’سرحد کے اُس پار والاکشمیر پاکستان کا حصہ‘

0
0

نیشنل کانفرنس دفعہ 35اے کو منسوخ نہیں کرنے دے گی:: فاروق عبداللہ

سیدبشارت حسین

جموں؍؍جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکتر فاروق عبداللہ نے شیر کشمیر بھون جموں میں دوبارہ پارٹی صدر بننے کے بعد ایک اجتماع سے خطاب کیا جس میں موصوف نے علاقائی خود مختاری کا اعادہ کیا موصوف نے کہا کہ علاقائی خود مختاری دے کر عوام کی خواہشات کو پورا کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر میں علاقائی خود مختاری کی ضرورت ہے انہوں نے بھاجپا کا نام لینے کے بغیر دفعہ370کو کمزور کرنے والے عناصر کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ نیشنل کانفرنس دفعہ 35اے کو منسوخ نہیں کرنے دے گی جس کے منسوخ ہونے جموں و ریاست کے دیگر دونوں خطوں کو نقصان ہوگا اور باہر کے لوگ یہاں زمینیں لینے آئیں گے۔جموں؍؍نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پاکستان زیر قبضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے حالیہ بیانات پر ہونے والی تمام تر تنقید اور قانونی مہم جوئی کو نظرانداز کرتے ہوئے رواں ماہ میں تیسری مرتبہ کہا ہے کہ سرحد کے اس پار والا کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی دہرایا کہ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’شیو سینا بکواس سینا اور اس طرح کی دوسری تنظیموں سے وابستہ لوگ اصلی پاکستان ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو مذہب کے نام پر لڑاتے ہیں۔ انہوں نے ریاست کی محبوبہ مفتی کی قیادت والی مخلوط حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس حکومت نے کرسی کے لئے سب کچھ قربان کردیا ہے۔ فاروق عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار ہفتہ کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر شیر کشمیر بھون میں ان کے اعزاز میں منعقدہ تہنیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ تہنیتی تقریب فاروق عبداللہ کو حال ہی میں دوبارہ پارٹی صدر منتخب کئے جانے کے تناظر میں منعقدکی گئی تھی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پی ڈی پی کے سیلف رول پر سوالیہ عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے رایست کو خصوصی درجہ محفوط نہیں کیا جا سکتا جس نے جی ایس ٹی کے آگے سرنڈر کر دیا ۔اور عوام اس سرکار کے دور اقتدار میںبنیادی  مسائل سے دو چار ہے ،سرحدی علاقہ جات خوف و حراس کی زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ سرکار ناکام ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کے مسائل کے حل صرف خود مختاری میں ہے اور جنگ مسئلوں کا حل نہیں اس سے خون خرابا ہوتا ہے۔ڈاکٹر فاروق نے ریاستی سرکار کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ سوہن لال بھگت کی منی پور میں وفات کے بعد ان کے خاندان سے اظہار تعزیت کرنے پہنچے لیکن ریاست کے کسی بھی وزیر کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ غم کی گھڑی میں مرحوم کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار ہمدردی جتائی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اس سے عیاں ہو جاتا ہے کہ کس طرح سپاہی اور اس کے کنبہ کو کیسے دیکھا جاتا ہے۔نیشنل کانفرنس صدر نے اپنے حالیہ بیانات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ’ہاں میں کہتا ہوں کہ وہ (پاکستان زیر قبضہ کشمیر) ان کا (پاکستان کا) ہے۔ کیا وہ چوڑیاں پہنے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس بھی ایٹم بم ہیں۔ ان سے ہمیں مروانا ہے کیا۔ تم لوگ تو محلوں میں بیٹھے ہوئے ہو۔ اُس غریب کا سوچوں جو سرحد پر ہے اور روز وہاں بم پھٹ رہے ہیں۔ اس کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ میرے افراد خانہ گھر آئیں گے یا نہیں۔ تمہارے فوجی مر جاتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگوں میں اتھل پتھل مچی ہے۔ فاروق عبداللہ کے کہنے سے مرچی لگی ہے۔ سوال یہ ہے کہ میں نے کہا کیا۔ میں نے کہا کہ وہ حصہ جو ہے جس کو آپ پاکستان مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں، اور وہ اسے آزاد کشمیر کہتے ہیں (پاکستان کا ہے) ۔ میں نے کہا کہ 70 سال سے وہ پاکستان کے پاس ہے۔ ستر سال سے آپ نے وہ پاکستان سے لیا نہیں۔ چار جنگیں ہوئیں۔ پچھلی جنگ کرگل میں ہوئی۔ اس میں خود بی جے پی کے وزیر اعظم (اٹل بہاری واجپائی) کہتے ہیں کہ ہمیں ایل او سی کو پار نہیں کرنا ہے۔ آج یہ دھاڑے مار رہے ہیں کہ ہمیں وہ علاقہ لینا ہے۔ ارے نیشنل کانفرنس نے تمہیں کب روکا وہ علاقہ لینے سے۔ جو تم یہاں دھاڑے مار رہے ہو ، یہاں میرے پتلے جلا رہے ہو۔ بندوق لیکر سرحد پر جاؤ ۔ لڑو۔ لڑیں گے نہیں صرف دکھائیں گے۔ وہ کشمیر ہمارا ہے۔ وہ کشمیر ہمارا ہے‘۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ 1965 ء کی ہند و پاک جنگ کے دوران ہندوستان نے حاجی پیر کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا، لیکن تاشقند معاہدہ کرکے اس نے پاکستان کو وہ حصہ واپس دے دیا۔ انہوں نے کہا ’حال دیکھو۔ 65 ء میں جنگ ہوئی۔ کتنے ہمارے سپاہی اور افسر مارے گئے؟ اور ہم نے حاجی پیر حاصل کیا۔ اس حاجی پیر حاصل کرنے سے ہمیں اتنا فائدہ تھا کہ پونچھ اور اوڑی کا جو فیصلہ ہے وہ آپ ایک یا دو گھنٹے میں طے کرسکتے تھے۔ مگر معاہدہ کس نے کیا۔ ہندوستان کی حکومت نے کیا نا۔ تاشقند معاہدہ روسی صدر کی موجودگی میں کیا گیا۔ پاکستان کے صدر بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے وہ زمین واپس کرلی۔ کیا نیشنل کانفرنس سے اس وقت پوچھا گیا کہ زمین واپس کردی جائے یا نہ کردی جائے۔ آج ہمیں دھاڑے مار رہے ہیں۔ مجھے کورٹ میں بھی لے جارہے ہیں۔ مبارک ہو۔ اللہ کا شکر ہے، وہاں بھی ہم سچ بولیں گے‘۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اٹانومی کا مطالبہ پاکستان یا چین سے نہیں کررہی ہے بلکہ اس اٹانومی کا مطالبہ کررہی ہے جو ریاست کو پہلے حاصل تھی۔ انہوں نے کہا ’ہم نے آزادی نہیں مانگی۔ مودی جی سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ کب نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ہم آزادی چاہتے ہیں۔ کب ہم نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ جانا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے اپنی خودمختاری مانگی ہے۔ وہ خودمختاری جس کو ہم نے اسمبلی میں منظور کیا ہے۔ وہ خودمختاری ملک کے آئین میں ہے، پاکستان کے آئین میں نہیں۔ وہ چین کے آئین میں نہیں ہے۔ وہاں لکھا ہے کہ دفعہ 370 آپ کو یہ حق دیتا ہے کہ آپ اس زمین کے مالک ہیں‘۔ نیشنل کانفرنس صدر نے ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی دفعہ 35 اے کے خلاف ہورہی سازشوں کے حوالے سے کہا ’لیکن اٹانومی دینے کے بجائے وہ 35 اے کو نکالنا چاہتے ہیں۔ شور کرنے والے یہ جموں والے (بی جے پی والے) جنہوں نے 26 سیٹیں لی ہیں، ان سے کہئے کہ پہلا حملہ آپ پر ہوگا۔ پہلے لوگ آپ کی زمینوں پر حملہ کریں گے۔ یہ صرف الیکشن کے لئے فراڈ کررہے ہیں۔ مسلمانوں اور ہندؤں کو لڑانے کی کوشش کررہے ہیں‘۔ بی جے پی لیڈر رنجیت بہادر شریواستوکی مسلمانوں کو دھمکی کے حوالے سے فاروق عبداللہ نے کہا ’آج دیکھئے اترپردیش میں مسلمانوں کو دھمکایا جاتا ہے کہ خبردار تم نے ہمیں ووٹ نہیں دیا تو ہم تمہیں دکھائیں گے۔ ارے یہ ہندوستان تمہارے باپ کا ہندوستان نہیں ہے۔ یہ ہندوستان سب کا ہے۔ انہیں آئینی حق ہے کہ وہ کس کو ووٹ دینا چاہتے ہیں اور کس کو نہیں دینا چاہتے ہیں۔ کسی سے آپ زور زبردستی نہیں کرسکتے ۔ ان حرکتوں سے تم نے ایک پاکستان تو بنا ڈالا اور کتنے پاکستان بناؤ گے۔ کتنے اور ٹکڑے کرو گے ہندوستان کے۔ ہم نے تو مضبوط ہندوستان کے لئے ووٹ دیا ہے۔ ہم نے کمزور ہندوستان کے لئے کبھی ووٹ نہیں دیا ہے۔ اگر انہیں یہ چیزیں کرنی ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ نیشنل کانفرنس ان سے لڑنے کے لئے تیار ہے۔ شیطان تھوڑی دیر کے لئے کامیاب ہوسکتا ہے۔ آخر کار شیطان کو گرنا ہے اور وہ گرے گا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’شیو سینا بکواس سینا اور اس طرح کی دوسری تنظیموں سے وابستہ لوگ اصلی پاکستان ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو مذہب کے نام پر لڑاتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’حال ہی میں نے ان حصوں کا دورہ کیا جو پاکستان کے بالکل قریب ہیں۔ میں ٹیٹوال اور مژھل میں حیران ہوگیا کہ پہاڑ کے اُدھر (پاکستان زیر قبضہ کشمیر میں) سڑک بہترین اور پہاڑ کے ادھر سڑکیں انتہائی خستہ ہیں۔ جیسے وہ ہندوستان کا حصہ ہی نہیں۔ وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر وہاں کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو صرف اللہ اس کا محافظ ہوتا ہے۔ میں اس اسٹیج سے حکومت سے کہتا ہوں کہ ان کی طرف بھی تو نظر ڈالو۔ اب وہ علاقے برف پڑنے سے چھ مہینوں کے لئے بند ہوجائیں گے۔ وہ آج بھی یہی کہتے ہیں ہم پاکستانی نہیں ہیں۔ ہمیں پاکستان نہیں جانا ہے۔ ہم ہیں تو اس بڑے وطن کے ساتھ ہیں۔ یہ جو ہمارے سیو سینا اور بکواس سینا ہے، انہیں یہ دیکھنا چاہیے۔ جو ہمیں پاکستانی کہتے ہیں، ارے پاکستانی تو تم ہو۔ جو ملک کا بھیڑہ غرق کررہے ہو۔ مذہب کے نام پر لڑائی کرا رہے ہو۔ ہم مذاہب کے نام پر لڑائی نہیں چاہتے ہیں‘۔ فاروق عبداللہ نے جنگی بیواؤں کی حالت زار کا پتہ لگانے کے لئے کمیشن بٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ’آج یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ جب یہ سپاہی یا افسر مرتا ہے ، اس وقت یہ زبردست بغل بجاتے ہیں۔ ابھی ہمارے یہاں این ایس جی کا ایک اہلکار جاں بحق ہوگیا، جو منی پور کے وزیر اعلیٰ کا محافظ تھا۔ آپ یقین کریں گے، اِس ناکام حکومت میں سے کوئی وہاں نہیں گیا۔ صرف فوجی اس کے جسد خاکی کو اس کے گھر لے گئے۔ دوسرا سپاہی مرا تو پوری سرکار کو اس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پہنچی۔ میں مرکز سے کہتا ہوں کہ وہ ایک کمیشن بٹھائیں اور معلوم کرے کہ جنگی بیواؤں کی حالت کیا ہے۔ ان عورتوں کو ایسے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ خدا ہی جانتا ہے۔ جنرل راوت میں آپ سے کہتا ہوں۔ آپ ان کے باپ ہیں۔ ذرا معلوم تو کرو ان کا حال کیا ہے۔ ایک رپورٹ تو مرتب کراؤ۔ جنگ کرنا تو آسان ہے، لیکن ان کا حال بھی تو دیکھو۔ انشاء اللہ جب نیشنل کانفرنس کی حکومت آئے گی تو ہم کمیشن بٹھاکر ان عورتوں کا حال جانیں گے‘۔ فاروق عبداللہ نے ریاست کی محبوبہ مفتی کی قیادت والی مخلوط حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس حکومت نے کرسی کے لئے سب کچھ قربان کردیا۔ انہوں نے کہا ’اس حکومت نے کرسی کے لئے سب کچھ قربان کردیا ہے۔ اگر ہمیں جی ایس ٹی میں کسی رعایت کی ضرورت پڑتی ہے تو ہمیں جی ایس ٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ ہمیں مالی خودمختاری حاصل تھی لیکن اس حکومت نے وہ بھی سرینڈر کردی۔ آج حالت یہ ہے کہ چور دروازے سے لوگوں کو نوکریاں دی جارہی ہیں۔ اور پڑھے لکھے ہمارے بچے بیکار بیٹھے ہوئے ہیں۔ ابھی وہ اننت ناگ گئیںاور افسروں سے کہا کہ یہ لوگ ہیں، صرف انہیں بھرتی کرنا ہے۔ اس نے یہ نہیں دیکھا کہ خدا سب کا ہے صرف ایک کا نہیں ہے۔ ایک دن آئے گا جب تمہیں حساب دینا پڑے گا‘۔ قابل ذکر ہے کہ فاروق عبداللہ کو اس وقت اپنے حالیہ بیانات کی وجہ سے چوطرفہ تنقید کا سامنا ہے۔ انہوں نے 15 نومبر کو شمالی کشمیر کے اوڑی میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان زیر قبضہ کشمیر‘ ہندوستان میں کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے اور سرحد کے اس پار پاکستان نے کوئی چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔ اس سے قبل نیشنل کانفرنس صدر نے 11 نومبر کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر نوائے صبح کمپلیکس میں پارٹی کے اجلاسوں کے موقع پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک لینڈ لاکڈ (چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا) خطہ ہے اور اس کے تینوں پڑوسی چین، پاکستان اور ہندوستان ایٹم بم رکھتے ہیں۔ اور کشمیریوں کے پاس اللہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ(فاروق عبداللہ) پوری دنیا سے کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے، وہ پاکستان کا ہے۔ جو حصہ ہندوستان کے پاس ہے، وہ حصہ ہندوستان کا ہے۔ فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیر کے دونوں حصوں کو اٹانومی دینے میں پنہاں ہے۔ اس موقع پر نیشنل کانفرنس صوبائی صدر دویندر سنگھ رانا نے منتظمین اور کارکنان کی جانب سے استقبال کیا اور سینئر لیڈران نے گلدستہ اور ہاروں سے موصوف کا پارٹی صدر منتخب ہونے پر خیر مقدم کیا ۔اجلاس میں سرجیت سنگھ سلاتھیہ،اجے کمار سدھوترہ، سید احمد بخاری،رچھپال سنگھ، عبدالغنی ملک، رتن لال گپتا، ٹھاکر کشمیرا سنگھ، رامپال، شیخ بشیر احمد، الحاج محمد حسین، ستونت کور ڈوگرہ، وجے بکایا،اعجاز جان، ایم ایل سی شہناز گنائی،ڈاکٹر کمل آروڑا،مرزا عبدالرشید، شیخ عبدالرحمان، قاضی جلال الدین، برج موہن شرما، چوہدری رحیم داد، بھوشن لال بھگت، بملا لتھرا، وجے لکشمی دتا، غلام حیدر ملک، باغ حسین راٹھور، بھوشن اپال، شفاعت احمد کان، تنویر احمد کچلو، جگ کیون لال، شمشاد شان، سنیل ورما، رومی کھجوریہ، اجیت کمار شرما، دھرمویر سنگھ، موہندر گپتا، شفاقت میر، محمد عارف میر، رام پرشوتم شرما، چوہدری رحمت علی، سنجے گپتا، روی ڈوگرہ، سچا سنگھ، جگل مہاجن، گردیپ سنگھ ساسن، چوہدری ہارون، محمد ایوب ملک، سرندر سنگھ بنٹی، انیل دھر، دھان چند، وپن پال شرما، پردیپ بالی، جی ایچ ملک، دلشاد ملک، ریتا گپتا، رشیدہ بیگم،دلجیت شرما، اسرار خان، وجے لوچن، افتخار احمد چوہدری، محمد شفیع ملک، نار سنگھ، روحیت کرنی،روہیت بالی، ریاض احمد، وینا اوبرائے، راکیش سنگھ راکا، ایم ایل منشی، کومل منہاس، ایم کے یوگی، یشوردن سنگھ، وقار لون و دیگران موجود تھے ۔(مشمولات یواین آئی)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا