سسرالی رشتوں کو کیسے نبھائیں؟؟

0
0

عبدالظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910

اسلام فطرتاً رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی تعلیم دیتا ہے۔عمومی طور سے رشتوں کی تین اقسام ہیں۔فطری رشتے جو خاندان سے بنتے چلے جاتے ہیں۔ددھیالی اور ننھیالی رشتے۔دوسریقانونی رشتے جو نکاح کی وجہ سے وجود میں آتے اور اس سے مزید سسرالی رشتے بنتے چلے جاتے ہیں۔
تیسرے روحانی تعلق کے رشتے ہوتے ہیں۔ اپنے اساتذہ ،ہم جماعت دوست وساتھی،نظریہ اور عقائد کی ہم آہنگی کے رشتے۔
خونی رشتہ فطرت کے تحت قائم ہوتا ہے اور زوجین کا رشتہ شعور کے تحت۔ قانونی رشتوں میں جبر کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ اور خاندانی رشتوں میں درگذر۔رشتے جتنے خوش گوار ہوں گے زندگی پر مسرت ہوگی اور لطف زندگی ان رشتوں کے بندھن سے مہک اٹھے گی۔
مسلم معاشرے کے سات اہم اصولوں میں ایک دوسرے سے بغض نہ رکھنے،حسد نہ کرنے،قطع تعلق نہ کرنے اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کی تعلیمات اور آداب سکھائے گئے ہیں۔
فرمایا*جو صلہ رحمی کرے گا اللہ اسے اپنے ساتھ وابستہ کرلے گا۔جو قطع رحمی کرے گا اللہ اسیاپنے قرب اور رحم وکرم کی برکت سے محروم کر دے گا*۔صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب دوسرے اس کی رشتہ داری کا حق ضائع کریں وہ تب بھی ان کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔خوش گوار ازدواجی رشتوں میں اس بات کی کلیدی اہمیت اور اسلام کی واضح تعلیمات ہیں کہ زوجین کو چاہیے کہ اگر ایک دوسرے کے شرعی حقوق ادا نہیں کررہا ہے تو دوسرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے حقوق برابر ادا کرتا رہے۔تم اس عمل سے بڑی تبدیلی پاؤں گے۔
زیادہ تر جھگڑے اور اختلاف رسم ورواج کے نبھانے،فضولیات اور خرافات کے سبب شروع ہوتے ہیں۔الجھنیں ،شکایتیں ،نا چاکی۔کدورت اور جھگڑے۔حقوق ادا نہ کرنے کے سبب ہوتے ہیں۔صلہ رحمی ایک واجب عمل ہے جو پیار ومحبت کی فضا کو پروان چڑھاتا ہے۔ جسے خوش وخرم گھرانہ نصیب ہے وہ زندگی کی حقیقی شادمانیوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
ایک عربی مقولے میں استاد اور سسر کو اخلاقی اعتبار سے مجازی باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔نکاح کے بعد بیوی اور شوہر دونوں زوج کے سسرال جسے بیٹی کا میکہ اور بہو کا سسرال کہا جا تا ہے۔ سسرال میں داماد جس قدر عزت واحترم کے لائق ہے اسی طرح بہو بھی اپنے سسرال میں عزت ،پیار ومحبت اور احترامValidation کہ مستحقِ ہے۔
*خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم*
*انیس ٹھیس نہ لگ جائے آب گینوں کو*
سسرال سے اچھے ،خوش گوار بے لوث مخلصانہ تعلق کے عوض ان کے ہونے والے بچوں کو دادہیال نانہیال کے ساریرشتے اور ان کی طرف سے بے پناہ پیار ودلار اور حقوق ملتے ہیں۔ اچھے ماموں ،اچھی خالائیں۔،نانا نانی،اچھے دادا، دادی۔پیاری پھوپھی اور لاڈ اٹھانے والے چچا تایا۔۔۔پھر خالو ،پھوپھا ،چاچی اور بڑی اماں۔۔بچے کا حق ہے ہے کہ اسے دونون طرف سے پیار اور خوش گوار رشتے ملیں۔دونوں طرف سے بڑھ چڑھ کر محبت ملے ،حقوق ,تحفظ اور احترام حاصل ہوں۔یہ تمام رشتے محبت اور جذبات Imotional رشتے ہیں۔قرآن ہمیں ان رشتوں کی پاسداری کا حکم دیتا ہے۔*اللہ تمہیں عدل واحسان کرنے اور اقرباء کو دینے کا حکم دیتا ہے۔*(النحل 09)شوہر اور بیوی Spouse کو اس بات کا اچھی طرح دھیان رکھنا چاہیے کہ بچوّں کے سامنے اپنے ساس سسر کی برائی ،شکایت ،غیبت نہ کریں۔ یہ رشتوں میں دراڑ ڈالنے اور بچوں کو ان سے متنفر کرنے کا باعث ہوتے ہیں اور یہیں سے دلوں میں میل اور رشتوں میں کھٹاس کا بیج پروان چڑھتا ہے۔یہ رشتے ناطے نبھانا کچھ آرٹ سے کم نہیں۔محبت کرنا اور چاہے جانا زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے یہ ناطے بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کی ناقدری سے ہم بہت کچھ کھو دیتے ہیں۔ان کا احترام اورقدر ومنزلت انھیں پروان چڑھانے میں مددگار ہوتے ہیں۔بالخصوص علالت میں تیمار داری اور خدمت ،مختلف مواقعوں پر تحفے تحائف خواہ وہ کم قیمتی ہوں۔پھلوں ،مٹھائیوں۔کپڑوں اور ضرورت کی چیزوں کے تبادلے۔ تفریح میں ساتھ۔
*کون سا رشثہ صلہ رحمی اور حقوق کی ادائیگی کا پہلے حق دار ہے اور کونسا اس کے بعد ؟؟*
فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
"اپنی ماں کے ساتھ اور اپنے باپ کے ساتھ اور اپنی بہن کے ساتھ اور اپنے بھائی کیساتھ
حسن سلوک کرو،
اس کے بعد جو رشتے دار زیادہ قریب تر ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک کرو "۔(النسائ)
والدین کا حق واضح ہے۔ماں کی خدمت اور باپ کا حکم ماننا مقدم ہے۔
*یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے*
کبھی افراط وتفر یط کا شکار ہو کر اکثراسیر زلفی اور زن مریدی سے زوج Spouse کا زیادہ جھکاؤ سسرال کی طرف بڑھ جانے سے معاشرتی احترام اور رشتوں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ پیدا کرنے والے ماں باپ ،ساتھ رہنے والے بھاء بہنوں کی اچھی بات میں بھی کیڑے نظر آنے لگتے ہیں اور ان پر غصہ اتارنا ،برا بھلا کہنا ان کی ضروریات سے صرف نظر کرنے سے جنم لیتے ہیں گھریلو جھگڑے Conflicts ،شکایتوں کے دفتر ،گلے ،بحث ومباحثے،تمسخر،میکے کا غرور ،اپنی تعلیم کا زعم ،علیحدہ گھر اور آزادی کی جد وجہد اور حقوق کی کشمکش۔ چاہیے کہ سب کو برابر حق ملے۔سب کے حقوق ادا کیے جائیں۔فرائض سے غفلت رشتوں کو قطع رحمی کی طرف لے جاتی ہے۔۔صلہ رحمی کرنے والے وہ ہیں جو اپنے ٹوٹے رشتوں کو ملا لیتے ہیں۔ان میں حلاوت اور خوب صورتی آتی ہے ایثار ،احترام اور معاف کرنے اور درگذر سیاس سے فریق کی عزت میں اصافہ ہی ہوتا ہے کمی نہیں آتی ، وہ قربانی دے کر بڑا ہو جاتا ہے چھوٹا نہیں۔ چاہیے کہ اپنے عیوب کی خوب نگرانی کریں اور رفیق کے عیوب سے چشم پوشی۔
بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے میں رکاوٹ نہ بنے اسی طرح شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی میں صد راہ Hurdul نہ بنیے۔
Maximum Level or Trust for Husband and wife.
اچھا اور مثالی داماد سسرال میں مہمانوں کی طرح خدمت کرانے اور اسپیشل ٹرٹمیںٹ کا خواہش مند نہیں ہوتا بلکہ سسرال کے مسائل کے حل اور ان کے کاموں اور ضروریات کے پورا کرنے میں مددگار اور خادم ہوتا ہے۔ وہ اپنیہم زلفوں کے ساتھ بھائیوں ،دوستوں اور محسنین کا رول ادا کرتا ہے نہ کہ آپس میں فرق مراتب کا کھلا اظہار۔ بہت زیادہ بے تکلفی ، وقت بے وقت پھوہڑ مذاق،طنز وتشنہ،فقرے کسنے،نام بگاڑنے سے اجتناب کریں۔یہ تعلقات کو بگاڑ دیتے ہیں اور رشتوں کے ٹوٹنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔
بعض ظلم ایجاد بندے سسرال سے تعلق کو اس قدر ختم کر دیتے ہیں کہ بیٹیاں صورتیں دیکھنیکو ترستیں ہیں۔ضروری مواقعوں پر غیر حاضری اور ٹال مٹول یہ رویہ بھی سنگدلانہ اور ظالمانہ ہے۔۔
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ تم سے کوئی کرتا،تمہیں ناگوار ہوتا
بہو سسرال میں میکے جیسے عیش،دربہشت اور الھڑ ناز نخروں اور آرام دہ زندگی پسند کرنے کی بجائے سسرال میں سب کا دل جینے والی مددگار اور معاونہ ہو۔اپنے ماں باپ کی طرح ساس سسر کا احترام اور ان کی ضروریات بیٹی کی طرح ادا کرتی ہو۔اپنے نفس جو ایسا خوش گوار طرز زندگی اپنانے پر راضی کرلو ،نفس اور سوچ کی ایسی تربیت کرلو کہ سب تم سے خوش رہیں۔اسی لیے تو ساس سسر سے پردہ کرنے کا حکم نہیں ہے۔ان کے ادب اور احترام کا حکم ہے۔ہماری راہ میں تم نے ببول بوئے ہیںتم ان کے بدلے میں تازہ گلاب لے جاؤسب رشتہ دار برابر نہیں ،اہل خاندان کے حق مقدم ہیں ان کے بعد قرابت کے رشتہ دار۔۔دادا دادی ،نانا،نانی کے حقوق والدین کی طرح ہیں۔خالہ ،ماموں ( ماں کا منہ)کے حقوق ماں کی طرح۔چچا ،تایا پھوپھی باپ کی طرح ہوتے ہیں۔
سسرالی رشتوں کو بنائے رکھنا اور ان کو مستحکم کرنے سے وسیع اور مظبوط خانداث بنتا ہے۔آج معاشرے کو ایسے نیک اور ہمدرد افراد خانی کی ضرورت ہے۔خاندان میں دونوں طرف کے بزرگوں کا وجود خاندان کو تقویت پہنچاتا ہے اور سب کے حقوق وفرائض برابر ادا کیے جاتے ہیں۔
(فیملی کاؤنسلنگ سینٹرز پر پیش آمد مسائل سے ایک عنوان کی تفہیم)
سکینت کاؤنسلنگ سینٹر ممبئی
٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا