سوچھ بھارت ابھیان کے ہدف کو پورا کرنے والا گاؤں

0
0

 

 

 

کویتا کماری
گیا، بہار

تقریباً 10 سال پہلے جب مرکزی حکومت نے ملک میں سوچھ بھارت ابھیان کا اعلان کیا تھا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ ایک ایسے انقلاب کی شکل اختیار کرے گا جو نہ صرف شہروں بلکہ دیہی علاقوں کی حالت کو بھی بدل دے گا۔ اس مہم نے نہ صرف گاؤں کو صاف ستھرا بنایا بلکہ خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ اس مہم کی وجہ سے گاؤں کوڑا کرکٹ سے پاک ہو گیا اور کھلے میں رفع حاجت سے بھی آزادی ملی۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2023 تک، سوچھ بھارت ابھیان کے دوسرے مرحلے میں، ملک کے تقریباً 50 فیصد گاؤں کھلے میں رفع حاجت سے مکمل طور پر پاک ہو چکے ہیں۔ اس میں تلنگانہ ایک ایسی ریاست کے طور پر ابھرا ہے جس کے 100 فیصد گاؤں کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہو چکے ہیں۔ اب اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ملک کی دیگر ریاستوں میں مقابلہ ہے۔ اس کے نتیجے میں، دیہی علاقے بھی اب پہلے سے زیادہ صاف نظر آتے ہیں۔بھلے ہی بہار اس ہدف کو حاصل کرنے والی ٹاپ 5 ریاستوں میں شامل نہ ہوسکا ہے، لیکن اس کے دیہی علاقوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بہت جلد بہار کے ہر گاؤں میں صفائی کا پھیلاؤ نظر آئے گا۔ ریاست کے ایسے بہت سے دیہی علاقے نظر آئیں گے جہاں پہلے کے مقابلے حالات میں کافی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ ایسا ہی ایک گاؤں گیا کا اچھلا گاؤں ہے۔ ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 55 کلومیٹر کے فاصلے پر بانکے بازار بلاک میں واقع اس گاؤں میں درج فہرست ذاتوں کا غلبہ ہے۔ روشن گنج پنچایت میں واقع اس گاؤں کی آبادی ایک ہزار کے قریب ہے۔

اس گاؤں میں داخل ہونے کا راستہ پنچایت بھون کے بالکل ساتھ ہے۔ جہاں صاف ستھری سڑکیں سوچھ بھارت ابھیان کی کامیابی کی کہانی بیان کرتی نظر آئیں گی۔ سڑک بھلے ہی چوڑی نہ ہو لیکن اس کے کنارے درخت اور صفائی یہ بتاتی ہے کہ گاؤں والے صفائی اور اس کے فوائد سے بخوبی واقف ہیں۔ آپ کو گاؤں کے اندر بھی صفائی کا یہ بہترین نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔ اس حوالے سے گاؤں کے 76 سالہ بزرگ سیارام کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں گاؤں میں صفائی کے تئیں لوگوں کے رویے میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ گاؤں کے لوگ خود آگے آ رہے ہیں اور گاؤں کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔35 سالہ گھریلو خاتون تارا دیوی کا کہنا ہے کہ ”گاؤں میں دونوں سطحوں پر صفائی نظر آتی ہے، ایک طرف کچرے کے انتظام کے لیے مناسب انتظامات کیے گئے ہیں، وہیں دوسری طرف خواتین کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہو چکی ہیں۔ حکومت اور پنچایت کی کوششوں سے گاؤں کے تقریباً تمام گھروں میں بیت الخلاء بن چکے ہیں، جس کی وجہ سے اب خواتین اور لڑکیوں کو صبح سے پہلے کھلے میں رفع حاجت کرنے کی پریشانی سے نجات مل گئی ہے۔“ وہ کہتی ہیں کہ گھر میں بیت الخلاء کی تعمیر سے نہ صرف صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں بلکہ خواتین اور نوعمر لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کے واقعات میں بھی کمی آئی ہے۔ ایک اور خاتون درگا کہتی ہیں کہ ”گاؤں میں ایک یا دو گھر اونچی ذات کے لوگوں کے ہیں۔ جب ان گھروں میں خواتین کے لیے بنائے گئے بیت الخلاء دیکھی تھی تومجھے بہت دکھ ہوتا تھا، میں سوچتی تھی کہ غریب اور شیڈول کاسٹ خواتین کو اتنی عزت کب ملے گی؟ لیکن آج میں بہت خوش ہوں کہ میرے گھر میں بھی اب بیت الخلا بن گیا ہے۔یہ صرف بیت الخلا نہیں ہے بلکہ حقیقت میں خواتین کے لئے عزت گھر ہے۔“

نہ صرف گاؤں بلکہ وہاں چلنے والے اسکول بھی صفائی کی شاندار مثال پیش کرتے ہیں۔ گاؤں کے مضافات میں واقع اپ گریڈ شدہ +2 اسکول میں صفائی کی بہتات دیکھی جاسکتی ہے۔ نہ صرف گراؤنڈ بلکہ اسکول کے تمام کلاس رومز بھی صاف ستھرے نظر آئیں گے۔ اسکول کے پرنسپل پون کمار کا کہنا ہے کہ آس پاس کے گاؤں سمیت اس اسکول میں تقریباً 1036 بچے پڑھتے ہیں۔ جن میں 576 لڑکیاں اور 460 لڑکے ہیں۔ انہیں پڑھانے کے لیے 16 مرد اور خواتین اساتذہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکول میں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ کلاس رومز اور کچن کی صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جہاں دوپہر کا کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ کھانا پکانے سے لے کر سرونگ تک کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں کیا جاتاہے۔ اسکول کے احاطے کو صاف رکھنے کے لیے خصوصی صفائی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔ نہ صرف اساتذہ بلکہ طلباء کے بیت الخلاء کی بھی ہر وقت صفائی ہوتی ہے۔نوعمر لڑکیوں کے زیر استعمال پیڈز کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے بھی اسکول میں انتظامات کیے گئے ہیں۔ پرنسپل کا کہنا ہے کہ اسکول میں مختلف جگہوں پر کوڑے دان رکھے گئے ہیں تاکہ کوئی طالب علم غلطی سے بھی یہاں اور وہاں گندگی نہ پھیلائے۔ 11 ویں کلاس میں پڑھنے والی 16 سالہ سونی کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے ٹوائلٹ میں ڈسٹ بن رکھے جاتے ہیں تاکہ ماہواری کے دوران استعمال ہونے والے پیڈز کواس میں ہی پھینکا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ریاستی حکومت پیڈ خریدنے کے لیے مالی طور پر کمزور لڑکیوں کے کھاتوں میں رقم براہ راست منتقل کرتی ہے۔ جبکہ اس سے قبل یہ سہولت صرف سکولوں میں فراہم کی جاتی تھی۔ ایک اور طالبہ مدھو بتاتی ہیں کہ ا سکول میں تمام تر سہولیات ہونے کے باوجود کچھ لڑکیاں ماہواری کے دوران سکول نہیں آتیں کیونکہ حکومت وقت پر پیڈ خریدنے کے پیسے نہیں دیتی جس کی وجہ سے آج بھی معاشی طور پر انتہائی غریب لڑکیاں ماہواری کے دوران کپڑا استعمال کرتی ہین۔ ایسے میں وہ اس دوران کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے اسکول نہیں آتی ہیں۔

اس سلسلے میں گاؤں کے سماجی کارکن سکھدیو پاسوان کا کہنا ہے کہ ملک کے ہر ضلع اور گاؤں میں صفائی کی نئی لہر شروع ہوچکی ہے۔ حکومت ہر گاؤں میں لوگوں میں صفائی کے بارے میں بیداری مہم چلا رہی ہے۔ اچھلا گاؤں میں بھی صفائی پر زور دیا جارہا ہے۔ گاؤں کے مختلف مقامات پر نہ صرف کوڑے دان کا انتظام کیا گیا ہے بلکہ اس کو ٹھکانے لگانے کے لیے ویسٹ مینجمنٹ کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ اس کے لیے گاؤں کے تمام وارڈوں میں ایک سپروائزر اور ایک صفائی کارکن کا تقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں میں روزانہ کچرا اٹھانے والی وین بھی آتی ہے جس پر لوگ اپنے گھر کا کچرا پھینکتے ہیں۔ اس طرح گاؤں نہ صرف صاف ستھرا ہوتا جا رہا ہے بلکہ صحت مند بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنا تعلیم اور روزگار ضروری ہے، اتنا ہی ایک صاف گاوں کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ صرف ایک صاف گاوں ہی ایک صاف ستھرا ہندوستان کی تشکیل کا باعث بنتا ہے، جس سے ایک صحت مند اور ترقی یافتہ ہندوستان کے دروازے کھلتے ہیں۔ (چرخہ فیچرس)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا