زہر پھر زہر ہے….

0
44

زہر وہ شے ہے جسے کھا کر زمانے کے مصائب اور اپنوں کے دکھ درد سے کم ہمت لوگ نجات پا جاتے ہیں یا پھر اس کو کھلا کر لوگوں کو مارا جاتا ہے مگر آج کے دور میں زہر ہر سطح اور ہر جگہ پر پایا جاتا ہے فضا بھی زہر آلود ہو گئی ہے اور اذہان بھی فرقہ واریت کے زہر میں بجھے ہوئے ہیں۔ زہر وہ شے ہے جسے کھا کر زمانے کے مصائب اور اپنوں کے دکھ درد سے کم ہمت لوگ نجات پا جاتے ہیں یا پھر اس کو کھلا کر لوگوں کو مارا جاتا ہے مگر آج کے دور میں زہر ہر سطح اور ہر جگہ پر پایا جاتا ہے فضا بھی زہر آلود ہو گئی ہے اور اذہان بھی فرقہ واریت کے زہر میں بجھے ہوئے ہیں۔گھریلو جھگڑوں میں پیدا ہونے والی دشمنی جب بھلائی نہیں جاتی یا اسکول کالج میں ہونے والا معمولی جھگڑا دل میں پھانس بن کر چبھ جاتا ہے اور جب کھل کر نہیں لڑ پاتے تو آہستہ آہستہ زہر بن جاتا ہے اور گھر والوں اور دوستوں کو دشمن بنا دیتا ہے میٹھی زبان میں غلطیوں کو درست کہنا غلطیاں کرنے پر اکسا نا ان سب کے ذریعے کسی کو دوسروں کے سامنے نیچا دکھانا اسے میٹھا زہر کہہ سکتے ہیں۔  آج لوگوں کی باتوں میں بھی زہر ہے جب لوگ کسی کی ترقی سے جلتے ہیں تو زہر اگلتے ہیں ۔۔۔کسی کی شہرت سے جلتے ہیں زہر اگلتے ہیں اور اسی کوشش میں رہتے ہے کہ کسی طرح نیچا دکھایا جائے حد درجہ بڑی باتیں دوستوں کو بھی دشمن بنا دیتی ہے، نکتہ چینی یا کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا اپنی کمتری کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے اسے حسد کا زہر کہہ سکتے ہیں۔  کسی کی سن نہیں سکتے تو کسی کو کچھ کہنے کا بھی ہمیں حق نہیں اور جب ایسا ہوتا ہے کہ ہماری باتوں کا جواب ہمیں ملتا ہے تو ہماری زبان تلخ ہوجاتی ہے ۔آہستہ آہستہ غصہ عروج پر اورشیطان ہم پر غالب ہو جاتا ہے. ہم انسانوں کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے مگر ہم یہاں پر کتے بلیوں کی طرح ایک دوسرے پر وار کر رہے ہیں. ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پارسا ہے ہم سے غلطیاں نہیں ہوتی اور جو بھی غلطی ہوتی ہیں وہ دوسروں کی غلطیوں کا خمیازہ ہے مگر یہ سوچنا ہی سب سے بڑی غلطی ہے. اسے سوچ کا زہر کہتے ہیں.. انسان دوسروں کی غلطیوں کی فکر میں غلطاں رہ کر یہ زہر خود ہی اپنے اندر کشید کرتا رہتا ہے اور پھر اس کی سوچ زہر آلود ہو جاتی ہے۔کارٹونسٹ اپنا نظریہ لکیروں سے خاص کر ان دنوں جب الیکشن چل رہے ہو ںآرٹسٹ اپنی سوچ کینوس پرتو ،،رائٹر قرطاس پرتو کبھی طنز اور مزح کے انداز میں شاعر اپنی شاعری کو رنگین بنا دیتا ہے. انہیں زبانی جنگ کی ضرورت نہیں پڑتی یہ اپنی جنگ قلم سے لڑتے ہیں قلم کا وار کھالی جا سکتا ہے اگر پڑھا نہ جائے مگر کسی نہ کسی کو سبق ضرور دے جاتا ہے ۔۔۔۔اسے دھیما زہر (سلو پوائزن) بھی کہا جاسکتا ہے لہٰذا اس کو بیکار نہیں کہہ سکتے یہ کبھی نہ کبھی اثر کر ہی دیتا ہے اور اس پر کان میں زہر گھولنے کی بات کچھ اور ہی انداز رکھتی ہیں یہ زہر انسان کو بے موت مار دیتا ہے آجکل ہمارے معاشرے میں ڈر گس نے نوجوانوں کو اپنے شکنجے میں جھکڑ لیا ہے منشیات کی لت نے انہیں بےکار بنا دیا ہے اس لت سے انہیں باہر نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہوا میں پھیلا زہر پیڑ پودے لگا کر کم کیا جاسکتا ہے جسم میں پھیلازہر دواؤں سےسے زائل کیا جا سکتا ہے. مگر دماغ میں پھیلے زہر سے صرف اللہ تعالیٰ ہی شفا دے سکتا ہے ۔  انسان اس زہر سے خوامخوا ہی تڑپتا رہتا اپنی عزت کو داؤ پر لگا بیٹھتا ہے ۔۔زہر سانپ کا ہو یا خیالات کا دونوں صورتوں میں نقصان دہ ہےزہر ہر صورت اور ہر حال میں زہر ہے اس کے استعمال اور دوسروں پر طنز و مزاح کے بے جا نشتر چلانے سے بھی گریز کرنا چاہیے میٹھے بول اور پیار و محبت سے امن اشتی پھیلتی ہے اللہ ہمیں نیک ہدایت دے۔ ۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا