سال اچھا یا برا کہاں ہوتا ہے ؟

0
0

 

 

 

 

 

 

 

محمد اعظم شاہد
سال 2023 ہم سے رخصتی کے دہانے پر ہے ، ویسے کوئی بھی سال اپنے مقررہ نظام وقت کے ساتھ آتا اور جاتا رہتا ہے ، سال اچھا یا برا اپنے آپ میں نہیں ہوتا، کسی بھی سال میں روبرو ہونے والے حالات، واقعات اس سال میںجینے والوں کے لیے ان پر اثر انداز ہونے والے نتائج کی مناسبت سے اچھے یا برے کے طورپر محسوس کیے جاتے رہے ہیں۔ اب دیکھئے غزہ میں بسنے والے فلسطینی عوام کے ساتھ جو ہو رہا ہے ، وہ ان کے لیے ان کی تاریخ کا سب سے دردناک اور آزمائشی دور ہے ، حماس کی تنظیمی کارروائی کا بدلہ اسرائیل نے مسلسل اسّی دنوں سے غزہ میں فلسطینیوں کو اپنے جنگی انتقام کا نشانہ بنائے ہوئے ہے ، اجتماعی طورپر لوگوں پر ظلم کرنا، عتاب نازل کرنا Collective Punishment عالمی ضابطے کی خلاف ورزی ہے ۔ اقوام متحدہ کی کسی بھی قرار داد اور ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے جاری جنگ میں بربریت کا نیا باب لکھنے والے اسرائیل کو تاریخ انسانی میں بے گناہوں پر ظلم کرنے والے قاتل کے طور پر دیکھا جائے گا۔ ویسے غزہ میںاور ساتھ جڑے ہوئے علاقوں میں فلسطینیوں کیلئے اسرائیل کی جانب سے جنگ اوراس سے متعلقہ تباہ کاریاں نئی نہیں ہیں، مگر حالیہ جنگی حملوں نے جس نہج پر تباہی مچائی ہے ، وہ ہر شریف انسان کی جانب سے ہر اعتبار سے کڑی مذمت کے قابل ہے ۔ War Crimes کے اعتبار سے یہ سال غزہ کے عوام کیلئے تباہ کن اور آزمائشوں سے بھرا رہا، جہاں وہ بمباری اور ہجرت کے کرب Displacement سے بری طرح نبرد آزما رہے ۔ یوکرین میں مچی جنگ بھی گزشتہ سال سے اس پورے سال میں بھی برابر تباہی مچاتی رہی۔ جنگی اسلحے سے جو طاقتور ہے وہ نہتے لوگوں پر قابض ہوتا آرہا ہے ، غزہ میں بیس ہزار سے زائد فلسطینی جنگ کی بمباری میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں آٹھ ہزار معصوم بچے اور چھ ہزار سے زائد خواتین شامل ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہیں جن کا علاج ایک مشکل ترین مسئلہ بن گیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اب بھی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی اپنے مکانوں اور زمین سے دور پناہ گزیں کیمپوں میں جنگی مصیبتوں کا سامنا کررہے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور تکبر کا گھنائوناپہلو ہے ، دنیا کے ہر کونے میں امن پسندوں نے اس رویہ کی شدید مذمت کی ہے۔ اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
وطن عزیز ہندوستان میں جہاں ملک کے نام کو ہی تبدیل کرنے کی کوششیں دیکھی جارہی ہیں۔ وہیں منی پور کے تشدد کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات مرکزی حکومت کی جانب سے نہیں دیکھے گئے۔ جب آپسی تشدد کی آگ میں منی پور جل رہا تھا۔ان دنوں میں آسام سے ملک کے وزیر داخلہ نے شہریت قانون کے نفاذ کے ممکنات کا اعلان کرتے ہوئے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ اب بھی سی اے اے اور این آر سی کی ننگی تلوار لٹک رہی ہے۔
