’سخت سزانہیں سوچ بدلنے کی ضرورت‘

0
0

2008کے بعدجموں کی فضامیںفرقہ پرستی کازہر:انورادھابھسین

  • معروف صحافیہ انورادھابھسین نے اس موقع پراپنے خیالات رکھتے ہوئے کہاکہ خواتین کوہردورمیں بے عزت کیاگیا،یہ1984یااس کے بعد کے معاملات نہیں ہیں بلکہ یہ پرانے دور سے رواں دواں ہیں، دوسری عالمی جنگ کے دورمیں بھی لاکھوںخواتین ظلم وزیادتیوں کاشکارہوئیں، جنگیں خواتین وبچوں کیلئے مصیبت لیکرآتی ہیں،آج بھی وہی ذہنیت ہے، آج بھی ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش میں لاکھوں خواتین ظلم وزیادتیوں کاشکارہیں،حیوانیت اوردرندگی کاشکارہیں،اُنہوںنے کہاکہ ذات،فرقہ پرستی کاشکار،جنگی زدہ علاقوں میں خواتین کیساتھ ظلم ہوتاہے،رسانہ جیسے منتخبہ معاملات کوپکڑنااچھانہیں ، 1947کے دنگے کیاہم بھول گئے ، کیاہم منٹوکی کہانیاںبھول گئے ، کیسی حیوانیت خواتین نے جھیلی، امریتاپریتم کی نظم میں جودردبیان کیا،وہ سمجھنے کی ضرورت ہے،برصغیرمیں آج لاکھوں بچیاںحیوانیت کاشکارہیں۔اُنہوںنے کہاکہ ہمیں مسلسل جدوجہدکی ضرورت ہے۔ سزائے موت کوئی ح نہیں ، اگرایساہواتوپھرجنسی زیادتی کیساتھ قتل بھی ہونگے کیونکہ درندہ صفت عناصرثبوت مٹانے کیلئے متاثرہ کوہی مٹادیں گے۔روزمرہ زندگی میں خواتین کیساتھ ہرموڑ پرظلم وجبرہوتاہے، ہمیں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔اُنہوں نے کہاکہ تحقیقات کے ابتدائی مراحل میں میکانزم کی بات قابل غور ہے، اس پرعمل درآمد ہوناچاہئے، ابتدامیں تحقیقات کوتاہیوں سے پاک ہوتوانصاف تک جلد پہنچاجاسکتاہے۔اُنہوں نے رسانہ معاملے پرسی بی آئی جانچ کو بیوقوفانہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہاں سی بی آئی جانچ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔اُنہوں نے کہاکہ سی بی آئی جانچ کیلئے کوئی ٹھوس بنیادہونی چاہئے جو اس معاملے میں ہے ہی نہیں۔اُنہوں نے کہاکہ یہ حق ملزم کو کس نے دیاکہ و ہ سی بی آئی کی جانچ مانگے بلکہ کوئی مانگ ، شک شبہات رکھنے ہوں تووہ متاثرین رکھتے ہیں۔انہوںنے ملزمان کیساتھ سیاسی ہمدردیوں کوشرمناک قرار دیتے ہوئے کہاکہ ان کی جتنی مخالفت ہوسکے ہونی چاہئے۔اُنہوںنے کہاکہ تسلسل سے انصاف کیلئے لڑناہوگا، آج بہت سازشیں ہورہی ہیں، معاملے کوکمزورکرنے کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن دیپیکاسنگھ رجاوت کی بہادری کوسلام کرناہوگا۔ان کی داددینی پڑیگی جس بہادری سے وہ ڈٹی ہوئی ہیں۔اکیلی لڑنے لگی تھیں اورآج دنیاان کیساتھ ہے۔اُنہوںنے کہاکہ طالب چوہدری نے ابتداء سے ہی اس معاملے کواُبھارا، اُچھالااورہرفورم تک پہنچایا، وہ بھی قابل ستائش ہے۔اُنہوں نے کہاکہ رسانہ معاملے میں ہم نے باہرآنے میں دیرکردی۔ہمیں پہلے ہی باہرآناچاہئے تھا۔انورادھابھسین نے بڑھتی فرقہ پرستی کراپنی فکرمندی ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ ریاست جموں وکشمیرنے مختلف مشکل وقت دیکھے ،1947کاتقسیم ِ وطن کادور ہو،1984کادوردیکھا،1990کادوردیکھا ،ہرآزمائش میں جموں نے اپنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کادامن نہیں چھوڑا۔لیکن 2008کے بعد ذہنیت زہرآلودہ ہونے لگی اورنفرت کی آندھی چلی، سیاسی مفادات کیلئے یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تار تارکرنے کی سازشیں کی جانے لگیں، ہندوانتہاپسندتنظیموں نے سراُٹھاناشروع کردیا،اُنہوںنے کہاکہ یہ دور، ایسی سوچ اور ایسی سازشیں یقیناایک چیلنج ہیں جن کامقابلہ کرنے کیلئے ہم سب کوایک ہوناہوگا۔اُنہوں نے کہاکہ خواتین کیساتھ جرایئم کے معاملات سامنے کم آتے ہیں، خواتین کوآگے آناچاہئے، ظلم کیخلاف آواز بلندکرنی چاہئے۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا