بینام گیلانی
تاریخ شاہد ہے کہ اسلام اور اہل اسلام کے دنیا میں سب سے بڑے دشمن یہود و نصارٰی ہی ہیں۔اس کا خاص سبب یہود کی جدید کتاب یا یوں کہ لیا جائے کہ تصرف شدہ کتاب ہے۔جسے ساری دنیا "تورا” کے نام سے جانتی ہے۔چونکہ یہ تورا کوئی صحیفہ نہیں ہے۔بلکہ مخلوق کی خلق کردہ تخلیق ہے جسے ایک مقصد کے حصول کے لئے خاص طور پر خلق کیا گیا ہے۔یہ وہ قوم ہے جس کے سر پر کئی انبیا کے قتل کا الزام اور کئی انبیا کے قتل کی سازشیں رچنے کا الزام ہے۔اس کے ہاتھوں بظاہر قتل ہونے والوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام بھی ہے۔گو کہ حقیقتاً آپ کا قتل نہیں ہو سکا۔در پردہ آپ کو اللہ کی جانب سے محفوظ طور پر آسمان پر اٹھا لیا گیا اور آپ کے ایک ہم شکل کو صلیب پر چڑھا دیا گیا۔اس لحاظ سے عناد تو یہود و نصارٰی کے درمیان ہونی چاہئے تھی۔کیونکہ یہودیوں نے اپنے طور پر تو نصاریٰ کے نبی کو مصلوب کر دیا تھا۔لیکن اسے کیا کہا جائے کہ آج یہود و نصارٰی ایک قالب دو جان بنے بیٹھے ہیں۔اب نہ نصاریٰ کو یہ یاد رہا کہ یہودیوں نے ان کے پیغمبر کو مصلوب کیا تھا اور نہ ہی یہودیوں کو یہ یاد رہا کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔در اصل نصاریٰ اس قدر تعلیم و ترقی یافتہ ہو گئے ہیں کہ ان کی نگاہ میں مذہب کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہ گئی ہے۔وہ اس قدر مادیت پرست ہو چکے ہیں کہ ان کی نگاہ میں زر و سیم ہی خدا کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔اس کا زندہ و تابندہ ثبوت موجودہ یہود و نصارٰی کی دوستی ہے۔۔جبکہ نصارٰی کو چاہئے تھا کہ یہودیوں سے ہر ہر قدم پر انتقام لیتے کہ انہوں نے ان کے نبی کو مصلوب کیا تھا۔۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب انسان کی نگاہوں میں دنیا اور دنیا داری کی اہمیت گھر کر جاتی ہے تو اسے فکر مذہب تو دور فکر آخرت ذرہ برابر بھی نہیں ہوتی ہے۔کیونکہ کسی کے پاس نہ فکر آخرت کے لئے فراغت ہے اور نہ ہی اسے اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔اس کے لئے تو بس دنیا ہی دنیا سب کچھ ہوتی ہے۔جب انسان کو آخرت کی حقیقت پر ہی ایمان نہ ہو تو اس کے دل میں مذہبیت کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی یے۔چنانچہ آج یہود و نصارٰی دو قالب ایک جان ہوئے بیٹھے ہیں۔
چلئے عیسیٰ علیہ السلام کا واقعہ تو ماضی بعید کا ہے۔بعد ازیں دونوں اقوام ہی کئی نشیب و فراز سے گزری ہیں۔کئی طوفان حوادث سے دوچار ہوئیں،کئی مشکل و مسائل سے نبرد آزما ہوئیں۔لیکن یہ بھی ایک بلا تردید حقیقت ہے کہ اتنا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی یہودیوں کے فکر و خیال اور فطرت و جبلت میں کسی قسم کی بھی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اپنی ازلی فطرت کے مطابق اس نے بیسویں صدی کی ساتویں دہائی یعنی 22نومبر 1963میں بھی خود کے غیر اعتماد و غیر اعتبار ہونے کا ایک ایسا ثبوت پیش کر دیا جس سے ساری نصاریٰ قوم انگشت بدنداں اور سہم کر رہ گئی۔مزکورہ بالا تاریخ کو یہودیوں نے امریکہ کے سب سے جواں سال صدر مملکت جیف کینیڈی کو گولی مروا دی۔گو کہ یہ قتل معاصر دور تک متنازع بنا ہوا ہے۔وہاں کی حکومت اس معاملے میں حتمی فیصلے تک آج بھی نہیں پہنچ پائی ہے کہ گولی کس نے چلائی تھی۔کچھ لوگوں کا یہ بھی قول ہے کہ خود امریکہ کے ایوان میں بیٹھے افراد نے ہی جیف کینیڈی کا قتل کروایا ہے۔یہ سارے شبہات یہودیوں کے غلط پروپیگنڈے کے ماحصل تھے۔ یہودی نہیں چاہتے تھے کہ یہ ثابت ہو سکے کہ جیف کینیڈی کا قتل یہودیوں نے کروایا ہے۔تاکہ امریکہ اور اسرائیل کے مابین جو تعلقات قائم ہیں وہ کسی بھی طرح متاثر ہوں۔ امریکہ ہر قدم پر غلامانہ طور سے اس کی حفاظت کے لئے ہمہ اوقات دل و جان سے آمادہ رہا۔یہودیوں کو یہ بھی اندیشہئ لاحق تھا کہ اگر اس قتل کی حقیقت طشت از بام ہو گئی تو دیگر عیسائی ممالک بھی ان سے برہم ہو جائیں گے۔چنانچہ ان لوگوں نے اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس قتل کے واقعہ کو مشتبہ و متنازعہ بنا دیا۔اس کریح جرم میں خود امریکہ کے کچھ صاحبان ایوان کی شمولیت بھی عمل پزیر تھی۔یہی سبب ہے کہ اس قتل کے درپردہ راز کی نقاب کشائی آج تک ممکن نہیں ہو سکی۔عصر حاضر تک یہ قتل معمہ ہی بنا ہوا ہے اور اس کے حقائق آج تک سربستہ ہی رہے۔گرچہ اس حقیقت کی پردہ پوشی کی مختلف دور میں مختلف قسم کی داستانیں بھی گڑھی گئیں۔اس قتل کے سلسلے میں کئی کتب خلق ہوئیں۔لیکن وہی نتیجہ اخذ ہوا۔چلئے اس موضوع کو زیادہ طول دینے کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ناچیز کے کہنے کی غرض غایت یہ ہے کہ جس نصاریٰ نے یہودیوں کا ہولوکاسٹ کیا۔جس نصاریٰ نے یہودیوں کو ملک بدر کر کے در بدری کو مجبور کیا۔فی زمانہ وہی نصارٰی یہودیوں کا چہتا بنا ہوا ہے۔پھر جس یہودی نے نصاریٰ کے ساتھ پیہم فریب کیا آج وہ یہودی نصاریٰ کا چہتا ہے۔آج دونوں ہی دو قالب ایک جان بنے ہوئے ہیں۔اسے مسلمانوں کی شومء تقدیر ہی کہا جا سکتا ہے کہ جس بے سہارا یہودی کو اہل اسلام یعنی فلسطینیوں نے نہ صرف پناہ دی بلکہ کفالت کے ذرائع بھی فراہم کئے۔اسکول کالج فراہم کئے تاکہ یہ پڑھ لکھ کر ایک مہذب قوم میں تبدیل ہو سکے۔کسے معلوم تھا کہ جن فلسطینیوں نے یہودیوں کیلئے اتنی قربانیاں دیں وہی یہودی احسان فراموش ہو کر ان ہی فلسطینیوں کی گردن زدنی پر آمادہ ہو جائے گا۔یہ سب اہل مغرب کی سازشوں کے تحت عمل پزیر ہو رہا ہے۔کیونکہ اہل مغرب کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر یہودی فلسطین سے نکلے تو وہ راست طور پر مغرب کا رخ کریں گے۔اہل مغرب کو یہ علم ہے کہ یہود جہاں بھی رہیں گے۔وہی فتنہ و فساد برپا کرتے رہیں گے۔اس کی بالکل تازہ مثال حالیہ دنوں میں ملک امریکہ کے کیلی فورنیا شہر میں نظر آئی۔جہاں یہودیوں کی اچھی خاصی ابادی ہے۔یہودی وہاں اپنی ایک عبادت گاہ کے نیچے سرنگ بنائے تھے جس میں بڑے پیمانے پر اسلحہ تیار کیا جاتا تھا۔اس راز کو ذرائع ابلاغ والوں نے بالکل ہی دبا دیا۔لیکن امریکہ میں داخلی طور پر اس کے خلاف کاروائی چل رہی ہے۔یہ حق ہے کہ ذرائع ابلاغ والے اسے دبائے بیٹھے ہیں لیکن حقیقت کو بالکل ہی چھپا لینا ممکن نہیں ہے۔خصوصی طور سے اس ملک میں جہاں جمہوریت ہے اور حزب مخالف موجود ہو۔۔چنانچہ دبانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود یہ راز راز نہ رہ سکا اور امریکہ کے عوام ہی نہیں بلکہ حقیقت پسند اخبارات میں بھی اس کی خبر شائع ہو گئی۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہود کے تمام حقائق سے واقف کار ہونے اور فریب کھا نے کے بعد بھی وہی امریکہ اسی یہود سے وفاداری نبھاتے ہوئے مسلمانوں سے دشمنی پر آمادہ ہے۔
یہ کیسا حیرت انگیز امر ہے کہ امریکہ کو تجارت کے لئے مسلم ممالک نظر آتے ہیں جہاں سے وہ بہت بڑی بڑی رقم وصول کرتا ہے۔امریکہ کا سب سے بڑا اسلحہ کا خریدار سعودی عرب اور یو اے ای ہے۔یہ ایسے خریدار ہیں جنہیں امریکہ نئے اسلحہ کے نام پر اپنا پرانا زنگ آلود اور بیکار پڑا اسلحہ بھی دے دیتا ہے اور وہ ممالک بخوشی قبول بھی کر لیتے ہیں۔کیونکہ انہیں صرف تعداد دیکھنا آتا ہے معیار نہیں۔وہ معیار دیکھ کر بھی کیا کریں گے جبکہ ان میں امریکہ کے خلاف لب کشائی کی ہمت ہی نہیں ہے۔انہیں تو اسی بہانے امریکہ کو خراج ادا کرنا ہے۔موجودہ امریکی صدر جو بائڈن کے پیش رو ڈونالڈ ٹرمپ نے واضح طور پر کہ دیا تھا کہ میں جن ممالک کی حفاظت کرتا ہوں انہیں اس حفاظت کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔سو اسلحہ دینے کی بہانے وہ خوب خوب قیمت وصول رہا ہے اور زنگ آلود نیز بیکار اسلحہ لے کر نادان اور خوفزدہ یو اے ای اور سعودی حکمران رقص مسرت فرمانے میں مست ہو جاتے ہی۔یہ ایک بلا تردید حقیقت ہے کہ یہود و نصارٰی کبھی بھی کسی بھی قیمت پر کسی بھی مسلم ملک کو مضبوط و مستحکم ہوتا نہیں دیکھ سکتے ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ امریکہ کی عقابی نگاہ مسلم ممالک کی دولت پر مرکوز ہے۔لیکن یہ نادان سربراہان یو اے ای اور مملکت سعودی عرب تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اہل مغرب کی غلامی میں ہی حفظ تخت و تاج ممکن ہے۔ناچیز کے خیال سے اس طرح یہ کفر تو کفر شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں۔کیونکہ اصل حافظ تو رب عز و جل ہے۔
آج کی دنیا تو مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار ہے۔لوگ خون خرابہ اور نسل کشی کو راہ دئے ہیں۔جیسا کہ امریکہ نے پہلے عراق و افغانستان و لبیاکے ساتھ کیا۔متذکرہ بالا تینوں ممالک بہت برق رفتاری سے ترقیاتی منازل طئے کر رہے تھے۔حربی طور پر بھی کافی مستحکم ہو رہے تھے۔لبیا تو نکولیائی بم بنانے کے قریب پہنچ گیا تھا۔مسلمانوں کی یہ ترقی اہل مغرب کو کبھی نہیں بھائی۔کیونکہ اہل مغرب خصوصاً امریکہ و انگلینڈ اس معاملے میں مسلم ممالک سے خوفزدہ ہیں کہ اگر یہ مستحکم ہو گئے تو ہمارری بات کون سنے گا۔ہماری غلامی کون کرے گا اور ہمیں خراج کون دے گا۔انجام کار دنیا سے ہماری چودھراہٹ ختم ہو جائے گی۔یہی سبب ہے کہ اہل مغرب کسی بھی مسلم ملک کو نکولیائی طاقت کی شکل میں دیکھنا نہیں چاہتے۔یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ پاکستان نے کسی طرح چوری چھپے نکولیائی بم بنا لیا۔یہی سبب ہے کہ آج بھی پاکستان اپنی سہی ہیت میں نظر آ رہا ہے۔ورنہ یہ کب کا مختلف حصوں میں تقسیم ہوا رہتا یا 1914کے بعد ہندوستان نے اسے ہڑپ لیا ہوتا۔جب تک ذوالفقار علی بھٹو مرحوم وزیر اعظم پاکستان رہے۔موصوف نے امریکہ کی غلامی اس طرح قبول نہیں کی جس طرح دور حاضر کے حکمرانوں نے قبول کر رکھی ہیں۔اب تو پاکستان کا نکولیائی بم بھی خطرے میں ہے۔ کیونکہ امریکہ کے اشارے پر کسی بھی وقت وہ پاکستان ہی کی سرزمین پر بلاسٹ ہو سکتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ فی زمانہ جو وہاں کے حکمران ہیں وہ امریکہ کے زرخرید غلام ہیں۔امریکہ ہی نے عمران خان کو معزول کروایا ہے اور انہیں بٹھایا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو یہ کہتے تھے کہ یہ پاکستانی نکولیائی بم صرف پاکستانی نہیں ہے بلکہ اسلامی ہے۔جب بھی کسی مسلم ملک کو اس کے استعمال کی ضرورت درپیش ائی۔پاکستان اپنا ملی فریضہ ضرور بالضرور نبھائے گا۔ فلسطین پر یہود و نصارٰی اپنی حیوانیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور پاکستان کے حکمرانوں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی ہے۔یہ ہے ان کی ملی بیغیرتی۔
دوسری جانب مسلمانوں میں مسلکی جنگ ابھی بھی پورے شباب پر ہے دشمنان اسلام ملت اسلامیہ کے مکمل خاتمے کے متمنی ہیں۔یہ اہل مغرب بھی یوں تو داخلہ طور کئی فرقوں میں منقسم ہیں۔لیکن جب دوسرے مذاہب سے جنگ کی بات ہو تو یہ لوگ اپنے مسلکی اختلافات کو فراموش کر کے مشترکہ طور پر دوسرے مذاہب کے علمبرداروں پر یلغار بول دیتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ اہل مغرب اس قدر مضبوط و مستحکم ہیں۔لیکن مسلمانان کو باہمی اختلافات ہی نہیں جنگ و جدال سے ہھی فرصت نہیں ہے۔اس کی زندہ مثال فی زمانہ ایران و پاکستان کے مابین جاری جنگ ہے۔اہل مغرب یہ چاہتے ہیں کہ اسلام اہل اسلام کے ہاتھوں ہی مٹ جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اہل مغرب پاکستان،سعودی عرب اور یو اے ای کو بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔متذکرہ بالا تینوں مسلم ممالک عین اسی طرح امریکہ کی اولاد نرینہ بنے ہوئے ہیں جس طرح اسرائیل۔لیکن شاید ان تینوں مسلم ممالک اس امر کو فراموش کر گئے ہیں کہ بلے سے نام نہاد کے لئے ہی آپ بھی مسلمان ہی ہیں۔پھر آپ ہی کی دولتوں پر امریکہ کے باہم بیشتر مغربی ممالک کی غاصبانہ نگاہ مرکوز ہے۔ویسے یو اے ای کے بادشاہ وقت سے ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ آپ کے اسلاف اونٹوں کی سواری کرتے تھے۔اپ بیش بہا گاڑیوں کی سواری کرتے ہیں۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کی آئندہ کی نسل کون سی سواری کریگی۔اس پر اس بادشاہ نے جواب دیا پھر اونٹوں کی سواری کریگی۔اس کا معنی ہے کہ وہ حلات و معاملات سے واقف ہیں۔تاہم کچھ تو مجبوریاں یقینی ہیں۔
بہر کیف ناچیز کے کہنے کی غرض غایت یہ ہیکہ ایک جانب یہود و نصارٰی بڑی ہی بیشرمی سے مسلمانوں کی نسل کشی کئے جا رہے ہیں تو دوسری جانب آل سعود اور شاہ یو اے ای ان ہی یہود و نصارٰی کی جوتیاں چاٹے جا رہے ہیں۔ایک ہم ہیں کہ ایسے ہی ملت فروشوں سی امیدیں وابستہ کئے ہیں۔
benamgilani@gmail.com