*شادی‌خانہ آبادی یا خانہ بربادی؟*

0
0

امیر حمزہ مبارک پوری

شادی کے بے شمار فضائل و مناقب قرآن و احادیث میں بیان کیے گئے ہیں۔شادی‌ نہ صرف دو جسموں کا رشتہ ہے بلکہ اس سے خاندان وجود میں آتا ہے،اور خاندان سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔لیکن‌ عصر حاضر میں شادی خانہ آبادی کو مختلف قسم کے غیر شرعی رسم‌ و رواج نے خانہ بربادی بنا دیا ہے۔
آج کل شادیوں کا جو منظر نامہ ہے وہ نہ صرف قابل اصلاح بلکہ لائق تشویش بھی ہے،بارات میں پٹاخہ بازی ہو یا کھانے کا ضیاع بعض جگہوں پر ناچ گانے کا بھی رسم و رواج ہو گیا ہے اور دن بدن شادیوں میں غیر شرعی افعال کا اضافہ معاشرے کے ہر حساس فرد کے لیے لمحۂ فکریہ ہے، کہ آخر تعلیمی اور معاشی میدان کے یتیم‌ افراد کے پاس شادیوں میں بےجا لٹانے کے لیے اتنی دولت کہاں سے آجاتی ہے؟ یہ تما‌م مسائل ایک طرف جہیز دور حاضر کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے ہر کسی کو اپنے چپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں گھروں میں بیٹھی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ دیتی ہیں اور ان کی شادی نہیں ہو پاتی۔
بات صرف یہ ہوتی کہ جہیز لے رہے ہیں اور دے رہے ہیں تو مسئلہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتا مسئلہ یہ ہے کہ اس غلط فعل کو سنت نبوی سے ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتے نظر آتے ہیں،جب کہ موجودہ جہیز کا سنت نبوی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول علیہ السلام نے اپنے چار بیٹیوں(حضرت زینب،حضرت رقیہ،حضرت ام‌کلثوم اور حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہن) کی شادی کس طرح کی؟اعلان نبوت سے پہلے سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سگی بہن ہالہ بنت خویلد کے صاحبزادے ابو العاص بن ربیع کے ہمراہ کیا،حضرت خدیجہ نے اپنا بیش قیمتی یمنی ہار اپنے گلے سے اتار کر اپنی بیٹی کو پہنا دیا،جو کہ ماں کی محبت کی نشانی تھی،لیکن اس ہار سے مروجہ جہیز پر استدلال نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ واقعہ اعلان نبوت سے قبل کا ہے۔حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوئی ان کے انتقال کے بعد حضرت ام کلثوم کی شادی بھی حضرت عثمان غنی سے ہوئی،لیکن یہ کہیں نہیں ملتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقد یا سامان کے روپ میں انھیں کچھ دیا ہو۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ صاحب ثروت تھے اس لیے سامان‌ یا نقد نہیں دیا، یہ بات اپنی جگہ صحیح ہو یا غلط۔ اس سے قطع نظر ہم یہ بات کرتے ہیں کہ کیا آج کے رؤسا و امرا جہیز کے نام پر لڑکی والوں سے قسم‌ قسم کے سامان نہیں لیتے ہیں؟ اگر آج کے صاحب ثروت حضرات ایسی شادیاں کرنا شروع کر دیں جس میں جہیز نہ لیں تو ایک انقلاب برپا ہو جاے گا۔کیوں کہ ہمارے یہاں ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے پروگرام‌ کیے جاتے ہیں کہ فلاں نے اتنا خرچ کیا تھا تو میں اس سے کم کیوں خرچ کروں! امیروں کے پاس تو دولت ہوتی ہے لیکن غریب اپنی شان بنانے کے‌ چکر میں قرض کے جال میں پھنس‌ جاتا ہے جس سے اس کی پوری زندگی درہم برہم ہو جاتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر،خاتون جنت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی شادی میں جو سامان اللہ کے رسول علیہ السلام نے انہیں دیا تھا اس کا حوالہ دے کر جہیز کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو رخصتی کے وقت کچھ سامان دیے تھے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علی اللہ کے رسول کی کفالت میں تھے،ان کے والد ابوطالب کا انتقال ہو چکا تھا ان کی روز مرہ کی ضروریات اللہ کے حبیب ہی پوری کرتے تھے،اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ضروری سامان دیے تاکہ نیا گھر بسانے میں حضرت علی و فاطمہ کو کسی قسم‌کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ایک روایت میں یہ مذکور ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت فاطمہ کے لیے پیغام نکاح لے کر حاضر ہوے تو اللہ کے رسول علیہ السلام نے فرمایا:مہر کی ادائیگی کے تمہارے پاس کچھ ہے؟ عرض کی ایک گھوڑا ہے اور ایک زرہ۔اللہ کے رسول نے فرمایا: گھوڑا تو جہاد میں کام آے گا زرہ بیچ دو حضرت علی نے وہ زرہ حضرت عثمان کو چار سو اسی درہم میں بیچ دی پھر وہ رقم لے کر اللہ کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوے،اور وہ رقم آپ کو دے دی،اللہ کے رسول نے اس رقم سے کچھ حضرت بلال کو دیے کہ اس سے حضرت فاطمہ کے لیے خوشبو کا انتظام کریں،اور باقی رقم حضرت ام سلمہ کو دے کر فرمایا کہ اس سے حضرت فاطمہ کے لیے روز مرہ کی ضروریات کے سامان خریدو۔مذکورہ بالا واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت فاطمہ کو جو سامان دیے گئے تھے وہ حضرت علی ہی کی رقم سے لے کر دیے گئے تھے نہ کہ موجودہ جہیز کی طرح کہ لڑکی کے والدین سارا خرچ خود ہی برداشت کرتے ہیں۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ رسم جہیز کا سنت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ جہیز ہنود کے رسم و رواج کا حصہ ہے جو مسلمانوں کے اندر بھی سرایت کر گیا ہے۔
یہ بھی ایک عجیب المیہ ہے کہ دولھا والے بارات لے کر آتے ہیں تو پہلے بات طے ہو جاتی ہے کہ اتنے لوگ بارات میں آئیں گے،مثال کے طور پر ۱۰۰ لوگ لیکن جب بارات آتی ہے تو سوا سو یا ڈیڑھ سو لوگ رہتے ہیں، پھر کھانا گھٹنے، بڑھنے پر باراتی لڑکی کے گھر والوں کو خوب برا بھلا کہتے ہیں،جب کہ جب لڑکی کے گھر والے لڑکے کے گھر آتے ہیں تو اتنا خاص انتظام بھی نہیں ہوتا اور پھر ان کی عزت بھی خطرے میں نہیں پڑتی۔واہ کیا عجیب فلسفہ ہے جس کا نہ تو اسلام سے تعلق ہے اور نہ ہی انسانیت سے۔
مہر جو بیوی کا حق ہے اس میں عام طور سے شوہر ٹال مٹول کرتے ہیں یا معاف کرانے کی کوشش کرتے ہیں،یا ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ بیوی مجبوراً مہر معاف کر دیتی ہے،یہ عورت کا حق مارنا ہے اور ایسی حرکت شان "عورت مرد پر حاکم ہیں” کے بالکل برخلاف ہے۔کہ حاکم اپنے ماتحت پر کبھی زیادتی نہیں کرتا،مزید یہ کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے لباس ہیں تو چاہیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں جو ان کی شایان شان ہو۔تبھی یہ رشتہ پائیدار ہوگا،اور آنے والی نسل صالح اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے میں ممد و معاون ہوگی۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا