’’ شادی ہالز ،پرائیویٹ اسکولوں کے بعد سب سے زیادہ منافع بخش

0
0

 

 

 

 

 

 

قیصر محمود عراقی
6291697668

وقت انسان کو کیا کیا رنگ دکھاتا ہے ، زمانہ بدلتا ہے ، حالات بدلتے ہیں اور سماجی قدریں بدل جا تی ہیں ، رسم و رواج رہتے تو وہی ہیں مگر ان میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ چالیس پچاس سال پہلے کوئی تصووربھی نہیں کر سکتا تھا کہ لوگ شادی کی تقریبات گھروں کے بجائے کرائے کے شادی ہالوں میں جاکر کیا کرینگے ۔مگر آج اکثر شادیاں میرج ہالوں میں ہو رہی ہیں ْ شادی ہالوں میں ایسی تقریبات کا سلسلہ ایک بار شروع ہوا تو بس شروع ہوا ۔
ایسی شادی میں شرکت کر نیو الے واپس آکر بتایا کر تے ہیں کہ دولہا اور دلہن والے تیار ہو کر مقررہ وقت پر شادی ہال پہنچ جا تے ہیں ، جہاں مہمانوں کو کھانا کھلا یا جا تا ہے اور دیگر رسومات ادا کی جا تی ہیں ، گھر والوں اور رشتہ داروں کی دعائوں اور نیک تمنائوں کے ساتھ دلہن کو رخصت کر دیا جا تا ہے ۔ شادی ہال والوں کو طے شدہ نرخ کے مطابق ادائیگی کر دی جا تی ہے ، مہمان اور میزبان اپنے اپنے گھروں کو سدھار جا تے ہیں ، چلو جی ہو گئی شادی ۔۔۔۔۔ بقول ہمارے بزرگ ! اگر خوشی اور غمی کے موقع پر چار دوست و احباب اور رشتہ دار گھر میں اکھٹے نہ ہوں تو کیا فائدہ ، شادی بیاہ کا موقع ہی تو کسی برادری میں اخوت و بھائی چارگی کو تقویت دیتا ہے ، اُن کے خیال میں قریبی رشتہ داروں کا شادی والے گھر آٹھ آٹھ دن رہنا اور شادی کے کاموں میں گھر والوں کا ہاتھ بٹانا ہی پیار محبت بڑھاتا تھا ۔ شادی والے گھر میں کئی روز تک دھوم دھڑکا نہ لگا رہے ، گھر کے باہر دیگیں نہ پک رہی ہوں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس گھر میں شادی ہے ۔ اس حقیقت کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا کہ جو مزہ پرانے وقتوں کی شادیوں میں آتا تھا اب اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ پہلے ایک گھر میں شادی ہو تی تھی تو اہل علاقہ کو ہفتوں پہلے اس کی خبر ہو جا تی شادی والے گھر کی ۔ گلیوں کو کاغذی جھنڈیوں سے آراستہ کیا جا تا ، کئی کئی روز گھر میں گہما گہمی رہتی ۔ مہینہ بھر لڑکیاں روازنہ گھر میں ڈھولک بجایا کر تی تھیں۔ تین چار دن گھر کے باہر دیگیں پکتی رہتی تھیں ، لیکن اب تو پڑوسیوں کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ ان کے گلی یا محلے میں کسی کی شادی ہے ۔ یہ سب شادی ہالوں میں شادیا ں رچانے کا نتیجہ ہے ، آہستہ آہستہ یہ شادی ہال سارے شہروں میں پھیل گئے ہیں اور ان کی مخالفت کر نے والے بھی بیٹھ گئے ، کیا کریں آخر وقت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے ۔ اب تو ہر کوئی گھر کی بجائے شادی ہال میں شادی کا فنکشن کر نے کو تر جیح دیتا ہے ۔ چلو بارات اور ولیمہ تو یہاں پر کر لو کوئی بات نہیں ، مگر اب تو منگنی ، عقیقہ اور سالگرہ کے فنکشن بھی شادی ہالوں میں ہو نے لگے ہیں ۔ اب تو حال یہ ہے کہ ایک ایک علاقے میں کئی کئی شادی ہال بن گئے ہیں اس کے باوجود بھی چھ ماہ پہلے بکنگ کروانی پڑتی ہے ۔ پہلے شادی کی تاریخ طئے ہو تی تھی اب تو ہال بک کر نے کے بعد ہی شادی کی تاریخ طے کی جا تی ہے ۔
ایسے میں شادی ہالوں کے مالک کی چاندی ہی چاندی ہے ۔یہ بھی کمائی کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے ۔ اس سے پہلے پرائیویٹ اسکول والوں کا کاروبار سب سے زیادہ منافع بخش سمجھا جا تا تھا جو اب بھی ہے ۔ ان شادی ہالوں میں دولت مند طبقہ کے ساتھ ساتھ جو نئے دولت مند ہو ئے ہیں وہ بھی اپنے فنکشن کر تے ہیں کیونکہ انہیں اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو اپنا اسٹیٹس دکھانا ہو تا ہے، رشتہ داروں میں رعب جمانا ہے کہ دیکھو جی ! ہم نے اپنے فنکشن کے لئے کتنا اچھا اور مہنگاہال بُک کرا یا ہے ۔ ان لوگوں کو یہ یاد نہیں رہتا کہ بے جا پیسہ لٹانے اور نمود نمائش کر نے والوں کو نہ لوگ پسند کر تے ہیں اور نہ ہی اللہ ان سے راضی ہو تا ہے ۔
قارئین حضرات آپ نے دیکھا ہو گا کہ میرج ہال والوں نے میرج ہال کے علاوہ مختلف قسم کے کئی چار جیز الگ سے وصول کر نا شروع کر د یئے ہیں جس میں الکڑک چارجز ، ایئر کنڈیشن چارجیز ، ویڈیو کمیرے کے چارجیز ، اسٹیج سجانے کے چارجیز ، راہداری سجانے کے چارجیز شامل ہیں ، غرض یہ کہ شادی ہال والوں نے گاہکوں کو دنوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیا ہے ۔
کم از کم آٹھ مہینوں پر محیط شادی کے سیزن میں کسی ہال کا کوئی پوزیشن خالی نہیں ہو تا ، چاہے وہ دن ہو یا رات ، ایسے میں پھر کیوں نہ شادیاں کا مالک دو چار سال میں اپنا ایک اور نیا ہال بنا لے ۔ یہ تو ہال مالکان کے بقول یہ ان کی سیدھی سادھی اور حلال کی کمائی ہے جس میں کوئی ہیرا پھیر نہیں۔ ایک اور سب سے اہم بات وہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی سوچا کہ شادی ہالوں میں بچ جا نے والا کھانا کہاںجا تا ہے ۔ ہم سب تو شادیوں پر کھانا کھلاتے ہیں اس پر بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں جسے زندگی کا آخری کھانہ کھا رہے ہیں ، پلیٹوں کو گنجائش سے زیادہ بھر لیتے ہیں ، چاہے کھایا جا ئے یا نہ کھایا جا ئے ، بعض احباب تو اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی پلیٹوں کو بھی اچھی طرح بھر دیتے ہیں جس وجہہ کر اکثر کھانا ضائع ہو جا تا ہے ، اس کے اصلی قصور وار شادی ہال والے نہیں بلکہ ہم ہیں جو اتنا کھانا ضائع کر تے ہیں اور تو اور کوئی نہیں جو اس معاملے میں ہمیں روکتا ہے اور نہ ہی ہمارا اپنا ضمیر ہمیں اناج بر باد کر نے کو برا سمجھتا ہے ۔ جس رزق کے حصول کے لئے انسان ساری زندگی محنت کر تا ہے اس کی بے حرمتی جس فراخ دلی سے شادی بیاہ جیسی تقریبات میں کی جا تی ہے اسے دیکھ کر ہر صاحب دل ، سنجیدہ اور باشعور شخص کفِ افسوس ملتا ہے موجودہ دور کی شادیوں کا مصنوعی اور کھوکھلا ماحول بہت سے لوگوں کے لئے خودکشیوں کا باعث بن رہا ہے ۔خواہ حالات اجازت دیں یا نہ دیں ۔
آخر میں بس یہی گزارش ہے لوگوں سے آپ شادی کو جتنا آسان طریقے سے کرینگے اتنا ہی آپ کے لئے بہتر ہو گا ، اس لئے شادی بجائے میرج ہال میں کر نے کے اپنے اپنے گھروں میں کر لیں جیسا کہ پہلے ہوا کر تا تھا ۔ پہلے کسی کے گھر میں شادی ہو تی تھی تو اغل بغل والے اپنے گھر کو خالی کر دیا کر تے تھے اور اس طرح شادیاں ہو جا یا کر تی تھیں ، ہم چاہیں تو آج بھی اسی طرح اپنے اپنے گھر کی شادی کو انجام دے دسکتے ہیں تبھی آسان نکاح ہو سکے گا ورنہ آسان نکاح وہ نہیں کہ شادی میں باجا بند ، ڈی جے بند باقی سب کچھ جاری ہے ۔ آسان نکاح تبھی ہو گا جب ہر معاملے میں ہم آسانی کرینگے ۔ مثلاً میرج ہال کا بائیکاٹ ، بارات کا بائیکاٹ ، دنیا بھر کی رسومات کا بائیکاٹ ، پچاس قسم کی ذائقہ دار کھانوں کا بائیکاٹ کرینگے تبھی نکاح آسان ہو گا اور سنت کے مطابق ہو گا ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا