۰۰۰۰
قیصر محمود عراقی
۰۰۰۰
آج کے حالات میں نہ دماغ ساتھ دیتا ہے نہ دل ۔ عجیب مایوسی کی سی کیفیت ہے ، مگر مسلمان کبھی مایوس نہیں ہو تا ۔ لکھنے والے لکھ رہے ہیں ، ہدایت دینے والے ہدایت دینے کی کوشش میں مصروف ہیں ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام جاری و ساری ہے،مگر جب اطراف میں نظر دوڑاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ حالات بڑے بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں ۔ پر نٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بے راہ روی آسمانوں کو چھو رہی ہے ، لگتا ہے میڈیا مالکان یہ طے کئے بیٹھے ہیں کہ نسل ِ نو کو بر باد ی کی راستے پر لگا کر ڈبو دینگے ۔ عریانی ، فحاشی ، تیسرے درجے کی لا یعنی گفتگو ، وقت کا بے تحاشاضیاع ، حسن و جمال کے بازار ، ملبوسات کی بھر مار ، زیورات اور تحائف کے نام پر انعامات کی لوٹ سیل، کبھی کار، موٹر سائیکل کا لالچ ، حد تو یہ ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں بھی نماز وں اور تروایح کا احساس کئے بغیر رمضان المبارک کے احترام کو پا مال کیا جا تا رہا ، جبکہ رمضان کا مہینہ تو ہر مسلمان کے لئے ہر لمحہ عبادت ریاضت ، دعائوں اور اپنے مالک سے راز و نیاز کے لئے ہو تا ہے مگر تمام عبادات ، ریاضت اور اپنے مالک سے راز و نیاز کو گلیمرز کی نذر کر دیا گیا ہیء ، یا یوں کہہ لیں کہ شاید عادت سی پڑ گئی ہے لہو ولعب کی۔
حد تو یہ ہے کہ چند مقامی چینل ہمہ وقت گا نے اور اداکاری کے جوہر دکھا نے کے لئے وقف ہیں ، حیرت یہ ہے کہ بے حساب سرمایہ لگا کر ایک فحش اور بے مقصد کا م انجام دیا جا رہا ہے ، اگر ان چینلوں کے مالکان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جا ئے اور پوچھا جا ئے کہ بتائیں آج ہمارے مجموعی حالات ناچ گا نے کی مہارت نہ ہو نے کی وجہہ سے ہو گئے ہیں ؟ جناب آپ کا سرمایہ وقت اور مشقت ، یہ سب اصلاحی پروگرام ، مشوروں اور تجاویز پر تیار کئے جا نے سے انشا اللہ آپ کے چینل کی ریٹنگ بھی بڑھے گی اور خدا کے عذاب سے بھی بچائو ممکن ہو گا ۔ ورنہ ایک بے تر تیب معاشرہ جھاڑ جھنکاڑ اور مزید تبدیلی کے بجائے بر بادی کے سامان پیدا کر ے گا ۔ آج میڈیا کے پاس وہ طاقت موجود ہے کہ وہ کانٹوں کی فصل کاشت کر نے سے گریز کر سکتا ہے ، وہ گر نہ ہر شخص راعی ہے اور ہر راعی سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جا ئے گا ۔ انڈین اور تر کی ڈرامے دیکھکر عورت کی بے حر متی پر آنکھیں نم ہو ں تو ہم ٹی وی بند کر کے کتاب ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں ، نئی نسل کہاں جا ئے گی جن کے ہاتھوں میں بچپن سے کتاب کے بجائے ریموٹ کنڑول دیا گیا ہے ، انہیں اچھا ادب ، لائبریاں ، بزرگوںکی صحبت ناپسند ہے ۔ حکمران طبقہ اپنے عیش و عشرت اور اقتدار کی طوالت کے لئے فکر مند ہے ۔ اس کے لئے انہیں چاہے کتنا ہی گر ے سے گرا قدم اُٹھانا پڑے انہیں منظور ہے ۔ان حالات میں نسل نو کے سدھار کی فکر کون کرے ؟ اگر ملک کا مستقبل خطرے میں پڑے تو ان کی بلا سے ۔ گذشتہ ادوار میں رہبر ،مبلغ، استاد ، والدین ، مدرسے ، تعلیمی ادارے ایسے ہوا کر تے تھے جو نئی نسل کی آبیاری کے لئے سر گرداں رہا کر تے تھے ، یہ سب کچھ کسی حد تک آج بھی موجود ہے اور اپنا کر دار ادا کر رہا ہے ۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا ، موبائل اور انٹرنیٹ وغیرہ وغیرہ ، یہ سب بچوں کے زیادہ قریب تر بھی ہیں اور فعال بھی ، اور اخلاق و کردار کو بگاڑ نے کے ذمہ دار بھی ۔
آج ہمارے نوجوانوں کو ان تمام کار آمد ایجادات کے غلط استعمال سے بچا نا ممکن نہیں رہا ، لایبریریاں موجود ہیں ، کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے ، مگرقدم قدم پر چکا چوند کر دینے والی چیز یں بھی ہیں ، ایسے میں کتابوں میں سر کھپانے کا کسے وقت ہے ؟ کون اقبال ،ؔ کون رومی ؔ،کہاں کی حکایت سعدی ؔ، کون سا حالیؔ ، کیسا مد و جزر اسلام اور کیسا شاہ نامہ اسلام ، خلافت عشمانیہ کے عروج کی حیرت انگیز داستانیں اور طارق بن زیاد کا کشتیاں جلا دینا ، کیا میں نے اور آپ نے اپن ے آنے والی نسل کو بتایا یا سنایا؟ وہ قرطبہ کی جامع مسجد جو مسلمانوں کی عظیم الشان حکومت کی داستان سناتی ہے ، وہاں آج کلیسا کی گھنٹیا بجتی ہیں ، جہاں علامہ اقبالؔ نے صلاح الدین ایوبی کے مزار پر بیٹھ کر مرا قبہ کیا ، جہاں آج یہود ی لات مار کر کہتے ہیں کہ ہم صلیبی جنگوں کا حساب لینگے ۔ ۱۷ سالہ محمد بن قاسم سندھ پہنچا تو سندھ اسلام کا دروازہ بن گیا ، آج کا بچہ ہر بات سے ہی ناواقف ہے ۔ غدار بنگال اور غدار دکن میر جعفر اور میر صادق جنہوں نے ۱۸۵۷ء میں ٹیپو سلطان کی جیتی ہو ئی جنگ کو شکست میں بدل ڈالا تھا ۔
اے میری آنکھوں کے تاروم میرے دل کے چین روشن ستارو، میرے نوجوانو! میں تمہیں بتائوں کہ شاہ رخ خان ، سلمان خان اور عامر خان ہمارے ہیرو نہیں ہیں ، ہمارے ہیرو محمود غزنوی ؒ ہیںسوم ناتھ کا مندر ڈھانے والے ، ہمارے پیر تو محمد بن قاسم ؒ ، طارق بن زیادؒ ، خالد بن ولید ؒ ہیں ، مولانا محمد علی جوہر جو لندن گئے تو گول میز کانفرنس میں ان کے تاریخی کلمات یہ تھے ’’ میں غلام ملک میں واپس جانا پسند نہیں کر تا ، اس لئے میرے وجود کو وہاں دفن نہ کر نا ، آج ان کی قبر فلسطین میں ہے ۔ میرے پیارے عزیز و! نام تو ہزاروں ہیں ، یہ سب ہماری میراث ہیں ، مگر ہر طرف آگ کے شعلے ، خون اور بد امنی دیکھکر ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اپنی میراث کھودی ہے ۔ آج اپنا ماضی فراموش کر نے والوں کو تابناک مستقبل کون دے گا ؟ آج بچہ ٹی وی پر دشمنی کے بھاشن سننے میں محو ہے اسے صحیح معلومات کون دے گا ؟ قصورار کون ہے ؟ قصور وار وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچوں کو الیکٹرانک میڈیا کے سامنے بٹھا کر خبر بھی نہ لی کہ ہماری بنیادوں میں بارود بھر دیا گیا ہے ، قصور وار وہ بھی ہیں جو اس میڈیا پر اختیار رکھنے کے باوجود بھی اندھے بہرے بن چکے ہیں ۔
آخر میں میری چند گزارشات اور مشورے ہیں ، انشا اللہ صبح منور اپنا روپ دکھلائے گی ، مگر پہل ہم کو کر نی ہو گی ۔ مجھے اور آپ ،ہمارے پاس میڈیا کی جو بھی طاقت ہے اس کا بہترین استعمال تمام عالمِ دنیا کو فیض پہنچا سکتا ہے اگر ہم اس کا مثبت استعمال کریں ۔ ہر روز ، ہر گھنٹہ اور پروگرام کی بنیاد پر ایسے اصول اور معلومات جو گزشتہ اسلامی تاریخ اور کر دار میں اور مسلمانوں کی فتوحات ، مومن کی شان اور طاقت کو مظاہرے کی زندہ مثالیں ہیں ۔جدید دور کے تقاضوں سے میل کھاتے ہو ئے معمولات کی اصلاحی فکری تر بیت ، اس کے علاوہ عوام الناس کی مشکلات کے حل ، تجاویز اور مشوروں پر مشتمل ہر پروگرام میں کچھ نہ کچھ سوچنے کے لئے ہوم ورک ، دماغ کے بہترین استعمال کی سوچ لوگوں میں پیدا کر نے کی صلاحیت ، بگڑتے حالات کے سدھار کے طریقے ، وقت کا بہترین اور خوبصورت استعمال ، اس کے علاوہ بہت کچھ ہے ، جو حالات کو بہتری کی طرف لا سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو پھر ایک شاندار صورت حال خود بخود سامنے آتی جائے گی ، پانی کی بوندیں دریا اور سمندرکی لہریں بن جائینگی اور تمام برائیوں ، فساد ، خون خرابے اور انسانیت دشمنی پر مبنی تصورات کو بہا لے جائیگی ۔
انشا ء اللہ
کریگ اسٹریٹ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