اس سال کے اواخر نومبر میں منعقدہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی ا نتخابات میں بی جے پی کی تین ریاستوں میں کامیابی نے اس پارٹی کے حوصلے بلند کردئے ہیں۔ سمجھا جارہا ہے کہ اگلے سال 2024 کے وسط میں مجوزہ لوک سبھا انتخابات میں مودی کا جادو پھر سے چل جائے گا اور ملک کی کمان مودی کی مضبوط قیادت میں رہتے ملک ترقی کے نئے مرحلے اور نئی منزلیں طئے کرلے گا۔ اور اس طرح بھارت پوری دنیا کی قیادت کرنے والا ’’وشوا گرو‘‘ بن جائے گا۔
اب عالمی قیادت کا دعویٰ کرنے والا ہمارا ملک کچھ ابتدائی بیانات کے بعد غزہ میں مچی اسرائیل کی بربریت پر خاموش ہوگیا ہے۔اسرائیل کی مذمت یا مخالفت کے لیے یہاں احتجاج پر بھی پابندی لگی ہے۔ دنیا بھر میں انسانیت کے طرفدار اسرائیل کی سفاک اور بے رحمانہ بربریت کی مذمت کررہے ہیں۔ رائٹ ونگ کے نظریات کے حامی اسرائیل کی حمایت میں لگے ہیں۔
بے روزگاری ختم کرنے اور نئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے وعدے اس سال بھی حکومتوں کی جانب سے چاہے وہ مرکز میںہوں یا ریاستوںمیں ، ادھورے ہی رہ گئے ۔ بڑھتی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم کیے تو شرح پیداوار زرعی ناقص پالیسی کے باعث تو کبھی برساتوں کی ناہمواری کے باعث متاثر ہوتی رہی ۔ روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ نے کئی معاشی مسائل کو ترقی کے لیے رکاوٹ کا باعث بنا کر رکھ دیا ہے۔ جس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، اس سے یہ واضح طورپر ظاہر ہو رہا ہے کہ سکیولرزم کا دم بھرنے والے ہمارے ملک میں کسی نہ کسی وجہ یا بہانے سے فرقہ پرستی کے ماحول کو گرمائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اگلے سال 2024 جنوری کے اوائل میں ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح ہونے جا رہا ہے ۔ سال 1992 سے جو مندر مسجد کا تنازعہ گرمایاگیا تھا، اب اس کی تعبیر پر بی جے پی اور تمام ہندوتوا واد کی تنظیمیں شاداں ہیں، یہی کارنامہ اب لوک سبھا انتخابات میں بھنایا جائے گا۔ قومی دھارے میں سب کی شمولیت کی باتیں اور نعرے بازی تو ہوتی رہی ہے ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے معنی Inclusive Development ہے ۔ مگر کہنے اور کرنے میں اس معاملے میں بھی اس سال بڑا فرق دیکھنے میں آیا ہے ۔ جب بہار میں تمام ذاتوں کے سروے رپورٹ Caste Census کو منظور کرنے اور سفارشات لاگو کرنے کا جرأتمندانہ اعلان ہوا تو اعلیٰ ذات کے ٹھیکیدار اس ضمن میں مشکلیں پیدا کر رہے ہیں۔ کرناٹک میں سیاسی طورپرطاقتور بتائے جانے والے وکالیگا اور لنگایت طبقات نے ذات پات ، اعداد و شمار رپورٹ کو منظور کرنے اور اس کے مشمولات کو ظاہر کرنے پر مخالفت کرتے ہوئے اپنا دباؤ بنائے ہوئے ہیںکہ یہ رپورٹ منظور نہ ہو ،یہاں مجوزہ رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیںکہ یہ غیر سا ئنٹفک ہے ۔ یعنی کسی بھی طرح پسماندہ طبقات بشمول مسلمانوں کے ان کی ترقی کے لیے کوئی معقول اقدامات نہ کیے جائیں۔ ان کے مسائل ویسے ہی رہیں جیسے پہلے سے رہے ہیں۔ جسٹس سچر کمیٹی رپورٹ کی سفارشات کا کیا حشر ہوا وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ مفاد پرستوں کے لیے کوئی مہینہ یا سال کوئی معنی ہی کہاں رکھتا ہے ؟ وہ تو معصوم لوگ ہیں جو سال کو اچھے یا برے کے طورپر دیکھتے ہیں۔
azamshahid1786@gmail.com cell:9986831777

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا