سچ کہنا جرم ہے یا نادانی !

0
0

 

 

فہیم اختر
لنڈن

سچ کہنا بذات خود کوئی جرم نہیں ہے ، بلکہ یہ اکثر معاشرتی ، اخلاقی ، اور قانونی اقدار کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم کچھ حالات میں سچ بولنے کے نتائج پیچیدہ یا ناپسندیدہ ہوسکتے ہیں جیسیاگر سچ بولنے سے کسی کا راز فاش ہوتا ہے یا کسی کی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو قانونی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔

سچ بولنے سے کبھی کبھار ذاتی تعلقات میں تنازعہ یا دل آزاری ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ضروری ہے کہ سچ بولنے کے ساتھ ساتھ حساسیت اور ذمہ داری کا بھی مطاہرہ کیا جائے تاکہ کسی کو نقصان نہ پہنچے۔وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو برطانیہ کی جیل سے رہا کر دیا گیا ہے اور وہ امریکہ میں جاسوسی کے قانون کی خلاف ورزی کے ایک ہی الزام میں جرم قبول کرنے پر راضی ہونے کے بعد اپنے گھر آسٹریلیا چلے جائیں گے۔شمالی ماریانا جزائر کے لیے امریکی ضلعی عدالت میں دائر کی گئی فائلنگ کے مطابق 52سالہ جولین اسانج ،خفیہ امریکی قومی دفاعی دستاویزات کو حاصل کرنے اور ان کا انکشاف کرنے کی سازش کا اعتراف کریں گے۔جس کے بعد معاملہ رفع دفع ہوجائے گا۔

2021میں برطانیہ کی ایک عدالت نے کہا تھا کہ جولین اسانج کو امریکہ کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سال کے شروع میں جولین اسانج نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل کر لیا۔ فروری میں آسٹریلوی پارلیمنٹ نے ایک تحریک منظور کی جس میں امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ جولین اسانج کو اپنے آبائی ملک واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ پھر اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان دیا جس میں انہوں نے جولین اسانج کے خلاف اِستِغاثہ ختم کرنے کے لیے آسٹریلیا کی درخواست پر غور کرنے کا وعدہ کیا۔

2012 میں لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانے میں اس وقت ایک دلچسپ ڈرامہ دیکھا گیا تھا،جب لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے جولین اسانج کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس پورے ماجرے کو براہ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا تو وہیں اخبارات میں بھی اس کی تصاویر کو نمایاں جگہ دی گئی تھی۔ جولین اسانج سات برسوں سے ایکواڈور سفارت خانے میں پناہ گزین کے طور پر چھپا ہوا تھا۔ تاہم اس کی گرفتاری کے لئے امریکہ اور دیگر ممالک نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔کبھی سویڈن سے یہ خبر آتی تھی کہ جولین اسانج کو گرفتار کیا جائے کیونکہ اس نے عورتوں کی عصمت دری کی ہے۔ تو کبھی امریکہ سے یہ خبر آتی کہ جولین اسانج نے امریکی خفیہ ایجنسی کی دستاویز چرائی ہے، اس لئے اسے امریکہ لا کر مقدمہ چلا جائے۔ لیکن جولین اسانج ایکواڈور سفارت خانے سے ٹس سے مس نہیں ہوئے اور تمام الزامات کو اپنے اوپر سوچی سمجھی سازش کہہ کر چھپے رہے۔

آخر کاراسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کو ایکواڈور حکام نے سفارت خا نہ آنے کی دعوت دی ،کیوں کہ ایکواڈورکی حکومت نے جولین اسانج کی پناہ گزین کی حیثیت ختم کر دی تھی۔جس کے بعد جولین اسانج کو لندن پولیس حراست میں لے لی تھی۔ایکواڈور کے صدر نے اپنا بیان میں کہا کہ جولین اسانج کے رویے نے ان کو ایسے قدم اٹھانے پر مجبور کیا ،کیونکہ اسانج پناہ کے قواعد کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔اس نے سفارت خانے میں سیکورٹی کیمرے کو بلاک کر دیا اور خفیہ دستایز کو ڈھونڈنے لگا ۔وہ بلا وجہ گارڈ سے جھگڑنے لگے تھے۔ صدر مورینو نے یہ بھی کہا کہ برطانوی حکومت نے یہ بھی لکھ کر دیا ہے کہ جولین اسانج کو کسی ایسے ملک میں نہیں بھیجا جائے گا جہاں اس پر اذیت ہو یا اسے سزائے موت دی جا سکے۔

گرفتاری کے بعد جولین اسانج کو لندن کے جیل میں بند رکھا گیا کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے گرفتاری کے وارنٹ کو نظر انداز کیا تھا۔ ماہرِ قانون کا کہنا تھا کہ ، اگر دیکھا جائے تو یہ معاملہ اتنا سنگین نہیں تھا اور ایسا اندازہ لگایا جارہا تھا کہ ا س میں بہت حد تک ممکن ہے جولین اسانج کو رہا ئی مل جائے گی۔ تاہم پریشانی اس بات کی تھی کہ امریکہ منھ پھاڑے بیٹھا اور جولین اسانج کو امریکہ لا کر کاروائی کرنا چاہتا تھا ۔ جس سے برطانوی شہری، سیاستداں اور انسانی حقوق کے حامی تشویش میں تھے ،کہ کہیں جولین اسانج کو امریکہ لے جا کر ایک مدت کے لئے اس کو جیل میں نہ ڈال دیا جائے ۔ کیونکہ امریکہ نے جولین اسانج پر جو الزامات لگائے ہیں وہ نہایت سنگین ہیں اور اس کی سزا معمولی نہیں ہے۔جولین اسانج کی وکیل جینیفر روبنسن نے میڈیا کو خبردار کرتے ہوئے بتا یا تھاکہ اگر جولین اسانج کو امریکہ بھیج دیا گیا تو یہ صحافت کے لئے ایک شرمناک بات ہوگی۔ کیونکہ جولین اسانج کا قصور یہ ہے کہ اس نے امریکہ کے خلاف سچ کہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ آئندہ کوئی بھی اگر امریکہ کے خلاف سچ لکھے گا تو اسے امریکہ سزا دے گا ۔ جو کہ سچ لکھنے والے صحافیوں کے لئے ایک خوف کی بات ہوگی۔

2016امریکہ کے صدارتی انتخاب کے دوران وکی لیکس نے ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کے متعلق کئی ای میل کو منظر عام پر لا کر دنیا کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہیلیری کلنٹن امریکی الیکشن میں بڑی تعداد میں ووٹ نہ ملنے کا ایک سبب وکی لیکس تھا۔ تاہم ان تمام باتوں کے لئے روس کی طرف بھی انگلی اٹھائی جارہی تھی اور صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی شک کیا جارہا تھا۔

2006میں جولین اسانج نے (Wikileaks)ویکی لیکس کی بنیاد ڈالی۔ دراصل ویکی لیکس کا بنیادی مقصد یہ رہا ہے کہ وہ ان باتوں کو ثبوت کے ساتھ لوگوں کو بتاتا تھا جس سے عام انسان کے ہوش اڑ جاتے تھے۔ ویکی لیکس نے چار سال قبل عراق میں ایک ہیلی کاپٹر کی مدد سے ا مریکی فوجیوںکی عام شہریوں کو قتل کرنے کی ویڈیو پیش کی تھی۔اس کے علاوہ2010 میں امریکی خفیہ ایجنسی کی ملازمہ چیلسی میننگ کو اس لئے گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے 700,000خفیہ دستاویزات، ویڈیو اور سفارتی مراسلے ویکی لیکس کو فراہم کئے تھے۔ جبکہ چیلسی میننگ نے اپنے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھاکہ انہوں نے اس لئے ایسا کیا کہ وہ چاہتی تھی اس کے ذریعہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر بحث ہو ۔ لیکن امریکہ نے چیلسی میننگ کی باتوں کو ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ چیلسی میننگ کے رویے اوراس نے راز افشا کرکے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالی گئیں۔

ویکی لیکس ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو خفیہ اطلاع کے علاوہ ان خبروں کو پیش کرتا ہے جوہم اور آپ گمان ہی نہیں کر سکتے۔یہ 2006میں پہلی بار سن شائن پریس کے ذریعہ منظرِ عام پر آیا۔جولین اسانج نے خفیہ دستاویزات اور تصاویر کے حصول اور ان کی اشاعت کرنے کے لیے وکی لیکس نامی ویب سائٹ کی بنیاد رکھی۔ وکی لیکس کے انکشاف سے اچھے اچھوں کے ہوش اڑ گئے تھے۔ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی گرفتاری سے انسانی حقوق کے حامی تو حیران اور پریشان ہوئے تو وہیں امریکہ اور برطانیہ کے رویے سے اندازہ ہوا کہ وہ جولین اسانج کو عمر بھر قید میں رکھنا چاہتے ہیں۔جس کے لیے انہوں نے تمام ہتھکنڈے استعمال کئے۔ ظاہر سی بات ہے جولین اسنج کی اس کوشش کو ایک طبقہ کافی اہم اور اعلیٰ سمجھتا ہے تو وہیں امریکہ، برطانیہ سمیت کئی ممالک خوف زدہ بھی تھے کہ کہیں بات کافی آگے نہ بڑھ جائے اور یہ ان کے لیے عذاب نہ بن جائے۔
میں جولین اسانج کی گرفتاری ، الزامات پھر جیل اور اب رہائی سے حیران نہیں ہوں کیونکہ صحافت کی آزادی کا حصول ایک مستقل جدوجہد ہے جس کے لئے بین الاقوامی برادری ، صحافیوں اور عوام مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ویکی لیکس نے بہت سی ایسی معلومات افشا کیں ہیں جو روایتی میڈیا کے ذرائع تک نہیں پہنچتی تھیں۔ اس نے خفیہ دستاویزات کو عوام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس طرح ویکی لیکس نے صحافت میں ایک نئی راہ متعارف کرائی ہے جو کہ خفیہ معلومات کے افشا اور عوامی آگاہی کے ذریعے حکومتوں اور اداروں کے احتساب کی کوشش کرتی ہے ۔ تاہم اس کے طریقہ کار اور اثرات پر جاری بحث نے صحافت اور اخلاقیات کے میدان میں اہم سوالات کھڑے کیے ہیں۔

جولین اسانج کوکسی طرح رہائی مل گئی اور وہ واپس آسٹریلیا چلے جائے گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جولین اسانج کے ساتھ جیسا سلوک ہوا اس سے کیاانسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو خوف زدہ کر دیا جائے گایا انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔

فہیم اختر۔لندن (برطانیہ)
fahimakhteruk@yahoo.co.uk

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا