاروقی صاحب کے شخصی کوائف کا بھرپور اور مکمل احاطہ کرتا ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی دو وقیع و ضخیم کتابوں کے مرتبین نے اسے میری کتاب سے ڈائجسٹ کیا ہے۔
فاروقی صاحب سے متعلق یادوں کے سلسلے دراز ہیں۔ان تین کتابوں کے سلسلے میں فاروقی صاحب سے خط و کتابت کے ذریعے اور فون پر بارہا گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔اس کے ماسوا ان کی رحلت سے ایک ہفتہ قبل تک بھی، مہینے بھر میں دو ایک بار بات چیت معمولات کا حصہ رہی ہے۔نجی زندگی کی باتیں بھی شئیر ہوئیں ۔زبان و ادب سے متعلق میرے طالب علمانہ سوالوں کے جواب نہایت صبر و تحمل کے ساتھ، مشفقانہ انداز میں دیتے۔شاذ ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ انھوں نے میرا فون رسیو نہ کیا ہو۔کبھی ایسا ہوتا بھی تو بعد میں ضرور فون کرلیا کرتے۔انھوں کئی بار مجھ سے کہا کہ میں ان کے لکھے اور ان کے نام آئے خطوط کو زمانی اعتبار سے ترتیب دوں۔اس کام کو انجام دینے، وہ مجھے الٰہ آباد آنے کا مشورہ دیا گیا۔شومئی قسمت کہ باوجود شدت سے چاہنے کہ یہ نہ ہو سکا۔
فاروقی صاحب کی عظیم المرتبت شخصیت نے میری سوچ و فکر کی تعمیر تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔وہ علم دوستی، پیہم محنت، رجائی انداز فکر، عجز و انکسار، شائستگی و متانت، ایثار و مروت، اخلاص و اخلاق کی تجسیم تھے۔یہی وجہ ہے کہ یگانہ روزگار شمس الرحمن فاروقی کی اس جہان بے ثبات سے رخصتی پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل سوگوار ہوا۔تاہم ان کے قدموں کے نشان آنے والی نسلوں کے لیے خضر راہ ثابت ہوں گے۔
فاروقی صاحب سے وابستہ یادوں کا ایک سیل رواں ہے۔اسے سمیٹنے کی استعداد نہ مجھ میں ہے، نہ میرے قلم میں… چہل قدمی جہاں جسم کے تھکنے کا احساس دلا رہی ہے، وہیں فاروقی صاحب کی یادوں نے میرے ذہن کو ملول و مضمحل کردیا ہے۔اللہ رب العالمین کے حضور دست بستہ، عمق دل سے فاروقی صاحب کی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہوئے ان کی یادوں کے باب کو مسدود کرتا ہوں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا