شاہین باغ کی خواتین جس کا چرچا ہر خاص و عام کی زبان پر ہے”

0
0
"
محمد خالد داروگر، سانتاکروز، ممبئی
شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے اٹھنے والی آواز بڑی تیزی کے ساتھ ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ دہلی ہی میں واقع شاہین باغ میں خواتین کا اس قانون کے خلاف زبردست احتجاج جس کا ذکر اب ملکی سرحدوں سے نکل کر بین الاقوامی سطح پر پہنچ گیا ہے اور اس احتجاج کی خبریں واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز، الجزیرہ نہ جانے دنیا بھر کے کئی بڑے کثیر الاشاعت اخبارات میں بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی جارہی ہیں۔ شاہین باغ کی طرز پر ملک بھر میں تقریباً 21/اور نمایاں مقامات پر خواتین کے ذریعے شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ستیہ گرہ شروع ہو چکی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عوامی احتجاج کی علامت بن چکے شاہین باغ کے ستیہ گرہ کو ختم کرانے کی کوششیں اول روز سے ہی بڑے زور و شور کے ساتھ مسلسل جاری ہیں۔ کئی لوگوں نے ہائی کورٹ میں اس کے خلاف اپیل دائر لیکن انہیں ہر مرتبہ بار منہ کی کھانی پڑی اس کے بعد انہوں نے اب سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے۔ بی جے پی کا آئی ٹی سی سیل شروع دن سے شاہین باغ میں شریک ہونے والی خواتین کو مسلسل بدنام کرنے میں پوری طاقت کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم ہے اور ان پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ احتجاج میں شریک ہونے کے لئے روزانہ پانچ سے سات سو روپے لے رہی ہیں اور اس کے ساتھ انہیں کھانے کے لیے روزانہ بریانی دی جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہندوتوا وادیوں کے آوارہ غنڈے شاہین باغ میں شریک خواتین کے لئے نازیبا کلمات سے انہیں نواز رہے ہیں اور دلیر خواتین نے اس کا بروقت نوٹس لیتے ہوئے بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے خلاف ہتک عزت کا کیس درج کرایا ہے۔ شاہین باغ کے غیر معمولی احتجاج نے گجرات فسادات کے مسٹر مائنڈ وزیراعظم مودی اور ملک کے تڑی پار وزیر داخلہ امیت شاہ کے ہوش اڑادئیے ہیں۔ شاہین باغ کا خوف امیت شاہ کے سر پر بھوت کی طرح سوار ہوگیا ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ امیت شاہ اور اس کے حواری ملک بھر میں دھونس دھاندلی کے ذریعے پاس کرائے گئے شہریت ترمیمی قانون کو ملک کے عوام پر زبردستی تھوپے جانے کی حمایت میں جلسے جلوس کرتے پھر رہے ہیں۔ دراصل یہ کالا قانون ان کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے جو انہیں نگلتے بھی نہیں بن رہا اور اگلتے بھی نہیں بن رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ کالا قانون ہی انہیں آخر کار لے کر ڈوبے گا اور دہلی کے الیکشن کے نتائج ان کے لئے تازیانہ عبرت ثابت ہونگے۔ شاہین باغ کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ ملک کے کونے کونے سے مشہور و معروف شخصیات جن کا تعلق سماج میں مختلف فلیڈ ہے، مختلف پارٹیوں کے لیڈران اور ملی تنظیموں کے ذمہ داران وہاں جاکر اپنی بات ان کے سامنے رکھنے کو ایک طرح کا اعجاز سمجھ رہے ہیں۔ اس دوران جو لوگ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے ان کو سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اس کالے قانون کے خلاف 144/پٹیشنوں پر فیصلے کا بڑی بےصبری سے انتظار تھا اور انہیں پوری امید تھی کہ فیصلہ حکومت کے خلاف آئے گا۔ لیکن ہوا اس کے برعکس جس کی وجہ انہیں حد درجہ مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ مرکزی حکومت کا موقف سنے بغیر یکطرفہ فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا ہے، مودی حکومت کو تمام 144/پٹیشنوں پر 4/ہفتوں میں جواب داخل کرنے کا حکم دیا اور قانون کے نفاذ کو چند مہینوں کیلئے ملتوی کرنے سے بھی سپریم کورٹ نے صاف انکار کردیا ہے۔ بدھ کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ پر فوری روک روک لگانے سے سپریم کورٹ کے انکار کے بعد ملک بھر میں مظاہرین کے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ شاہین باغ میں گزشتہ 40/دنوں سے مظاہرے پر بیٹھی ہوئی خواتین نے سپریم کورٹ میں معاملے کی شنوائی 4/ہفتوں تک ٹلنے پر کہا”جب تک اس قانون پر روک نہیں لگائی جاتی اس وقت تک یہ دھرنا جاری رہے گا اور ہم لوگ یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔ دبنگ دادیوں کے نام سے مشہور یہاں کی بزرگ خواتین نے کہا ہے کہ”ہم خواتین کو دھرنے پر بیٹھے ہوئے 40/دن ہوگئے ہیں سپریم کورٹ نے چار ہفتے تک کا ہی وقت بڑھایا ہے، ہم اس کا انتظار کریں گی۔”انہوں نے کہا کہ”مودی نے ہمیں سڑکوں پر بٹھا دیا ہے اور جب تک وہ قانون کو واپس نہیں لیں گے تب تک ہم نہیں ہٹیں گے۔”شاہین باغ کی دبنگ دادیوں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو لاکھوں سلام! آپ لوگوں نے مودی شاہ کے ذریعے تھوپے گئے اس کالے قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوکر ستیہ گرہ کرکے تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھا لیا ہے
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا