سحر زدہ لہجے کا شاعر :حافظ کرناٹکی

0
0

خواجہ کوثرحیات
شاعر اور ادیب ہی سماج کے بدلتے رحجانات کا نقشہ اپنی تحریروں کے ذریعہ قلمبند کرتا ہے۔ یعنی وہ حالات کا بہترین نباض ہوتا ہے۔ ویسے تو اردو کے دبستان کے طور پر دلّی ، لکھنو اور دکن کا ہمیشہ نام لیا جاتا آیا ہے مگر ہر ریاست نے مسلمہ طور پر اردو کی خدمات اور آبیاری کا فریضہ بحسن و خوبی ادا کیا۔ جس میں کرناٹک بھی اپنی مثال آپ ہے۔
اردو ادب میں کرناٹک سے عبدالقادر ادیب، مدنامنظر، آزاد ساحری، نفیس بنگلوری، اسدؔ اعجاز، انیس ابراہیم، اعظم اثر، سردار ایاغ ، الف احمد برق، سلیم ہاشمی، اقبال فریدی، رزاق افسر، داؤدمحسن، اعجازتماپوری، فاطمہ ٹمکوری، سرورمرزائی، عبدالرحیم آرزو، خمار قریشی، خورشید وحید، وحیدمراد، محسن کمال، رشید بیدری، مظہر مبارک، ظہیربایار، چنداحسینی اکبروغیرہ یہ وہ شعراء ہیں جنھوں نے اپنے کلام سے زرخیزی کو بنائے رکھا۔
ان ناموں میں ایک نام امجد حسین حافظ کرناٹکی کا ہے جو ہمہ جہتوں کے مالک ہے نہ صرف شاعری کرتے ہے بلکہ ادیب و بہترین نقاد بھی ہے ادب اطفال سے تو جیسے انہیں خصوصی لگاو رہا کیونکہ انھیں بچوں کے درمیان رہنے کے بہت مواقع میسر آئے اور انہوں نے بچوں کی جبلتوں اور ان کی ضروریات کو بہت قریب سے دیکھا ہی نہیں محسوس کیا اور ان کی تشقی کے لیے ادب اطفال کی کمان سنبھالی اور ایک بڑا اثاثہ ادب اطفال میں آپ کی مرہون منت جمع ہوپایا۔
حافظ کرناٹکی بھارت کی ریاست کرناٹک کے شیموگہ ضلع کے شکار پوری میں 18؍جون 1964ء کو ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی تعلیم کیلئے کوشاں وسرگرداںحافظ کرناٹکی ادیب، فاضل، ایم۔اے، بی۔ایڈ کی تعلیم سے آراستہ ہوئے ان کی ادب اور سماجی امور میں خدمات کے پیش نظر انہیں دوبار اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازہ گیا۔آپ کو اعزازی طور پر ڈاکٹر آف ہیومینٹی کی سند تفویض کی گئی۔یہی نہیں مسلسل ادبی خدمات پر آپ کو مزید برآں درجنوں اعزازات اور انعامات سے نوازے گئے۔
یوں تو ان کی اسّی سے زائد کتابیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں۔مگر بچوں کی ادب کی خصوصی اہمیت کو محسوس کرکے آپ نے ادب اطفال پر خاص خامہ فرسائی کی ہے جس میں انہوں نے بچوں کی نفسیات اور دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے، دینی، سماجی اور تعلیمی موضوعات پرچالیس سے زیادہ نظموں اور کہانیوں کی کتابیں تصنیف کی ہیں۔
ان اشعار سے بچوں کے لیے ان کی تڑپ اور محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
باغ اطفال کی بہاروں میں
لمحہ لمحہ اسیر ہوتا ہے
بچوں کے واسطے ہے فن میرا
مجھ کو غالب نہ میر ہونا ہے
رب کائنات کی حمد وثنا ہو یا مدحت رسول میں لکھی گئی نعتیہ کلام پڑھ کر طبیعت فرحت انبساط سے معمور ہوجاتی ہے۔ بیشک آپ کی تخیل کی پرواز کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ آپ کے کلام میں صداقت و ایمانی درس بھی نمایاں نظر آتا ہے اور صبر کی تلقین،بڑوں کاادب احترام،شفقتانہ و مخلصانہ کا درس بھی آپ کے کلام کا خاصہ ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ
’’ میری ابتدائی تعلیم و تربیت میں میرے والدین کا بہت ہی اہم رول ہے۔ والدہ کو شاعری کا بھی ذوق تھا وہ کلاس روم میں اپنے طالب علموں کو حمدیں، اور مناجاتیں کہہ کر سنایا کرتی تھیں۔آپ جانتے ہیں کہ میں نظم و نثر دونوں میں حتی المقدور کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں اور دونوں اصناف میں میری کئی کتابیں آچکی ہیں اس تناظر میں میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ میں شاعرہوں یا ادیب۔ ‘‘
ان کا کلام مدحت رسول کی محبت اور عشق رسول کا غماز ہوتا ہے ۔ وہ عام فہم الفاظ میں بھی نہایت خوبصورتی سے جذبہ عشق رسولؐ سے معمور نعت لکھتے ہیں ۔آپکا کلام شریعت اور اسلامی علوم کا آئینہ دار اور منجملہ شعری محاسن سے لبریز ہوتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں ؎
آگیا لب پہ بچوں کے ذکر نبیؐ
ہوگئی ہر طرف روشنی روشنی
ہے یہی روح و دل کے لئے تازگی
پڑھتے رہئے ہمیشہ درودِ نبیؐ
ان کی تقلید واجب ہے سنو
درس روشن نبیؐ جی کی تھی زندگی
بالیقیں تھے وہ خیر البشر اس لیے
تذکرہ ان کاہوگا صدی در صدی
دشمنوں سے بھی دوستانہ سلوک
ان کا گرویدہ ہے بچو ہر آدمی
مسکراہٹ نبیؐ کی ذرا دیکھئے
کھل گئی باغ میں جیسے کوئی کلی
میری اوقات کیا حافظ امجد حسین
ان کے ہی دم سے ہے مری شاعری
وہ ایک حقیقت پسند شاعر ہے۔ہمیشہ انہوں نے ادب اطفال کو فوقیت دی اور نظم ، رباعی اور قطعہ کی صورت میں بچوں کی تربیت اور اصلاح کے پیش نظر لکھا۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعہ بچوں کو صحت افزا اصولوں سے واقفیت کرواتے رہتے ہیں۔ان کی ’’توانائی‘‘ پر نظم ملاحظہ فرمائیں۔
غذا سے توانائی تن کو ملے
ہیں لمبے توانائی کے سلسلے
توانائی جیون کی جیوتی بھی ہے
یہ حرکی و پوشیدہ ہوتی بھی ہے
توانائی طاقت کا ذریعہ بنے
یہ ہر کام کا اک وسیلہ بنے
مشینوں کی بس اہمیت آج ہے
کہ برقی توانائی کا راج ہے
توانائی جس کو کہیں جوہری
بنے اس سے ہتھیار سب ایٹمی
حرارت ہے صورت توانائی کی
نہ ہو بات کیوں کر یہ گہرائی کی
ہے حافظؔ توانائی سے زندگی
کرو قدر ہر پل توانائی کی
ادب کی ہر صنف پر کمال دسترس رکھنے والی شخصیت جب نثر نگاری پر آتی ہے تو کمال و عرفان کی اونچائیو ں کو چھولیتی ہے اور جب غزل کی زمین پر کام ہوتا ہے تو معنوں لفظ خود بخود ڈھل کر با ادب کھڑئے ہوجاتے ہیں۔ مناجات ایسی کے فرحت و انبساط ،احترام سے دل معمور ہوجائے ۔ آپ کا طرزِ اظہار فطری نوعیت کا حامل ہے۔ان کا یہ کلام قابل توجہ ہے ؎
کئی جلوے تری پہچان کے دھوکے سے نکلے ہیں
سیاست سینکڑوں چہرے ترے چہرے سے نکلے ہیں
ہمارے دور کے بچے سبق پڑھتے ہیں چاہت کا
کتابوں کے بجائے دل ہر اک بستے سے نکلے ہیں
ہر اک بھائی کی خواہش ہے کہ بٹوارا ہو اب گھر کا
ابھی ہم ملک کی تقسیم کے صدمے سے نکلے ہیں
……
چڑھی ہے بھوک کی ہانڈی جہاں پر
وہیں فاقہ ابالا جارہا ہے
سنا ہے ایک سوئی گرگئی تھی
سمندر کو کھنگالا جارہا ہے
چاہے نظم ہو غزل یا پھر رباعی یا مناجات وہ شاعری کے میدان میں اپنے فن و تخیل کی پرواز سے جذبات میں مگن و رقصاں سچائی کا رنگ اس طرح گھولتے کے احساسات و مشاہدات سے خود گزرنے کا گماں ہوتا ہے۔الفاظ کو زندگی کے نشیب وفراز میں رونما ہونیوالے درد، کرب،مجبوریوں کو تحریر کا جامہ زیب تن کروانے والا منفرد اسلوب کا معروف شاعرحافظ کرناٹکی۔ان کا یہ کلام ملاحظہ فرمائیں ؎

عقل سے کام کر
دہر میں نام کر
میں نے دیکھا اسے
اپنا دل تھام کر
قوم کا ہو بھلا
ایسا اقدام کر
اپنا ہر رنج و غم
تو مرے نام کر
زندگی ہے یہی
صبح سے شام کر
مول اپنا بڑھا
مجھ کو بے دام کر
دیر حافظؔ نہ ہو
جلد ہر کام کر
انہوں نے عام لوگوں کے فہم و شعور اور ذوق پر نگاہ رکھی ۔وہ لکھتے ہیں۔
آخری سانس تلک جیون کی
مرد کی شان ہے محنت کرنا
فرض سے حج کے ہے افضل حافظؔ
بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنا
………
خلاق ہے و خلق کیا کرتا ہے
رازق ہے وہ رزق عطا کرتا ہے
اس نے ہی بقاء بخشی ہے جانداروں کو
جب چاہے جسے چاہے فنا کرتا ہے
……
راتوں کی سیاہی میں چمکتا ہوا نور
ایماندار آنکھوں سے جھلکتا ہوا نور
سب اسی کا ہی پرتو ہے قسم ہے اس کی
آیات قرأنی میں دمکتا ہوا نور
ان کے کلام میں فکر اور جذبوں کی آمیزش ملتی ہے۔ان کے پاس قدروں کی بڑی اہمیت ہے جو ان کے کلام کا خاصہ ہے۔ یہاں تک کہ زندگی اور موت،منازلِ حیات اور مناظر قدرت موسم اور تہوار،امارت اور افلاس، مشاغلِ زندگی،خدا شناسی اور صنم آشنائی،ظرافت اور عبرت غرض کہ جس عنوان کو قلمبند کیا وہاں زبان، اندازِ بیان اور تشبیہات اور استعارات کے لحاظ سے پڑھنے والوں کے ایک بڑے دائرہ کو اہمیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں زندگی کے کئی پہلووں سے غیر معمولی واقفیت، درد، شدت ، بھوک ، ناگزیر حالات سے جدوجہد کی روداد، روایتوں کا بکھرتا شیرازہ ، ظلم و استحصال کا شکار معاشرہ اور عیش پسند قیادتوں کی دلیل ملتی ہے۔ انسانی ہمدردی اور خلوص کے جذبوں سے مزین ان کی تخلیقات انہیں ایک بلند پایہ شاعر اور ادیب بناتی ہے۔
محترم حافظ کرناٹکی صاحب کی غزلیں مرصع ہوتیں جس میں کلاسیکیت کی چاشنی اور جدید لہجہ کی کھنک دونوں ہی موجود ہیں۔ چند فلسفیانہ اشارے بھی جو سماجی کرب کو بیان کرتے نظر آ تے ہیں۔انکی غزلوں کو اردو شعرو ادب کا کارآمد سرمایہ کہا جاسکتا ہے۔

دل میں دھڑکن لب میں جنبش چاہیے
زندہ رہنے کو یہ ورزش چاہیے
آدمی ہونے کا دینے کو ثبوت
پاؤں میں تھوڑی سی لغزش چاہیے
بیٹھے بیٹھے قسمتیں بنتی نہیں
عزم محنت اور کوشش چاہیے
……
میں نے دیکھ رکھا ہے صبح نو کا اک سپنا
جس کے واسطے شب بھر اپنا دل جلاتے ہیں
زندگی ہماری اب اس طرح گزرتی ہے
وہ ہمارے ہم ان کے حوصلے بڑھاتے ہیں
نیند کے جزیرے میں مجھ کو دیکھ کر حافظ
خواب خود ہی تعبیریں ساتھ لے کے آتے ہیں
سچے الفاظ شعلوں سے کچھ کم نہیں
جن کو لکھ لکھ کے جلتا ہے میرا قلم
اس سے ملنے کوئی ہاتھ بڑھتا نہیں
جس کے دل میں نہ ہو انجمن کا لحاظ
میں ہوں خورشید میرے لئے ہے اہم
اپنی اک اک چمکتی کرن کا لحاظ
میرا ہر شعر بے نظیر ہوا
میری سوچیں مثال تک پہنچیں
جتنی چنگاریاں تھیں ماضی کی
ڈھل کے شعلوں میں حال تک پہنچیں
اتنا ہوتا ہے احترام اس کا
جتنا جو خاکسار ہوتا ہے
………
یہ مہکتے ہوئے جذبات یہ اشعار کے پھول
کاش کام آئیں کسی کے مرے افکار کے پھول
میرے دل نے جو سجا رکھے ہیں زخموں کی طرح
کھل نہ پائے کسی گلشن میں وہ معیار کے پھول
سونگھتی ہیں انہیں خوش ہو کے بہشتی حوریں
سرفروشوں کے بدن پر ہیں جو تلوار کے پھول
یہ مرے اشک ندامت ہیں خدا کو محبوب
دنیا والوں کی نگاہوں میں ہیں بیکار کے پھول
مجھ کو تحفے میں عطا اس نے کئے ہیں حافظؔ
کبھی انکار کے کانٹے کبھی اقرار کے پھول
ایک ادیب و شاعر کو اپنے عہد کے بدلتے ہوئے اقدار و رجحانات سے واقف رہنا ضروری ہے تب ہی وہ سماج کا نباض کہلائے گا۔اللہ نے ان کے ذہن و قلم کو وہ گویائی عطا کی ہے کہ جس موضوع کو منتخب کرتے گہرائی سے پر مغز لکھتے۔نہ صرف شاعر کی رموز واوقاف پر مکمل دسترس رکھتے بلکہ ان کے محاسن پر کمال حاصل ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔

مری وفا کی وہ پہچان بھی نہیں رکھتے
صلہ تو دور ہے احسان بھی نہیں رکھتے
وہ برکتوں کے فرشتوں کے انتظار میں ہیں
گھروں میں اپنے جو قرآن بھی نہیں رکھتے
جنہیں خلوص کی خوشبو عزیز ہوتی ہے
وہ اپنی میز پہ گلدان بھی نہیں رکھتے
وہ حادثوں سے ڈراتے ہیں اپنے بچوں کو
دیوں کے سامنے طوفان بھی نہیں رکھتے
بڑے عجیب مسافر ہیں ہم بھی اے حافظؔ
سفر پہ نکلے ہیں سامان بھی نہیں رکھتے
حافظ کرناٹکی کے کلام میں بلاغت لسانیات اور خود اعتمادی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔حافظ قرآن حافظ کرناٹکی قوت ایمانی کو بیدار کرتے اور بے اعتدالیوں اور مکروہ سوچ کی ہمہ وقت نفی کرتے اپنے رباعی میں وہ لکھتے ہیں ؎

دو وقت کی روٹی کے لیے بیچ دوں خود کو
یارب مجھے ملت کا وہ مُلّا نہ بنا تو
جب اپنے اصولوں کا ہی میں غدار ٹھروں
وہ دن نہ کبھی اے میرے اللہ دکھا تو
……
آج کل بھروسے کا مول ہی نہیں کوئی
وعدے توڑے جاتے ہیں اعتبار بکتا ہے
صرف مفلسوں کی ہی بولیاں نہیں لگتیں
موقع ہاتھ آتے ہی مالدار بکتا ہے
سخت تر ارادے بھی پانی پانی ہوتے ہیں
بے بسی کے موسم میں اختیار بکتا ہے
فنی چابکدستی اور ترجمانی میں آپ نے کمال ہنر منداور مشاق طرز کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپکا طرزِ اظہار فطری نوعیت کا حامل ہے۔
مرے لب پہ رب جلیل اب
ترا ذکر ہے ترا نام ہے
تری دسترس میں ہے کائنات
نہ سحر ہے اپنی نہ شام ہے
سحرزدہ لہجہ حافظ کرناٹکی کا خاصہ ہے۔انہوں نے اپنا قلم ہمیشہ اصلاحی،اخلاقی پہلوؤں کی عکاسی کے لیے اٹھایا اگر ان کی نثری و شعری تخلیقات کا جائزہ لیں تو ادراک ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی تمام تر تحریری اثاثہ میں حسن اخلاق، پیارو محبت، وطن پرستی اور انسانی قدروں کو فوقیت دی اور صالح قدروں پر مبنی معاشرہ اور صحت مند رحجانات کی ترویج کی کوشش کی ہے۔ حافظ کرناٹکی متحرک اور فعل شخصیت کے مالک ہیں۔
بارگا تعالی کے روبرو دعاگو ہوں کہ وہ قلم کے اس شہسوار کو ادب میں بہترین اضافہ کا باعث بنائے ادب جہان میں ان کی شفاف دلی اور نیک نیتی کی کاوشوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔

٭٭٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا