شام کی خانہ جنگی اور عالمِ اسلام!

0
70

 

 

 

پروفیسر مشتاق احمد
:9431414586

شام میں مارچ 2011ء سے شروع خانہ جنگی ہنوز جاری ہے اور اب یہ جنگ صرف اور صرف خانہ جنگی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی چنگاری عالمی سیاست کو بھی اپنی زد میں لے چکی ہے ۔ظاہر ہے کہ اس خانہ جنگی کی چنگاری کو شعلہ بنانے میں شروع سے ہی امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عربیہ شامل ہے اگرچہ امریکہ کی جانب سے بارہا یہ صفائی دی جاتی رہی ہے کہ اس خانہ جنگی میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ بعد کے دنوں میں امریکہ کے حمایتی ممالک برطانیہ اور جرمنی کا کردار بھی مشتبہ ہے کہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف شام کے جنگجوئوں کی امداد کر رہے ہیں ۔یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ پورے عالمِ اسلام کو تباہ وبرباد کرنے میں مغربی ممالک شامل ہے اور جس کی قیادت امریکہ کے ہاتھوں میں ہے ۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں کبھی روس کا بھی ہاتھ رہا ہے لیکن جب سے روس خود منتشر ہوا ہے اور امریکہ ولادیمر پوتین کے خلاف مہم چلا رہاہے اس کے بعد سے روس کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ خود اپنی حفاظت میں مصروف ہے ۔روس اور یوکرین کے درمیان جو جنگ چل رہی ہے اس کے پسِ پردہ بھی امریکہ ہی ہے کہ وہ پوری دنیا پر اپنا دبدبہ بنائے رکھنا چاہتا ہے لیکن شام کے معاملے میں شروع سے ہی روس بشار الاسد کے ساتھ ہے اور ایران بھی اسد کی مدد کر رہے ہیں کہ حزب اللہ کو ایران کی سرپرستی حاصل ہے اور حزب اللہ اس خانہ جنگی میں اپنی موجودگی کا احساس کرا رہا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ترکی اپنے مفاد میں شام کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
بہر کیف! شام کے صدر بشار الاسد اپنی حکمت عملی سے اس خانہ جنگی کوناکام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور تمام تر سازشوں کے باوجود وہ اپنی کرسی پر قابض ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس خانہ جنگی میں اب تک سات لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ افراد معذور ہوئے ہیں ۔اس خانہ جنگی نے شام کی معاشی حالت کو بھی تباہ وبرباد کردیاہے لیکن اس کے باوجود خانہ جنگی جاری ہے ۔ واضح ہو کہ شروع میں جب یہ تنازعہ شروع ہوا تھا تو خانہ جنگی کے حمایتیوں کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ اسد حکومت بے دخل ہو اور وہاں جمہوری حکومت تشکیل دی جائے اور اس کے لئے علاقائی سطح پر مخالفت شروع ہوئی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ جنگ عالمی سیاست کا حصہ بن گئی اور بالخصوص امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر شام حکومت کے خلاف ایک نئی صف بندی کا آغاز کیا جس کا نتیجہ ہے کہ شام میں اس خانہ جنگی کے حامیوں کو اپنے مقصد میں کامیاب تو نہیں ہونے دیا لیکن شام کے لاکھوں شہری موت کے منہ میں چلے گئے اور لاکھوں معذور ہو کر اذیت ناک زندگی گذار رہے ہیں۔ دراصل امریکہ کی سازش کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پورے عالمِ اسلام میں جنگ وجدل کا ماحول پروان چڑ ھ رہا ہے۔ حالیہ غزہ کی جنگ بھی امریکہ اور عرب کی سازشوں کا ہی حصہ ہے کہ اسرائیل اب تک تیس لاکھ سے زائد معصوم فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے اور لاکھوں معصوم بچے یتیم ہوگئے ہیں اور اس سے بھی کہیں زیادہ معذور ہو کر اذیت ناک زندگی جینے پر مجبور ہیں ۔ بین الاقوامی تنظیم اقوام متحدہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود جنگ جاری ہے ۔ دراصل اقوامِ متحدہ بھی اب صرف تماشائی کی حیثیت رکھتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حامی اسلامی ممالک کی تباہی کا جو ایجنڈہ طے کرچکے ہیںاسے وہ پورا کر رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس میں سعودی عرب اور ترکی بھی شامل ہے ۔ خطۂ عرب میں جس طرح مغربی دنیا کا دبدبہ ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اب یہ اسلامی خطہ اپنی شناخت کھونے جا رہاہے ۔ حال ہی میں متحدہ عرب میں مندر کی تعمیر اور سعودی عرب میں سنیما گھروں اور بار ڈانس کھولنے کی اجازت اسی سازش کا حصہ ہے۔ شام کی سرزمین کا ایک اہم حصہ 2014ء سے 2017ء تک اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ دی لیونٹ (ISIL) کے زیر کنٹرول تھا جسے بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیاہے اور بیشتر مغربی ممالک نے داعش کے خلاف کاروائی بھی کی لیکن اس کے باوجود اس کا زور کم نہیں ہوا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر روس شام کی خانہ جنگی کے دوران شام کی فوجی اتحاد کو ہتھیار نہیں دیتی تو اسد حکومت ختم ہوگئی ہوتی اور ایران جو خود کو اس خانہ جنگی سے الگ رہنے کی بات کرتا ہے وہ اگر حزب اللہ کی مدد نہیں کرتے تب بھی اسد کے لئے اس جنگ کا مقابلہ کرنا مشکل تھا۔شام کی خانہ جنگی کو سول بغاوت کہنا درست نہیں ہوگا کیوں کہ یہ جنگ علاقائی بھی ہے ، مذہبی بھی ہے اور جغرافیائی اعتبار سے عالمی سیاست کو بھی فروغ دے رہی ہے ۔شام کی بعث پارٹی کا موقف رہا ہے کہ کُرد کے علاقے میں اسد حکومت کے خلاف جو آواز اٹھ رہی ہے وہ صرف اور صرف اندرونی نہیں ہے بلکہ عراق کی سازش کا حصہ ہے جب کہ 2011ء میں عراق حکومت نے اسد کی مالی معاونت کی تھی اور 2015ء میں شامی حکومت نے عراق کو باضابطہ طورپر دعش پر کاروائی کرنے بھی اجازت دی تھی لیکن بعد میں اس کے رویے میں تبدیلی آئی۔ اسی طرح شیعہ اور سنّی کے درمیان جو منافرت ہے وہ بھی اس خانہ جنگی کو پروان چڑھانے میں معاون ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ خطۂ عرب میں جو جمہوریت کے لئے آواز بلند ہونے لگی اسے سعودی عرب نے قبل از وقت ہی بے اثر کردیا لیکن شام میں اسد حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی حمایت کرتا رہاہے۔اس کے باوجود شام کے صدر بشار الاسد اقتدار پر قابض ہیں جس سے امریکہ کے ساتھ ساتھ ان کے حامیوں کو بھی مایوسی ہاتھ لگی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اتنے طویل عرصے سے اسد اس خانہ جنگی سے جوجھ تو رہے ہیں لیکن کیا وہ شام کی سالمیت کے لئے کوئی بڑا کارنامہ انجام دے پاتے ہیں اور اپنے مخالفین کے منصوبوں پر پانی پھیر سکتے ہیں کیوں کہ اس خانہ جنگی نے شام کے عام شہری کی زندگی کو بہت دشوار کن بنا دیا ہے ۔سب سے افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ آہستہ آہستہ دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک امریکہ کی سازشوں کے شکار ہوتے جا رہے ہیں اورایسا لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں ہے کہ جب تمام اسلامی ممالک اسلام دشمن کے چنگل میں پھنس کر اپنا وجود کھو دیں گے۔یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ شام گذشتہ 13برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے اور پوری اسلامی دنیا تماشائی ہے ، ٹھیک اسی طرح جیسے غزہ میں لاکھوں فلسطینیوں کی موت بھی اسلامی دنیا کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ہم پہلے ہی عراق اور ایران کی جنگ دیکھ چکے ہیں ۔ صدام اور قذافی کا حشر بھی آنکھوں میں ہے اس کے باوجود اگر مسلم ممالک ہوش کے ناخن نہیں لے رہے ہیں۔
٭٭٭
[email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا