شخصیت پرستی ہی بت پرستی اور شرک کی ابتدا ہے

0
0

۰۰۰
محمد امین اللہ کولکتہ
۰۰۰
سب سے پہلے پیغمبر تھے آدم شفیع۔ ثیث کو بعد ان کے نبوت ملی۔ تمام انبیاء کرام اور رسولوں نے وحدہ لا شریک یعنی لا الہ الااللہکی دعوت دی اور شیطان مردود نے اولاد آدم کی دشمنی میں لوگوں کو شرک کی جانب بلایا۔ اس نے یہ مکاری براہ راست نہیں کیابلکہ کسی نہ کسی برگزیدہ شخص کی شہرت ، اور عوامی مقبولیت اور ان کے حوالے سے عقیدت کو لوگوں کے دلوں میں اس قدرگلو سے کام لیا کہ لوگ اس شخصیت کو اپنی دنیاوی اور اخروی کامیابی کا ذریعہ یا وصیلہ سمجھنے لگے۔
بت پرستی کی ابتدا کیسے ہوئ۔
دنیا میں آج بھی ایسی قومیں بڑی تعداد میں ہیں جو خدائے واحد کی ذات کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش میں مبتلا ہیں، بت پرستی ا نسنگین جرائم میں سے ہے جسے حق تعالی کبھی بھی معاف نہیں فرمائیں گے، حق تعالی دیگر گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف کر سکتے ہیں؛ لیکن بت پرستی اور شرک و کفر کو بغیر توبہ کے ہرگز معاف نہیں فرمائیں گے۔
مختلف قومیں مختلف قسم کے بتوں کی پوجا کرتی ہیں اور ان کے پوجنے کی نوعیت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، ہرایک کا طرز عبادت جدا ہوتا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں بت پرستی کی ابتدا کیسے ہوئی اور سب سے پہلے بت پرستی کس نے شروع کی؟
بت پرستی کا آغاز کیسے ہوا اس کے متعلق جاننے سے قبل یہ جان لیں کہ بت پرستی کیا ہوتی ہے۔
بت پرستی کیا ہے؟
بت پرستی میں لوگ کسی شخص یا شی کی ظاہری شکل و صورت لکڑی، دھات، پتھر یا مٹی وغیرہ سے بناکر اسے معبود گردانتے
ہیں اور اسے اپنا حاجت روا، مشکل کشا اور خدا سمجھتے ہیں، اس کو راضی کرنے کے لیے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں۔
بت پرستی کی ابتدا کب ہوئی؟
اب ہم سوال کے اصل جزئیے کی طرف آتے ہیں کہ بت پرستی کی ابتدا کب ہوئی؟
بت پرستی کی تاریخ بہت قدیم ہے، اور اس کی ابتدا اس طرز پر ہوئی کہ نوح علیہ السلام کی قوم کے جو نیک اور صالح افراد تھے لوگ ان کی وفات کے بعد بطور یادگار ان کی مورتیاں تراش لیتے تھے اور ان بتوں کو اپنے بزرگوں کا نام دے دیتے تھے؛ مثلاً ود شواع یعوق اور نسر ،لیکن ان کی عبادت نہیں کرتے تھے، پھر رفتہ رفتہ لوگوں میں جہالت و بیدینی عام ہوتی گئی اور لوگوں نے ان مورتیوں کو معبود کا درجہ دینا شروع کر دیا اور یوں بت پرستی کی ابتدا ہوئی۔
چناں چہ بخاری شریف میں روایت موجود ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کی جب وفات ہو گئی تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھتے تھے ان کے بت نصب کر دیں، اور ان بتوں کے ناماپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ دیں؛ چناں چہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا؛ البتہ اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی؛ لیکن جب وہ وگ بھی مر گئے جنھوں نے بت بنائے تھے اور لوگوں میں علم باقی نہ رہا تو انھوں نے ان بتوں پوجنا شروع کر دیا۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 4920)
اس روایت سے معلوم کہ بت پرستی کی ابتدا اور آغاز حضرت نوح علیہ السلام کی قوم سے ہوا۔
جزیر میں عرب سب سے پہلے بت پرستی کس نے کی؟
جزیرۃ عرب میں بت پرستی کی ابتدا کرنے والے کا نام ’’ عمرو بن عامر بن لح الخزاعی‘‘ ہے، چناں چہ اس کے متعلق حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد بخاری شریف میں نقل کیا گیا ہے:
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے عمرو بن عامر بن
لح? الخزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی اینتڑیاں گھسیٹ رہا تھا، اور وہ پہلا شخص ہے جس نے سائبہ کی رسم نکالی۔
سائبہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے وہ اپنے معبودوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور نہ اس پر بوجھ لادتے ہیں اور نہ سواری
کرتے ہیں۔
عرب میں بت پرستی کی ابتدا کس نے کی؟
عمرو بن لحی الخزاعی نے ایک دفعہ ملک شام کا سفر کیا تو انھوں نے وہاں کے لوگوں کو بت پرستی میں مبتلا دیکھا اور چوں کہ ملک شام انبیا علیہم السلام کی سرزمین تھی؛ چناں چہ اس نے بت پرستی کو دینِ حق سمجھ کر اختیار کر لیا اور اپنے ساتھ ہبل بتلیکر آیا اور اسے خان کعبہ کے اندر نصب کر دیا، اہل مکہ عمرو کو اپنا پیشوا سمجھتے تھے؛ لہذا اس کی پیروی میں انھوں نے بھی
اس بت کی پوجا شروع کردی، اور پھر بت پرستی میں ترقی ہوتی گئی اور ایسا دور بھی آیا کہ خان کعبہ میں جو اللہ کا گھر ہے تین سو ساٹھ بت رکھ دیے گئے۔
ابراھیم علیہ السلام کا زمانہ بھی بت پرستی اور ستاروں کی پرستش کا زمانہ تھا۔ روایت میں آتا ہے کہ ابراھیم علیہ السلام کا باپ،
آذر سب سے بڑا مذہبی پیشوا تھا اسی کے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش ہوا کرتی تھی۔ آپ کے زمانے میں کہیں بھی وحدہْ لا شریک کی عبادت نہیں ہوتی تھی۔ خود نمرود خدا بن بیٹھا تھا۔ قرآن مقدس میں ابراھیم علیہ السلام کی حق کی جستجو کا واقع بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح ابراھیم علیہ السلام پہلے قطب ستارے بعد میں چاند اور آخر میں سورج کو معبود سمجھا مگر
ڈوب جانے کے بعد آپ نے جو کلمات ادا کیئے وہ یہ ہیں۔; میں نے تو پوری طرح اپنا رخ اس ذات کی جانب کر لیا جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ سور الانعام۔ 79
دراصل شیطان کا مشن یہ ہے کہ وہ انسان کو رب کی پرستش سے نکال کر غیر اللّٰہ کی پرستش میں لگا دے۔ زمانہ قدیم سے ندوستان بت پرستی کا مرکز رہا ہے اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ اک ارب سے زائد ہندو اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ دیو مالائی داستانوں کی قصے کہانیوں پر مشتمل عقل سے ماورا مذہبی داستانیں ہیں اور دنیاوی تعلیمات کے اعلیٰ درجے کا ہندو بھی بندر ، سانپ ، چوہے اور پتھر کی مورتیوں کے علاوہ شیو بھگوان اور پاروتی کے شرم گاہوں ی پوجا کرتے ہیں۔ اب تو ہر آئے دن شعبدہ باز شخصیات کو بھگوان سمجھ کر پوجا شروع کر دی جاتی ہے۔ حتیٰ کے مشہور اداکار امیتابھ بچن کی پوجا شروع ہوگئی ہے اور اس کے نام سے ممبئی میں مندر بھی بنا لیا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں تو تمام مشہور
اداکار اور اداکاراؤں کی پوجا ہوتی ہے۔ سناتن دھرم کی وید کی کتابوں ، رگ، سا م ، اتھرو اور چتر وید میں کہیں بھی مورتی پوجا کا کر نہیں ہے بلکہ اس سے منع کیا گیا ہے۔ نیز بھگوان یعنی تخلیق کائنات کرنے والے کو پرماتما اور نرنکار کہا گیا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
اللّٰہ نے قرآن مجید میں شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے اور ناقابلِ معافی گناہ ہے۔ اللّٰہ کا ذاتی نام صرف اللّٰہ ہے باقی تمام 99 نام صفاتی نام ہیں۔ جب ان ناموں کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اللّٰہ ،خالق کائنات کے سوا کوئی نہ معبود ہے او ر نہ کسی کو اپنی ذاتی اختیارات حاصل ہیں۔ بندے کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللّٰہ کی بخشی ہوئی ہے۔ اور وہ جب چاہتا ہے سلب کر لیتا ہے۔
بت پرستی کی ابتداء کسی بھی حوالے سے شروع ہوتی ہے۔کسی شخص کی شہرت ، مقبولیت کی وجہ سے لوگ اس کی قدر و
منزلت کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے محبت و عقیدت میں اس قدر مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اس کی ہر بات پر یقین کرنا شروع کر دیتے
ہیں اور اس کو اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کا یا تو وسیلہ بنا لیتے ہیں یا پھر خود کو اسے با اختیار سمجھ کر اس کے سامنے
یا پھر ان کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔
یہی بات مشرکان مکہ کہا کرتے تھے کہ یہ بت ہماری سفارش کرتے ہیں ان کی سفارش کے بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
سور? البقرہ کی آیت 186 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اگر میرے بندے میری متعلق پوچھیں تو کہہ دو
کہ میں ان کے شہہ رگ کے قریب ہوں اور ان کی پکار سنتا ہوں۔ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بت پرستی کی نفی اور بت
پرستوں کو جہنم کے عذاب الیم سے ڈرایا گیا ہے۔
مشرکان مکہ نے اپنے تمام بتوں کا کسی نہ کسی طرح کا رشتہ اللّٰہ سے جوڑ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
یہ پوچھنے آئے کہ آپ جس اللّٰہ واحد کی پرستش کا کہتے ہیں اس کا کیا رشتے ہیں۔ تو اللّٰہ نے سورہ اخلاص نازل فرمائی۔
قل ھو اللّٰہ احد ہ اللّٰہ الصمد ہ لم یلد ولم یولد ہ ولم یکن الہ کفو ا احد ہ۔
کہہ دو کہ اللّٰہ اک ہے۔ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ نہ اس نے نہ کسی کو جنا ہے نہ اس کو کسی نے جنا ہے۔ اس کے اقتدار اور
اختیار میں کوئی شریک نہیں ہے۔ یہ اللّٰہ وحدہْ لا شریک اور قرآن کی سورتوں میں معبود الٰہی ہونے کا خلاصہ ہے۔
اللّٰہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی وہ علیم بھی ہے اور خبیر بھی۔ وہ رحمان بھی ہے رحیم بھی۔ ستار بھی ہے اور غفار بھی اور
باغیوں اور مشرکین کے لئے قہار اور جبار بھی ہے۔
ان اللّٰہ بصیر با لعباد۔ وہ وہ اپنے ہر بندے کو دیکھ رہا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت کا عالم یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو
کے پانی کو اصحاب اپنے چہروں پر مل لیا کرتے تھے۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ نے فرمایا کہ جب تم کسی محفل میں بیٹھے ہو اور
کوئی قابل احترام شخص آئے تو کھڑے نہ ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص جو تم سے رتبے میں چھوٹا ہو اور تمہاری تعریف تمہارے منہ پر کرے تو اس
کے منہ میں خاک۔
مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑوں کو حکم دیا کہ چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحابِ رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کو خطابات سے نوازے۔ ابو بکر کو صدیق کا لقب ، خالد بن ولید کو سیف اللہ کا خطاب ، عبیدہ بن الجراح کو امین
الامت کا لقب عطا کیئے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس معاملے میں بہت زیادہ حساس تھے۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے
بعد اصحابِ رسول پر تو غشی طاری تھی۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جب آپ کی رحلت کی خبر ملی تو آپ تلوار لے کر
نکل گئے اور کہا کہ خبر دار اگر کسی نے یہ کہا کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جدا ہو گئے تو میں اس کی گردن مار
دوں گا۔ یہ تھی محبت کا عالم مگر اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں نے جب اس کھجور کے درخت سے
عقیدت شروع کر دی جس سے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر ٹیک لگا کر بیٹھے تھے عمر فاروق
رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسے اکھاڑ کر پھینک ہی نہیں بلکہ جلوا دیا۔ آپ نے لکڑی کے اس ممبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کو
جلوا دیا کہ کہیں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت میں اس قدر آگے نہ بڑھ جائیں اور ان کی پرستش شروع ہو جائے
جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر خطبہ دیا کرتے تھے۔۔ آپ اک مرتبہ طوافِ کعبہ کے دوران سنگ اسود کے سامنے کھڑے
ہوکر اپنی تلوار نکالی اور کہا کہ اے سنگ اسود میں اس لیئے تم کو بوسہ دیتا ہوں کہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو
بوسہ دیا ہے ورنہ تیری حیثیت اک پتھر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آج بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال کی بہت ساری مقدس
اشیائ ترکی کے توپ کاپی کے عجائب گھر میں اور دنیا کے دیگر ممالک میں محفوظ ہیں جس میں آپ کی گیارہ تلواریں ، جبہ مبارک
، نالین ، اور موئے مبارک و دیگر مقدسات ہیں جن کی زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ لیکن یہ عقیدت و محبت نسبت رسول
صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ کہ آپ کی پرستش سے
شرک کے مختلف عنوانات ہیں۔ نظام باطل کے علم برداروں سے محبت و عقیدت ، نظام باطل کے زیر انتظام ہنسی خوشی سے
راضی سے زندگی بسر کرنا ، اگر مجبوری کے تحت کچھ نہیں کر سکتے تو اس کی مذمّت کرنا ، دل میں برا سمجھنا یا پھر اس کے
خلاف جدو جہد کرنے والوں کا ساتھ دینا اگر یہ نہیں کر سکتے تو شرک کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ مسلمانوں سے براہ راست بت
پرستی کا ارتکاب تو نہیں ہوتا مگر مسلمانوں کے مختلف مسالک اور فرقوں میں ولیوں ، اصحاب اور بزرگانِ دین کے حوالے سے
عقیدت میں گلو کی وجہ سے ان کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا بنا لیا ہے جو کھلا شرک ہے۔ مزاروں کو سجدہ گاہ اور مدفون
شخصیات کو وسیلہ بنا کر ان سے حاجت روائی کی فریاد شرک کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اہل تشیعہ میں تو کچھ فرقوں نے حضرت
علی کرم اللہ وجہہ کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے۔ اسی طرح اہل سنت میں بھی اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو باطنی طور پر
اللّٰہ اور آپ کے درمیان م کا پردہ تصور کرتے ہیں بلکہ کچھ جہلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ میں اللّٰہ کو حلول کر نے
کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح اولیا اللہ سے خرقہ ادات کرشموں کو فرضی کہانیوں کے طور پر پیش کرکے اللّٰہ کی صفات و
اختیارات میں دخیل قرار دیتے ہیں۔
اسلام آنے سے قبل الہامی کتابوں کے ماننے والے یہود ونصاریٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اللّٰہ کا بیٹا بنا دیا اور عیسائیوں نے
عیسیٰ کو اللّٰہ کا بیٹا بنا دیا اور تثلیث کے پرستش شروع کر کے کھلے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ زرتشت آگ کی پوجا ، بودھی
بدھا کی پوجا اور ہندو ہزاروں لاکھوں دیوی دیوتاؤں اور جانوروں اور شجر و حجر کی پرستش کر رہے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر اللّٰہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک اک لاکھ چوبیس ہزار انبیائ کرام اور رسولوں
نے صرف اور صرف وحدہْ لا شریک کی عبادت اور اپنی پیروی اور فکر آخرت کی دعوت دی ہے۔ مگر آج دنیا بھر میں انسانوں
کی اکثریت یا تو شرک میں مبتلا ہے یا ملحد اور لا دین ہے۔
یہ دور آج بھی براھیم کی تلاش میں ہے۔
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الااللہ۔

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند۔
بتانِ وہم و گماں لا الہ الااللہ۔
خدا سے بت کدے میں نعرہ مستانہ مانگا ہے۔
حکیمانہ تفکر جذبہ رندانہ مانگا ہے۔
تڑپ اٹھیں جسے پڑھ کر مسلمانان عالم سب۔
رسول ہاشمی سے حکم کا پروانہ مانگا ہے۔
چاند ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے سمندروں کی گہرائیوں میں کھوج لگانے والے۔ اپنے ہی بنائے ہوئے بتوں کی اور بے اختیار
انسانوں کی پرستش کرتے ہیں اور جب مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو اللّٰہ سے مدد طلب کرتے ہیں۔
چل دیئے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومن۔
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا۔
محمد امین اللہ

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا