سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے تین نمایاں اوصاف جود و سخا۔۔شرم وحیا۔۔حلم و حوصلہ

0
0

مولانا ابوبکرحنفی شیخوپوری
مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہرے داماد،خاندانِ بنو امیہ کے چشم و چراغ ،ذو النورین ،ذوالہجرتین،اہلِ اسلام کے نورِ عین صاحبِ بیعتِ رضوان،جامع قرآن ،ناشرِ فرقان ،کامل الحیاء والایمان ،سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا شمار ان جلیل القدر اور بزرگ تر ہستیوں میں میں ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالی نے معاشرے میں ممتاز حیثیت،اعلی مرتبہ اور عالی صفات سے نوازا تھا۔ ایک انسان کی شخصیت کو جو اوصاف سنوارتے ہیں اور اس کے کردار کو اجلا بناتے ہیں ،وہ سب آپ رضی اللہ عنہ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھے اور انہیں خوبیوں کے پیشِ نظر آپ رضی اللہ عنہ بلا تفریق تمام قبائلِ عرب میں معززومحترم مانے جاتے تھے ،ان میں سے یہ تین اوصاف آپ رضی اللہ عنہ کی سب سے نمایا ں تھے ۔۔۔ جودو سخاوت ،شرم وحیا اور حلم و حوصلہ ۔۔۔۔سیَر اور سوانح کی کتب میں آپ رضی اللہ عنہ کی حیاتِ طیبہ کے ان تینوں پہلوؤں پر بڑی سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے اور اس حوالے سے بیسیوں واقعات ذکر کئے گئے ہیں ،چند ایک نذرِ قائین ہیں۔
جودو سخا
اللہ تعالی نے سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو جس طرح مال کی فراوانی عطا فرمائی تھی، اسی طرح اپنے راستے میں خرچ کرنے کے لئے دریا دلی کی دولت سے بھی نوازا تھا ،اسلام کی تعمیرو ترقی کے لئے جب بھی وسیع پیمانے پر مال و دولت خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پیش پیش نظر آئے،سیرت کے مطالعہ کی روشنی میں ایسے چار اہم مواقع نظر آتے ہیں جہاں آپ رضی اللہ عنہ نے سخاوت کے دریا بہا کر لوگوں کے دل جیت لئے۔ایک موقع وہ تھا جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے تو مدینہ کا پانی موافق نہ ہونے کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیٹ درد میں مبتلا ہو گئے،شہر سے باہر ’’بیررومہ‘‘ نامی کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا ،مسلمان اپنا سرمایہ چونکہ مکہ چھوڑ آئے تھے اور خالی ہاتھ تھے اس لئے ان میں اس کنویں کو خریدنے کی ہمت نہیں تھی،لیکن صاف پانی کی شدید ضرورت تھی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جو شخص بیرِ رومہ خریدے گا اس کے لئے جنت ہے‘‘حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے یہ بشارت سن کرکنواں خریدنے کی ذمہ داری قبول کر لی قبول کر لی اور اس یہودی سے بات چیت کرنے گئے،اس نے اپنی کھیتی باڑی کے عذر کی وجہ سے پورا کنواں بیچنے سے انکار کر دیا اور آدھا کنواں بیچنے پر رضامند ہوا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نیبارہ ہزار درہم دے کر آدھاکنواں خرید لیا اوو مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا ،ایک دن یہودی اور ایک دن مسلمان اس سے پانی بھرتے تھے۔
دوسرا موقع وہ تھا جب مسجد نبوی کی توسیع کی ضرورت پیش آئی ،ابتداء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل اور سہیل نامی دو یتیم بچوں سے دس دینار کے بدلے میں مسجد نبوی کی جگہ خریدی تھی،جس کی قیمت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ادا کی تھی ،لیکن جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی اور مسجد میں جگہ تنگ پڑ گئی تو مسجد کی توسیع کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا’’وہ کون ہے جو ہماری مسجد کے لئے فلاں زمین خرید کر وقف کرے گاتاکہ اللہ تعالی اسے بخش دے‘‘اس رفاہی کام کے لئے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پہل کی اور بیس یا پچیس ہزار دراہم کے بدلہ میں یہ زمین خرید کر مسجد نبوی کے لئے وقف کر دی۔
تیسرا موقع غزوہ تبوک کا تھا جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار جانور راہِ خدا میں دئیے ،جس میں ساڑھے نو سو اونٹ کجاوؤں اور نمدوں سمیت تھے اور پچاس گھوڑے تھے ،اس کے ساتھ ساتھ نقدی رقم کی صورت میں بھی تعاون کیا جس کی مقدار ایک ہزار اشرفیاں تھی،اپنے جانثار اور محبوب داماد کی جانب سے اس قدر عطایا دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے اور ان عطیات کو اپنے ہاتھوں میں الٹتے پلٹے ہوئے ارشاد فرما رہے تھے ’’ اس (کثیر تعداد میں خرچ کرنے ) کے بعد عثمان کو کو عمل بھی ضرر نہیں پہنچائے گا‘‘ یعنی عثمان کے جنت میں جانے کے لئے یہی عمل ہی کافی ہے۔
ان تینوں واقعات کا تعلق عہدِ رسالت سے ہے جبکہ چوتھا واقعہ آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کا ہے ،حضرت عثمانِ غنیؓ کے ایک ہزار غلے اور اناج سے لدے ہوئے اونٹ شام سے مدینہ کی طرف آرہے تھے ،تاجریہ سنتے ہی صبح سویرے حضرتِ عثمان کے دولت کدہ پر پہنچ گئے اور انہیں دس کی خرید پر بارہ درہم کی پیش کش کی ،ٓپؓ نے بیچنے سے انکار کر دیا،انہوں نے تیرہ پھر چودہ اور آخر پندرہ درہم پراپنا فصلہ سنا دیا کہ ہم اس سے زیادہ نفع نہیں دے سکتے ،آپؓ نے انہیں جواب دیا: میں نے ایک ایسے بیوپاری سے سودہ کیا ہے جو جو دس پر پندرہ نہیں بلکہ ایک پر دس گنانفع عطاء کرتا ہے،انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ وہ کون ہے ؟ آپؓ نے فرمایا ’’وہ اللہ ہے ‘‘پھر ان سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا ’’ اے تاجرو! گواہ ہو جاؤ!میں یہ سارا غلہ بغیر کسی قیمت کے صرف اللہ کی رضا کے لئے لوگوں پر خیرات کرتا ہوں‘‘۔
شرم و حیاء
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فطرت میں اللہ تعالی نے حیاء کو کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،آپ رضی اللہ عنہ کے دیکھنے،سننے بولنے ،چلنے پھرنے ،اٹھنے بیٹھنے اور ہر عمل سے وقار ،سنجیدگی اور شرم و حیاء عیاں ہوتا تھا، صفتِ حیاء کا اس قدر غلبہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ رضی اللہ عنہ کا لحاظ کرتے تھے ،اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے،ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میرے والدحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کسی ضرورت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت چاہی ،اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بستر پر میری چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں رہے،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور جو بات کرنا تھی کر کے چلے گئے۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی ضرورت سے آئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی ،ان کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی ،وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں رہے ،پھر وہ بھی اپنی ضرورت پوری کر کے چلے گئے۔
پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو اچھی طرح درست فرما لیا اور مجھ سے فرمایا کہ تم بھی اپنے کپڑے (چادر وغیرہ) پوری طرح اوڑھ لو،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دی،وہ آئے اور اپنی ضروری بات کر کے چلے گئے ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !میں نے دیکھا کہ آپ نے جیسا اہتمام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے کیا ویسا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے لئے نہیں کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عثمان ایسے آدمی ہیں کہ ان پر صفتِ حیاء کا غلبہ ہے ،مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے ان کو ایسی حالت میں بلا لیا جس میں میں تھا تووہ ضروری بات نہ کر سکیں جس کے لئے وہ آئے تھے‘‘مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ’’کیا میں ایسے شخص سے حیاء نہ کروں جس سے اللہ کے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں‘‘۔
حلم و حوصلہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں حددرجہ ٹھہراؤ تھا، کوئی سخت سے سخت معاملہ بھی پیش آجاتا، آپ رضی اللہ عنہ صبروتحمل کی تصویر اور عزیمت و استقامت کے پیکر نظر آتے ۔آپ رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں آخری چھ سال بہت آزمائش کے تھے،بلوایوں اور فسادیوں کی طرف سے اسلامی حکومت پر سخت یلغار تھی،ان کی پوری کوشش تھی کہ آپ کو تختِ خلافت سے نیچے اتار دیں لیکن انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی کہ اللہ تعالی آپ کو خلافت کی قمیض پہنائے گا،اگر منافقین اس کو اتارنے کی کوشش کریں تواس کو ہر گز نہ اتارنا،اس وصیت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انہوں نے چالیس دن بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کر کے جان دے دی لیکن ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کی خلاف وررزی نہیں کی،شہادت سے پہلے جب بلوائی آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم ان کا قلع قمع کرتے ہیں ،آپ رضی اللہ عنہ نے حلم اور بردباری کی اعلی مثال قائم کرتے ہوئے اور امت کو مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس سے آشنا کرتے ہوئے فرمایا’’ یہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے میں اس میں قتل و غارت کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا